حضرت میاں شیر محمد شرقپوری
شیرِ ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
عاشق ربانی شیر یز دانی، عارفِ اکمل حضرت میاں شیر محمد نقشبندی شرقپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے اجل اور صاحب کرامت ولی اللہ ہو گزرے ہیں آپ نے ساری زندگی سنت مطہرہ کی پیروی میں گزاری اور اپنے عقیدت مندوں کو بھی اسی بات کا درس دیا۔ آپ علم و فضل کے مرتبہ کمال پر فائز تھے ظاہری و باطنی علوم میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ لاتعداد افراد آپ کی صحبت کاملہ سے فیض یاب ہوئے تا حال آپ کے آستانہ عالیہ سے فیض کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
آباؤ اجداد:
عاشق ربانی حضرت میاںشیر محمد شر قپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آباؤ اجداد کابل افغانستان سے ہجرت کرکے پنجاب کے علاقہ قصور میں آکر مقیم ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس علاقہ میں قحط سالی کی وجہ سے حجرہ شاہ مقیم تشریف لے گئے اور وہاں پر قیام فرمایا آپ کے جد اعلیٰ مولوی غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ جن دنوں حجرہ شاہ مقیم میں سکونت رکھتے تھے ویدیوؤں نے اس علاقہ پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا اس دوران مولوی غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بھی گرفتار کرلیا گیا ان کی قید سے جب رہائی ملی تو حجرہ شاہ مقیم سے شرقپور شریف تشریف لے آئے اور اس مقام پر مستقل سکونت اختیار کی۔ حضرت میاں شیر محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد ماجد میاں عزیز الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے جو قادری طریق میں بیعت تھے نہایت نیک سیرت اور پاک طینت بزرگ تھے رہتک میں ملازمت کرتے تھے اور وہیں پر ان کا انتقال ہوا۔
ولادت باسعادت:
آپ کی ولادت سے قبل ایک مجذوب بزرگ شر قپور شریف میں تشریف لائے اور اکثر آپ کے گھر کے گرد چکر لگاتے ہوئے لمبے لمبے سانس لیتے جیسے کہ کوئی خوشبو سونگھتا ہے جب اُن سے پوچھا جاتا تو کہتے کہ اس گھر سے دوست کی خوشبو آرہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ ہوگا اسی طرح آپ کی ولادت سے قبل حضرت خواجہ امیر الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اکثر شرقپور شریف جانا شروع کردیا تاکہ اس با برکت بچے کو نسبت نقشبندیہ سے مستفیض فرمائیں۔ ۱۲۸۲ھ میں حضرت میاں شیر محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت باسعادت شرقپور شریف میں ہوئی ولادت کے ساتویں دن آپ کا اسم پاک شیر محمد رکھا گیا۔
بچپن کے اہم واقعات:
حضرت میاں شیر محمد صاحب شرقپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مادر زاد ولی اللہ تھے جو کوئی آپ کو دیکھتا تو بے اختیار کہہ دیتا کہ آپ مادرزاد ولی اللہ ہیں۔ آپ کا بچپن عام بچوں کی طرح نہ تھا آپ بچپن سے ہی گوشہ نشینی کو پسند فرماتے تھے بچوں کے ساتھ کھیلتے کودتے نہ تھے آپ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ چھوٹی سی عمر میں بھی جب کبھی محلّہ سے گزرتے تو سر مبارک پر چادر اوڑھے ہوئے ہوتے محلّہ کی عورتیں آپ کی نگاہ کی پاکیزگی اور حیاء کی قدر کرتی تھیں۔ بچپن سے ہی آپ کی پیشانی مبارک سے نور ولایت ہویدا تھا۔ آپ کی طبیعت بچوں کے ساتھ کھیل کود کی طرف مائل نہ ہوئی تھی اور نہ ہی آپ کھیل کود میں وقت ضائع کرنا پسند فرماتے تھے آپ بچوں سے الگ تھلک رہا کرتے تھے۔
تعلیم و تربیت:
