حضرت میاں شیر محمد شرقپوری
حضرت میاں شیر محمد شرقپوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: میاں شیر محمد۔لقب: شیر ِربانی۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری بن میاں عزیز الدین شرقپوری بن محمد حسین بن مولانا غلام رسول بن حافظ محمد عمر بن حضرت صالح محمدعلیم الرحمہ۔حضرت شیر ربانی کےوالد گرامی جناب میاں عزیز الدین شکل وصورت میں باپ بیٹا مشابہ تھے۔سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے۔اکثر سلسلہ قادریہ کےاوراد وظائف میں مصروف رہتے۔رہتک (انڈیا) میں ملازمت کرتےتھے۔اسی جگہ سفر آخرت اختیار کیا۔آپ کےجدِامجد حضرت مولانا غلام رسولاپنےوقت کےعالم وعارف اور صاحبِ کرامات بزرگ تھے،ان کےوالد بزرگوار جناب حافظ محمد عمرایک ماہر کاتب اور حاذق حکیم،اور بہت ہی سعادت مند اور صالح تھے۔حضرت شیر ربانی کے جداعلیٰ حضرت میاں صالح محمدقرآن مجید کی کتابت کیا کرتےتھے۔صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔حضرت شیر ربانی کےآباؤ اجداد افغانی پٹھان تھے۔افغانستان میں شاہی خاندان کے اساتذہ و اتالیق کا شرف حاصل تھا۔ہندوستان میں جب اسلامی فتوحات کاسلسلہ شروع ہوا تو عرب وعجم کے دیگر علماء ومشائخ کی طرح یہ حضرات بھی دیپالپور میں وارد ہوئے۔کچھ عرصہ بعد دیپالور میں جب قحط سالی کا شکار ہواتو اس خانوادےنےوہاں سےنقل مکانی کرکےقصور کو اپنا مسکن بنالیا۔قصور اس وقت علم وفن کا بہت بڑا مرکز تھا۔بعد میں مولانا غلام رسول نے شرقپور کو اپنا مسکن بنالیا۔(تاریخ وتذکرہ خانقاہ شرقپور:33/ انوار جمیل:49)
تاریخ ِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1282ھ مطابق 1865ء کوشرقپور شریف ضلع شیخوپورہ پنجاب پاکستان میں ہوئی۔
قبل از ولادت بشارت: حضرت خواجہ امیر الدین(متوفی 1931) حضرت شیر ربانی کی ولادت سےقبل جب شرقپور میں تشریف لاتے تو فرماتے تھے:’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں کشف سے مطلع فرمایا ہے کہ اس مبارک خطہ میں ایک شیر ِخدا پیدا ہوگا‘‘۔اسی طرح آپ کی ولادت سے قبل ایک مجذوب شرقپور کا چکر لگاتےرہتےتھے۔جب لوگوں نےوجہ پوچھی توفرمایا:’’اس علاقے میں اللہ کریم کے مقبول بندوں میں سے ایک بندہ پیدا ہوگا،میں اس کی مست کرنے والی خوشبو سے اپنی روح کو مسرور اور دل ودماغ کو معطر کرتاہوں‘‘۔(تاریخ وتذکرہ خانقاہ شرقپور:35)
تحصیلِ علم: بچپن ہی میں آپ پر محبتِ الہٰیہ کا غلبہ تھا ۔حیاء کا یہ عالم تھا کہ گلی کو چے میں چادر اوڑھ کر گزرتے ۔محلے کی عورتیں کہا کرتی تھیں ہمارے محلہ میں لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ ختم قرآن پاک کے بعد مڈل اسکول شر قپور میں پانچ جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔ سکول سے واپس آکر مسجد کے کسی کونے میں بیٹھ جاتے اور ذکر الٰہی میں مشغول ہو جاتے ۔ بعد ازاں فارسی کی کچھ کتابیں اپنے چچا حضرت حافظ حمید الدین اور جد مکرم حافظ محمد حسین سے پڑھیں ،حکیم شیر علی سے بھی کچھ پڑھا ۔اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ امیر الدینسےتصوف وسیرت کی کتب کادرس لیا۔ پھر خوشنویسی کا شوق پیدا ہوا اور اس فن میں کمال حاصل کیا ۔ کئی قرآن پاک جن کے ابتدائی اور آخری پارے بو سیدہ ہو گئے تھے ، انہیں خود لکھ کر مکمل کیا۔ظاہری طور پر صرف اسی قدر تعلیم حاصل کی لیکن قدرت ایزدی نے آپ کو علم لدنی کی دولت سے مالا مال کردیا۔بڑے بڑے علماء حاضر ہوتے تو خمیدہ سر، دوزانو ہو کر بیٹھتے اور آپ کے علوم و معارف سے مستفید ہوتے۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:180)
بیعت وخلافت: آپ کے خاندان کے ایک بزرگ حجرہ شاہ مقیم کےبزرگ پیر سید سعادت علی سےارادت رکھتےتھے۔لہذا شروع میں آپ انہیں کےپاس گئےتو انہوں نےآپ سےفرمایا:تم کسی بلند مرتبہ وکامل مرشد کی تلاش کرو۔ہم دستگیری کرنے سےعاجز ہیں۔ایک مرتبہ حضرت خواجہ امیر الدین نےفرمایا ہم بیس سال سےشرقپور میں جارہےہیں اور اس جستجو میں ہیں کہ اس طائر لاہوتی کواپنےدام میں لائیں،اور اسے نسبتِ نقشبندیہ اسے پہنچائیں۔بالآخر حضرت با با امیر الدین کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں اجازت وخلافت سے مشر ف ہوئے۔(تاریخ وتذکرہ خانقاہ شرقپور:35/ تذکرہ اکابر اہل سنت:180)
سیرت وخصائص: زبدۃ الاصفیاء،،عمدۃ الاتقیاء،سندالاولیاء،قطبِ ربانی،شیر ِ یزدانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری۔آپسلسلہ عالیہ نقشبندیہ کےجید مشائخ میں سےتھے۔آپ کاخاندان صدیوں سےعلم وفضل تقویٰ وعمل میں اپنی مثال آپ تھا۔آپ اپنے خاندان اور سلسلےکے بزرگوں کے وارث کامل اور مصطفیٰ کریم ﷺکےنائبِ اکمل تھے۔آپ کی روحانیں کرنیں،آفتاب نقشبندیت سے فیض یاب ہوکر شرقپور کے افق سے پھوٹیں اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے سارے جہاں کومنور کردیا۔حضرت شیر ربانی نے شرقپور شریف میں خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ کی بنیاد رکھی اور اپنی روحانی تربیت کی بدولت مخلوقِ خدا کو کتاب وسنت کی برکات سے مالا مال فرمادیا۔آپ نے اسلامی اقدار کےفروغ اور کتاب وسنت کی ترویج وترقی کےلئے شب وروز ایسی محنت فرمائی کہ لوگ کفر وضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر حلقہ بگوش اسلام ہونےلگے۔آپ کی ذاتِ گرامی نےسلسلہ عالیہ نقشبندیہ کےبحر روحانیت سے لاکھوں انسانوں کوجام ِ الست سے مخمور بنایا اور بڑی ہمت جرأت وہمت سے فسق وفجور اور بدعت وضلالت کےخلاف بیج بوئے اور عمر بھر ان کی آبیاری ونگہداشت فرماتےرہے۔