آپ کو قرآن حکیم پڑھنے کی غرض سے مکتب میں داخل کرایا گیا تو آپ نے بہت جلد قرآن حکیم پڑھ لیا اس کے بعد عربی اور فارسی کی دیگر کتب کی تعلیم حاصل کی علاوہ ازیں لکھنے میں بھی خاص مہارت حاصل کرلی کہا جاتا ہے کہ بچپن میں آپ کے جد امجد حضرت مولانا مولوی غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کو قرآن حکیم کا سپارہ پڑھنے کے لیے دیتے تو آپ پڑھتے ہوئے اس قدر زاری کرتے کہ آنسوؤں کے ٹپکنے کی وجہ سے چند دنوں میں ہی سپارہ کے اوراق گیلے ہوکر پڑھنے کے قابل نہ رہتے اس ضمن میں جب آپ کے جد امجد آپ سے باز پُرس کرتے تو آپ خاموشی اختیار کرتے اور جب زیادہ پوچھا جاتا تو رو پڑتے تھے۔
بیعت و خلافت:
حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوٹلہ شریف میں حضرت بابا امیر الدین نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت سے مشرف ہوئے اور علوم باطنی کی برکات سمیٹیں اپنی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت میاں شیر محمد صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت بابا امیر الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوٹلہ شریف والے شرقپور میں تشریف لاتے تو ہماری مسجد میں ان کی تشریف آوری ہوتی اور وہ میرے جد امجد کے پاس ٹھہرتے اور چلے جاتے اور پھر تشریف لے آتے۔ کچھ مدت کے بعد مجھے بیعت کی سعادت حاصل کرنے کی ترغیب دلانی شروع کی لیکن میرا دل نہیں مانتا تھا میں خیال کرتا تھا کہ میں اس عمر رسیدہ بزرگ سے بیعت نہیں کروں گا چونکہ حضرت بابا امیر الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میری تاک میں رہتے تھے آخر کار مجھ پر تصرف فرمایا اور میں بیعت کے لیے راضی ہوگیا۔
کرامات:
حضرت میاں شیر محمد صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بلاشبہ صاحب کرامت ولی اللہ تھے مگر کرامت کے اظہار کو پسند نہ فرماتے تھے اس کے باوجود آپ سے بہت سی کرامات کا ظہور صادر ہوا۔ آپ مستجاب الدعوات اور بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندے تھے ذیل میں آپ کی چند کرامات کا بیان کیا جاتا ہے۔
کھانے میں برکت:
ایک مرتبہ آپ کے ہاں تقریباً بیس مہمان آکر ٹھہرے ان کے لیے خورد و نوش کا انتظام کیا گیا لیکن جب مہمانوں کو کھانا کھلانے کے لیے ان کے آگے کھانا رکھا گیا تو عین اسی وقت تقریباً بیس اشخاص مزید آگئے یہ دیکھ کر آپ نے درویشوں سے فرمایا کہ گھر سے جاکر مزید روٹیاں لے آؤ۔ درویشوں نے عرض کی کہ گھر میں تو مزید کوئی کھانا نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا تو پھر بازار سے ہی لے آؤ۔ آپ کے حکم کے مطابق درویش بازار سے روٹیاں لینے کے لیے چل دیا ابھی وہ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ آپ نے اسے واپس بلوالیا اور فرمایا رہنے دو جو موجود ہے وہی انشاء اللہ کافی ہے۔ آپ نے اُن آنے والوں کو بھی دستر خوان پر بٹھادیا انہوں نے بھی کھانا شروع کردیا۔ جب سب لوگوں نے کھالیا تو اس کے باوجود بہت سا کھانا بچ گیا۔
چوہوں نے نقصان نہ پہنچایا:
آپ کے ایک خادم میاں احمد دین شاہ پوری بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شاہ پور میں تشریف لائے تو ہم ان کی خدمت میں عقیدت مندانہ حاضر ہوئے چونکہ اُن دنوں چوہے فصلوں کا بہت زیادہ نقصان کرتے تھے اس وجہ سے سب لوگ کافی پریشان تھے میں نے عرض کیا کہ چوہے فصلوں کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں آپ نے فرمایا، تمہاری فصل کہاں ہے؟ اس پر میں آپ کو اپنے کھیت میں لے گیا آپ میرے کھیت میں چلے گئے اور چلتے ہوئے دوسری طرف سے باہر نکل گئے اس دن کے بعد چوہوں نے ہماری فصل کا نقصان نہ کیا جب کہ ہمارے ارد گرد کے دوسرے کھیتوں میں چوہے اسی طرح فصل خراب کرتے رہے۔