آپ اوصافِ حمیدہ،اخلاق حسنہ،کمالات ِ روحانیہ،میں اپنی مثال آپ تھے۔اتباع سنت کی عملی تصویر تھے۔شہرت ونمود کوناپسند کرتےتھے۔دین مبین کی نہایت سیدھے سادے انداز میں تلقین فرماتے جس کے اثر سے بڑے بڑے مغرب زدہ اور بھولے بھٹکے مسلمان راہ راست پر آجاتے۔آپ کو اشاعتِ دین کا بےحد شوق تھا۔عربی وفارسی کی نایاب قلمی کتابوں کے تراجم اپنی طرف سے شائع فرماتے۔ شرقپور اور اس کے گردونواح میں کئی مساجد تعمیر کروائیں۔ایثار وسخاوت کا یہ عالم تھا کہ جو پاس ہوتا،راہِ مولا میں لٹا دیتے۔سینکڑوں آپ کےدسترخوان پر پلتے۔کسر نفسی اور تواضع کی یہ کیفیت تھی کہ ملنے والوں سے السلام علیکم کہنے میں خود پہل کرتے۔کوئی تعظیمًا کھڑا ہوتا تو منع فرمادیتے۔
حضرت میاں صاحب قدس سرہ کی پُر کشش شخصیت سے فیض یاب ہونے کے لئے دور دراز سے لوگ حاضر ہوتے اور شاد کام واپس جاتے ۔ آنے والے ہر عقیدت مند کو شریعتِ مطہرہ کی پیروی کا حکم دیتے ۔بعض اوقات خلافِ شریعت صورت و سیرت رکھنے والے افراد کو صرف زبانی سمجھانے پر اکتفاء نہ کرتے بلکہ تھپڑ تک رسید کر دیتے ، کیا مجال کہ کوئی اُف بھی کر جائے ، ایسے افراد نادم ہو کر تائب ہو جاتے اور عمر بھر میاں صاحب کے ممنون رہتے ۔انگریز اور انگریزی تہذیب سے بہت زیادہ نفرت کرتےتھے۔ایک مرتبہ ایک ریلوے سپرنٹنڈنٹ آپ کی خدمت میں آیا ۔جس کی داڑھی مونچھ تراشیدہ تھیں اور سر پر محکمانہ ٹوپی رکھی ہوئی تھی۔آپ نے اس سے پوچھا کہ تمہیں انگریز کتنی تنخواہ دیتےہیں۔اس نے کہا ایک ہزار یا گیارہ سو روپے۔آپ نے اس کےمنہ پر ایسا زور سےتھپڑ مارا کہ اس کی ٹوپی دور جاگری اور پھر فرمایا کہ یہ ہزار روپیہ تمہیں منکر نکیر سے محفوظ رکھے گا اور پل صراط کو اسی کےذریعے پار کروگے۔کیا روزِ حساب رشوت دےکر جنت میں چلے جاؤگے؟یہ سب انگریزوں کی اولادہیں۔ ایک مرتبہ علماء کی مجلس میں ارشاد فرمایا۔آج لوگوں کا کیا حال ہے کہ باپ بیٹے کا دشمن،بیوی خاوند کی دشمن، اور ہمسایہ ہمسائے کادشمن ہے۔کیا آج سے بیس سال پہلے بھی لوگوں کی یہی حالت تھی ؟ حاضرین نے عرض کیا نہیں۔اس سےپہلے لوگوں کےدرمیان محبت،خلوص،اور ہمدردی تھی۔جو آج مفقود ہوچکی ہے۔آپ نےفرمایا کہ یہ تمام انگریزوں کی نحوست ہے۔(تذکرہ خانقاہ شرقپور:51)