تھانیدار گرویدہ ہوگیا:
ایک مرتبہ آدمی رات کے وقت حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بازار میں تشریف لے جارہے تھے اسی دوران ایک سکھ تھانیدار اپنے سپاہیوں کے ساتھ گشت کر رہا تھا تھانیدار نے دور سے آپ کو دیکھا تو آواز دی آپ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اس پر تھانیدار نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس شخص کو پکڑ کر لے آؤ سپاہی دوڑے ہوئے آئے اور آپ کو لے گئے۔ سپاہی آپ کو جانتے تھے اس لیے انہوں نے آپ کے متعلق تھانیدار سے کہا کہ یہ تو میاں صاحب سائیں لوگ ہیں۔ تھانیدار بڑے تکبر سے بولا، تم نہیں جانتے میں ان لوگوں کو خوب جانتا ہوں یہ لوگ چوروں اور ڈاکوؤں کے تھامو(سنبھالنے والے) ہیں۔ آپ نے تھانیدار کو کچھ نہ کہا تھانیدار نے بھی اور کوئی بات نہ کی آپ اپنے گھر تشریف لے گئے اگلے دن آپ آغا سکندر شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ملاقات کرنے کی غرض سے پشاور تشریف لے گئے اسی رات چوروں نے تھانیدار کے گھر میں چوری کر ڈالی اس کے بعد تھانیدار کے دل میں آپ کا اعتقاد پیدا ہوگیا اور وہ جب تک شرقپور تک شرقپور شریف میں رہا آپ کی خدمت میں اکثر حاضر ہوکر عقیدت کا اظہار کرتا۔
سکھ مسلمان ہوگیا:
ایک مرتبہ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لاہور تشریف لائے اور اپنے مرید کے ہمراہ لوہاری گیٹ کے باہر سے گزرے ان دنوں لاہور میں سکھوں کا کوئی میلہ تھا جس کی وجہ سے دوسرے شہروں اور دیہات سے بھی بہت سے سکھ لاہور آئے ہوئے تھے۔ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب لوہاری گیٹ کے باہر سے گزر رہے تھے تو عین اس وقت انار کلی سے سکھوں کا ایک جتھہ باہر نکل رہا تھا آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا سکھوں سے آمنا سامنا ہوگیا ان سکھوں میں ایک نہایت خوبصورت وجیہہ و شکیل، خوبرو نوجوان بھی تھا آپ نے اس سکھ نوجوان کی طرف ایک بھرپور نگاہ ڈالی اور بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اے اللہ! اس قدر خوبصورت شخص دوزخ میں جائے میرا دل نہیں چاہتا، یا اللہ! تو اس کو اسلام کی دولت سے مالا مال فرمادے اور جنت کا حقدار ٹھہرا دے ابھی آپ یہ دُعا مانگ ہی رہے تھے اور آپ کی نگاہ کاملہ سکھ نوجوان کی طرف مبذول تھی کہ وہ سکھ آپ سے مخاطب ہوکر بولا، میاں جی! مجھ سے آپ کو کوئی کام ہے یا آپ مجھے کچھ کہنا چاہتے ہیں میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اُس سے فرمایا، جوان! تمہیں مَیں نے کیا کہنا ہے جسے کہنا تھا اُس سے کہہ دیا ہے سکھ نوجوان حیرت سے بولا، مجھے بھی تو بتائیں کہ آپ نے کس کو اور کیا کہا ہے۔ آپ نے فرمایا، میں نے کہا تو اللہ تعالیٰ سے ہے اور تمہارے متعلق کہا ہے کہ اس قدر خوبصورت چہرے والے خوبرو نوجوان کو دوزخ میں نہیں جانا چاہیے۔ اب اُس کی منشاء ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ سکھ نوجوان یہ بات سُنتے ہی فوری طور پر آپ کے قدموں پر گر گیا اور آپ سے عرض کی کہ مجھے کلمہ اسلام پڑھائیں۔
اس نوجوان کے ساتھی سکھوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو انہوں نے سکھ نوجوان کو سمجھانے کی کافی کوشش کی اور اسے واپس چلنے پر مجبور کرنے لگے لیکن اُس نوجوان کے قلب پر حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نگاہ کاملہ کا اثر ہوچکا تھا اس نے کہا کہ مجھے تو میری منزل مل گئی ہے میں اب واپس کہاں جاؤں اور کیوں جاؤں۔ اس طرح وہ نوجوان قبول اسلام کے بعد پکا سچا مسلمان بن گیا اور حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خاص مریدوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔
انگلی ٹھیک ہوگئی:
آپ کے ایک عقیدت مند بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے بائیں ہاتھ کی انگلی پر ایسی زبردست چوٹ لگی کہ جس کے باعث ہڈی ٹوٹ گئی کئی ماہ تک میں نے علاج کرایا مگر کوئی فرق نہ پڑا آخر کار انگلی ٹیڑھی ہوکر بالکل خشک اور ناکارہ ہوگئی اپنے معمول کے مطابق ایک دن میں شرقپور شریف میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کی نگاہ میری انگلی پر پڑی تو اس کے متعلق آپ نے مجھ سے پوچھا اس پر نے ساری بات آپ کو بتادی آپ نے اُسی وقت اپنا دست اقدس میرے ہاتھ پر رکھا اور میری انگلی بالکل ٹھیک اور درست حالت میں ہوگئی جیسا کہ تندرستی کی حالت میں تھی۔
قرض خواہوں نے تنگ نہ کیا:
ایک مرتبہ قصور کا ایک شخص میاں نور حسن اپنے ایک عزیز کے ہمراہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میاں صاحب! ہمیں کاروبار میں سولہ ہزار کا نقصان ہوگیا ہے۔ اس کی یہ بات سُن کر آپ ہنس دیے۔ اس نے جب کئی مرتبہ التجا کرتے ہوئے اپنی بات کو دہرایا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا میں کب چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کا نقصان ہو کچھ توقف کے بعد فرمایا جاؤ تمہیں کوئی تنگ نہیں کرے گا۔ اس بات کو ایک مدت گزر گئی اس دوران کبھی کبھار آپ دریافت فرماتے کیوں بھئی قرض خواہوں نے کبھی تقاضہ تو نہیں کیا؟ عرض کیا کہ تقریباً دس برس تو گزر چکے ہیں کسی نے اپنے قرض کا مطالبہ نہیں کیا۔
درد ختم ہوگیا:
ایک مرتبہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے ناف تلے بہت شدید درد ہو رہی ہے یہ سُن کر آپ جلال میں آگئے اور فرمایا اس طرح کی درد مجھے تو کبھی نہیں ہوئی تمہیں کیوں کوئی؟ حاضرین میں سے ایک شخص کیا کہنا ہے کہ میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ بات کہنے کی کیا ضرورت ہے اگر آپ کو کبھی درد نہیں ہوئی تو ضروری نہیں کہ دوسرے کو بھی نہ ہو۔ اسی اثناء میں وہ شخص پکار اُٹھا میاں جی! میری درد ختم ہوگئی ہے۔
سیرت مبارک واقعات کے آئینہ میں:
حضرت میاں شیر محمد صاحب شرقپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی سیرت مبارکہ سنتِ مطہرہ کی پیروی کا ایک بہترین نمونہ تھی آپ حضور سرکارِ مدینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت مطہرہ کی پیروی کرنے کی ہر ایک کو تلقین فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ کی خدمت میں ایک مولوی صاحب حاضر ہوئے اور زمانے کی بے ثباتی کے متعلق باتیں ہونے لگیں مولوی صاحب نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حدیث مبارکہ میں بھی اسی طرح ہی آیا ہے کہ قیامت کے نزدیک مساجد کی تعداد بہت ہوگی جب کہ نمازی کم ہوں گے فسق و فجور اس قدر بڑھ جائے گا کہ اسلام کا صرف نام ہی رہ جائے گا۔ حدیث مبارکہ کے مطابق یہ سب کچھ تو ہوگا آپ نے مولوی صاحب کی بات سُن کر فرمایا مولوی صاحب! اگر کسی جاری نہر میں جابجا سوراخ ہوجائیں اور ان سوراخوں سے پانی نکل کر جابجا بہنا شروع ہوجائے تو کدال لے کر ان سوراخوں کو مزید کھلا کرنا چاہیے یا ان کو بند کردینا چاہیے مولوی صاحب نے آپ کی یہ بات سُنی تو حیرت زدہ ہوئے اور عرض کی کہ ایسی صورت میں تو سوراخوں کو بند کردینا ہی مناسب ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا، اس وقت سنت مطہرہ کی حفاظت کی شدید ضرورت ہے ایسے دور میں جو کوئی سنت مطہرہ کی حفاظت کرے گا حضور سرکارِ مدینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ روز محشر وہ میرے ساتھ ہوگا بلکہ اسے سو شہیدوں کا ثواب عطا کیا جائے گا۔
رشوت خور افسر پر ناراضی:
آپ رشوت لینے والے سرکاری اہلکاروں کو پسند نہ کرتے تھے جس کسی حاضر ہونے والے شخص کے متعلق آپ کو شبہ ہوتا کہ یہ رشوت خور ہے اور رشوت کی کمائی سے اپنی زندگی گزارتا ہے تو اس کی طرف توجہ نہ فرماتے تھے بلکہ اس سے کوئی نذر وغیرہ بھی قبول نہ فرماتے تھے اس کو آرام سے سمجھاتے رزق حلال سے زندگی گزارنے کی تلقین کرتے اسی طرح کسی ظالم افسر کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے اور اس کی طرف بھی توجہ نہ فرماتے تھے۔ رشوت خوروں سے آپ کو بڑی نفرت تھی ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ریلوے کا ایک سپر نٹنڈنٹ آپ کی خدمت میں عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے حاضر ہوا اس ریلوے افسر کا حلیہ بالکل انگریزوں جیسا تھا کلین شیو تھا ہیٹ سر پر رکھا ہوا تھا آپ نے اس کی طرف دیکھ کر ناگواری سی محسوس کی مگر بڑے آرام سے اس سے دریافت کیا کہ آپ کو کیا تنخواہ ملتی ہے؟ اس نے کہا کہ ایک ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے اور باقی اللہ کا فضل بھی خوب ہوجاتا ہے۔ زندگی بڑے مزے سے گزر رہی ہے۔ یہ سُن کر آپ کو اس قدر غصہ آیا کہ ضبط نہ کرسکے اور اس زور سے اس کے منہ پر تھپڑ مارا کہ اس کا ہیٹ دور جاگرا اور وہ خود بھی لڑکھڑا گیا، پھر فرمایا، یہ رشوت کی کمائی تجھے قبر میں منکر نکیر سے بچالے گی کیا پُل صراط پر یہ روپیہ تجھے پار کرادے گا اور کیا تو یہ رشوت کے پیسے دے کر جنت میں چلا جائے گا یہ کیسی مسلمانی ہے سب انگریز کے بچے بنے پھرتے ہیں پھر نہایت آرام سے اسے سمجھایا میاں! اللہ تعالیٰ کے قانون کی پابندی بھی کوئی چیز ہے وہ کون آکر کرے گا اپنے پیدا کرنے والے کے متعلق کچھ تو سوچو۔ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی باتیں سُن کر اُس ریلوے افسر پر اس قدر اثر ہوا کہ اس نے آئیندہ کے لیے رشوت لینے سے توبہ کی اور اپنی حالت درست کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
حق گوئی و بے باکی:
ایک مرتبہ ایک شخص نے عدالت میں نکاح پر نکاح کا جھوٹا دعویٰ دائر کیا اور اپنے دعویٰ میں اس نے تحریر کروایا کہ میرا نکاح حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پڑھایا تھا۔
اس پر عدالت کی طرف سے آپ کو بلوایا گیا تو آپ تحصیل میں تشریف لے گئے اور جوتیوں سمیت کمرے میں داخل ہوگئے دروازے پر کھڑے سپاہی نے آپ کو روکنا چاہا اور کہا کہ جوتے اتار کر اندر آئیں۔ آپ نے فرمایا، کیوں یہ کوئی مسجد ہے۔ تحصیلدار یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اُس نے سپاہی کو اشارہ کیا کہ ان کو منع نہ کرو جوتیوں سمیت ہی آنے دو۔ جب آپ تحصیلدار کے پاس پہنچے تو تحصیلدار نے آپ کی گواہی لینے سے قبل آپ سے کہا کہ آپ پہلے یہ اقرار کریں کہ میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا۔ آپ اس کی بات سُن کر مسکرائے اور نہایت بیبا کی سے فرمایا، تمہاری عدالتوں میں کہیں سچ بھی ہے؟ تحصیلدار کھسیانا ہوکر بولا، جو کچھ بھی ہے ہم نے کہلوانا تو ہوتا ہے خیر چھوڑیں اس بات کو یہ بتایئے کہ آپ فریقین کو جانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، نہ میں ان کو جانتا ہوں اور نہ ہی دوسرے فریق کو جانتا ہوں اور نہ ہی میں نے ان کا نکاح پڑھایا ہے۔ باوجود اس کے تحصیلدار ہندو تھا اس نے آپ کی حق گوئی کی بڑی قدر کی اور نہایت عزت و احترام سے آپ کو رخصت کیا۔