شیر ربانی اور اعلیٰ حضرت: حضرت شیر ربانی اور امام احمد رضا خاں علیہماالرحمہ ہم عصر ہونے کےساتھ ساتھ ان کے عقائد ونظریات میں بھی ہم آہنگی تھی۔آپ نے بھی عقائد اہل سنت کی پاسبانی کا حق ادا کردیا۔جس طرح اعلیٰ حضرت گستاخانِ مصطفیٰﷺ سےنفرت کرتےتھے اسی طرح آپ خود بھی اور اپنے مریدین کو بھی ان سےدور رہنے کی تلقین فرماتےتھے۔مفتی غلام جان ہزاروی خلیفہ اعلیٰ حضرت سے ملاقات میں فرمایا مولوی احمد علی لاہوری (دیوبندی ) گزشتہ جمعہ یہاں آیا تھا ، وہ یہاں جمعہ پڑھانا چاہتا تھا۔لیکن میں اس کی بد عقیدگی کی وجہ سے نہیں پڑھانے دیا۔آپ کی مسجد کےمحراب پر لکھا ہواہے۔’’یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ‘‘۔مولانا صابر نسیم بستوی لکھتے ہیں: شیخ وقت حضرت شیر ربانی میاں شیر محمد شرقپوری کوخواب میں حضور غوث اعظم کی زیارت ہوئی۔میاں صاحب نےدریافت کیا حضور! اس وقت دنیا میں آپ کا نائب کون ہے؟ ارشاد فرمایا:’’بریلی میں احمد رضا‘‘۔(امام احمد رضا کاملین کی نظر میں:50)۔
بیداری کے بعد صبح ہی کو سفر کی تیاری شروع کر دی، مریدوں نے پوچھا حضور کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا : بریلی شریف کا قصد ہے ،رات فقیرنے خواب میں سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیار ت کی اور پوچھا حضور اس وقت دُنیا میں آپ کا نائب کون ہے تو فرمایا کہ ’’احمد رضا ‘‘ لہٰذا ان کی زیارت کرنے جا رہا ہوں ۔مریدوں نے عرض کیا حضور! ہم کو بھی اجازت ہو تو ہم بھی چلیں اور ان کی زیارت کریں آپ نے اجازت عطا فرمائی ۔شیر ربانی میاں شیر محمد صاحب اپنے مریدین کے ہمراہ شرقپور شریف سے بریلی شریف چل دیئے ۔یہاں بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ آج شیخِ پنجاب تشریف لارہے ہیں، اوپر والے کمرے میں ان کے قیام کا انتظام کیا جائے اس کمرے کو صاف کر کے فرش لگایا جائے۔جس وقت شیر پنجاب اعلیٰ حضر ت کے کاشانہء اقدس پر پہنچے تو اعلیٰ حضر ت پھاٹک پر تشریف فرما تھے اور فرما رہے تھے کہ فقیر استقبال کے لیے حاضر ہے۔ مصافحہ ومعانقہ کے بعد پھاٹک والے مکان کے اوپر حضرت کا قیام ہوا، تین روز تک یہیں قیام فرمایا، پھر اجازت چاہی(۔تجلیات امام احمد رضا از مولانا محمد امانت رسول قادری مطبوعہ برکاتی پبلیشر ز ص97/امام احمد رضا کاملین کی نظر میں:50)
قلندرِ لاہوری شیر ربانی کی بارگاہ میں:مفکر اسلام صوفیاء سےنہایت عقیدت رکھتےتھے۔صوفیاء کرام کےمزار کی حاضری اس کی واضح دلیل ہے۔ایک روزبوقت چاشت میاں محمد شفیع مرحوم(حضرت میاں صاحب کےخالہ زاد بھائی اور تحریکِ پاکستان کےمجاہد تھے) اور علامہ محمد اقبال یہ دونوں حضرات آستانہ عالیہ شیر ربانی میں پہنچے۔علامہ کو ملکانہ گیٹ ملکاں والے ڈیرے میں ٹھہرایا گیا اور خود سر محمد شفیع حضرت میاں کی خدمت گئے اور عرض کیا کہ حضور!علامہ آگئے ہیں۔اگر آپ کی اجازت ہوتو میں انہیں آپ کی خدمت میں پیش کروں ؟آپ نےفرمایا آجائیں۔تھوڑی دیر میں علامہ اور سر شفیع بیٹھک میں آکر بیٹھ گئے۔