ظالم کی سرزنش:
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی بھی ظالم سے کوئی ہدیہ وغیرہ قبول نہ فرماتے تھے اور نہایت بیباکی سے اُس کے منہ پر کہہ دیتے تھے کہ ظالم ہو اپنی اصلاح کرو ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کی خدمت میں ڈپٹی سلطان احمد خان نے دو روپے نذر پیش کیے آپ نے اُس سے فرمایا کہ مجھے تمہارے دو روپے نہیں چاہیے تم ظالم آدمی ہو۔ ڈپٹی نے عرض کی، میاں صاحب! ظالم تو میں ہوں لیکن یہ دو روپے جو میں آپ کی نذر کر رہا ہوں میری تنخواہ میں سے ہیں اس کے باوجود آپ نے اس کے روپے قبول نہ فرمائے اور اسے واپس لوڑا دیئے اس نے کافی اصرار کیا مگر آپ نے انکار فرمایا اور اس کو چند نصیحتیں کرکے رخصت کردیا۔
طبیعت میں انکساری:
آپ کی طبیعت عالیہ میں انکساری اور کسر نفسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کسی کو بھی کمتر خیال نہ کرتے تھے اس بات کو قطعاً پسند نہیں فرماتے تے کہ کوئی آپ کی جوتی کو ہاتھ لگائے اگر کوئی عقیدت سے آپ کی جوتی سیدھی کردیتا یا آپ کے پاس رکھ دیتا تو اس پر خفا ہوتے اور فرماتے کہ اسے اب تم ہی لے جاؤ میں اس قابل نہیں ہوں کہ کوئی میری جوتیاں سیدھی کرے البتہ اگر کوئی بزرگوں کی جوتی اس طرح عقیدت سے رکھے تو اس میں کوئی قباحت نہیں مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہ رہے نہ میں بزرگ ہوں اور نہ ولی ہوں پھر تم لوگ میرے ساتھ اس طرح کیوں کرتے ہو۔
مزار پر حاضری:
آپ اکثر عقیدت و محبت سے مکان شریف تشریف لے جایا کرتے تھے ایک مرتبہ تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ایک شخص مزار پر سجدہ کر رہا ہے آپ نے اس پر ایک جلالی نگاہ کاملہ ڈالی وہ شخص الٹ کر گِر پڑا۔ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عادت مبارکہ تھی کہ جس بھی مزار پر حاضری دیتے قبر کو ہاتھ تک نہ لگاتے تھے خاموشی سے پاس کھڑے رہتے یا بیٹھ جاتے تھے۔ شریعت مطہرہ کے خلاف عمل ہوتا ہوا ملاحظہ فرماتے تو آپ پر جلال کی کیفیت طاری ہوجاتی۔
بھنگن کی مدد:
آپ ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کرتے ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کرنے کا جذبہ آپ میں بہت زیادہ تھا اس ضمن میں آپ کوئی تخصیص نہ رکھتے تھے مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر ایک کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھتے ایک مرتبہ آپ قصور تشریف لے گئے اور اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ قبرستان کی طرف تشریف لے جارہے تھے کہ بازار میں ایک بھنگن بازار کا کوڑا کرکٹ اور نجاست وغیرہ اکھٹی کرکے ایک ٹوکری میں ڈالے اس انتظار میں کھڑی تھی کہ کوئی ٹوکری اُٹھا کر سر پر رکھنے میں اس کی مدد کرے چونکہ ٹوکری نجاست سے بھری ہوئی تھی اس لیے کوئی بھی اس کے پاس کھڑا ہونا تک گوارا نہ کرتا تھا بھنگن کی گود میں اس کا ایک بچہ بھی تھا جس کی وجہ سے اُسے اکیلے ٹوکری اُٹھا کر سر پر رکھنے میں مشکل پیش آرہی تھی جیسے ہی آپ کی نظر اُس پر پڑی آپ فوری طور پر آگے بڑھے اس کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے وہ نجاست والی ٹوکری اُٹھا کر اس کے سر پر رکھ دی جو ساتھی آپ کے ہمراہ تھے وہ یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے اس کے بعد آپ ان کے ساتھ قبرستان کی طرف تشریف لے گئے۔