ابھی بیٹھے ہی تھے کہ حضرت میاں کےنیچےاترنے کی آواز آئی تو دونوں تعظیماً کھڑے ہوگئے۔میاں صاحب نےآتے ہی فرمایاکہ آج ہم جیسا کون ہے؟کہ ہمارےہاں اقبال آیا ہے۔آپ نےخادم سےفرمایا کہ حجام کو بُلا لاؤ۔ہماری داڑھی،مونچھیں بھی ان جیسی بنادے،ہاں،ہاں آج اقبال جو ہمارے ہاں آیا ہے۔(یہ آپ کی تبلیغ کا مشفقانہ انداز تھا جس کےذریعے علامہ کو احساس دلارہےتھے کہ آپ نے سنتِ مصطفیٰﷺترک کررکھی ہے)۔سر محمد شفیع تو اپنی حالت پر قابوپائے بیٹھے رہے،مگر علامہ کی رقت قابو میں نہ رہی اور ان کی آنکھوں سےساون کی جھڑی لگ گئی۔میاں صاحب نےدیکھتےہی سر شفیع سمیت تمام لوگوں کا باہر نکال دیااور علامہ کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو اقبال پرسکون ہوگئے۔عرض کیا حضور! گناہوں سےنفرت تو بجاہےلیکن گنہگاروں سےتو روا نہیں ہے۔ہم تو اہل درد ہیں اور پہلے ہی مایوسیوں کےمارےہوئے ہیں۔اگر آپ نےبھی ہمیں ٹھکرادیا تو ہمارا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟۔پھر علامہ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور رندھی ہوئی آواز میں کہا حضور!مجھے کافر بنادیا گیا ہے آپ مسلمان بنادیجئے۔حضرت میاں صاحب نےفرمایا:اقبال! خدا کی رحمت رونےوالوں کو بےحد پسند کرتی ہے۔گھبرائیں نہیں آپ مسلمان ہیں اور مسلمان ہی رہیں گے۔آپ کو کافر کہنے والے تمھارا نام عزت واحترام سےلیں گے۔منبروں پر تمھارے اشعار پڑھیں گے۔
بعد ازیں لنگر کھلایا احترام سے رخصت کیا۔علامہ کی آستانہ عالیہ شیر ربانی پر حاضری کےبعد ان کی عزت وتوقیر میں روز بروز اضافہ ہوتا گیااور پوری دنیا میں ان کےنام کا ڈنکا بجنےلگا۔یہ ایک ولی کامل کی زبان کا اثر ہے کہ آج ہر مکتبۂ فکر کے لوگ علامہ کے اشعار جھوم جھوم کر اسٹیجوں اور منبروں اور مجلسوں میں پڑھتے ہیں اور اپنے بیانات کومزین کرتےہیں۔یہ ملاقات 1927ء میں ہوئی اور حضرت میاں صاحب کاانتقال 1928ء میں ہوگیا۔اس پر علامہ اپنی مجلسوں میں بہت افسوس کرتےتھے،اور فرماتے کاش میں پہلے حضرت کےہاں حاضری کا شرف حاصل کرلیتا مگر بہت دیر سےان کےآستانے پر پہنچا۔کہاجاتاہے آپ سے متأثر ہوکر علامہ نےاپنے اس شعر میں آپ کی طرف اشارہ کیاہے۔
؏:نگاہِ مرد مؤمن سےبدل جاتی ہیں تقدیریں۔۔۔۔جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں۔۔۔
تاریخِ وصال: بروز پیر، 3/ربیع الاول1347ھ مطابق 20/اگست1928ء کو بعد نماز عشاء تقریباً ساڑھے گیارہ بجے شب، سورۃ الاخلاص کی تلاوت کرتےہوئے،65سال کی عمر میں واصل بحق ہوئے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔انوار جمیل۔تاریخ و تذکرہ شرق پور۔امام احمد رضا کاملین کی نظر میں۔تجلیات امام احمد رضا۔