سمجھانے کا بہترین انداز:
ایک مرتبہ آپ حجرہ شریف میں تشریف لے گئے چونکہ یہاں پر آپ کے بزرگوں کا پیر خانہ تھا خانقاہ عالیہ کے گدی نشین جو اس وقت وہاں پر تھے اُن کی عادات ملاحظہ فرمائیں تو بہت بے چین ہوئے کیونکہ ان گدی نشین کی داڑھی کتری ہوئی تھی نماز کے اوقات کی پابندی میں غفلت سے کام لیتے تھے جب کہ شکار کی غرض سے بندوق اور کتے بھی رکھے ہوئے تھے آپ نے اُن سے فرمایا کہ یہ کون سا طریقہ ہے جو آپ نے اپنا رکھا ہے کیا آپ کے آباؤ اجداد اس طرح کے کام کرتے تھے یا حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ سنت ہے؟ گدی نشین کے دل پر آپ کی باتوں کا بڑا اثر ہوا کیونکہ شاید اس سے قبل اُن کو کسی نے اس طرح سمجھایا نہ تھا اس لیے شرمندہ بھی ہوئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اعتراف کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ سب کچھ میں نے اپنے بزرگوں کے خلاف کیا ہے اب آئیندہ کے لیے میں غیر شرعی افعال سے توبہ کرتا ہوں۔
بیٹھنے کا ڈھنگ:
حضرت میاں شیر محمد صاحب شرقپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زندگی کے تمام معمولات میں شریعت مطہرہ کی پیروی کا خاص طور پر خیال رکھا کرتے تھے اگر کوئی آپ کی مجلس پاک میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تو آپ اس پر خفا ہوتے اور فرماتے لوگوں کو بیٹھنے کا طریقہ بھی نہیں آتا پہلے بیٹھنے کا طریقہ تو سیکھنا چاہیے آپ دو زانو ہوکر بیٹھنے کو پسند فرماتے تھے۔
مسلمانوں کی حالت پر تنبیہہ:
ایک مرتبہ آپ فیض پور گاؤں میں پیر حسن شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فاتحہ کی غرض سے تشریف لے گئے آپ کی آمد پر گاؤں کے تقریباً تمام افراد اکٹھے ہوگئے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے وعظ فرمایا اور مسلمانوں کو ان کی حالت پر کافی تنبیہہ کی۔ ایک سکھ بھی وہاں پر موجود تھا آپ نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور مسلمانوں کا اس کی شکل و صورت سے موازنہ کرایا وہاں پر موجود مسلمون بہت شرمسار ہوئے اور آئیندہ کے لیے اپنے حلیے اور اشکال شباہت درست کرنے کا عہد کیا۔
عاداتِ مبارکہ:
حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عادات مبارکہ سنتِ مطہرہ کی پیروی کا بہترین نمونہ تھیں ذیل میں آپ کی روز مرہ کی چند عادات کا بیان کیا جاتا ہے کہ جس کے مطابق آپ نے اپنی حیات طیبہ اس دنیائے فانی میں گزاری۔
سلام کرنے میں پہل:
آپ سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے تھے اور اس معاملے میں سبقت فرماتے تھے رستے میں چلتے ہوئے اگر کوئی راستے میں مل جاتا تو اسے خود سلام کرتے البتہ کسی فاسق و فاجر شخص کو دیکھتے بعض مرتبہ تو شدید بیزری کا اظہار کرتے اور بعض مرتبہ نہایت پیار سے اُسے سمجھاتے اگر کوئی غیر مسلم آپ کی تعظیم کرتے ہوئے جھک کر آپ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتا تو آپ اسے کچھ نہ کہتے بلکہ خاموشی اختیار کرتے لیکن اگر کوئی مسلمان اس طرح عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے جھک کر گھٹنوں کو ہاتھ لگاتا تو شدید خفگی کا اظہار فرماتے تھے اور اس کو اس بات سے منع فرماتے تھے۔
اینٹ پتھر راستے سے ہٹانا:
آپ کا یہ معمول تھا کہ بازار میں جب تشریف لے جاتے تو چلتے ہوئے اپنی نگاہیں نیچی رکھتے اور اپنے قدموں کے آگے آگے رکھتے تھے اگر کوئی اینٹ، پتھر یا کوئی ایسی چیز جس سے راہ چلتے ہوئے ٹھوکر لگنے کا اندیشہ ہوتا اُس چیز کو اپنے ہاتھ سے اُٹھا کر راستے سے پَرے کردیتے تھے۔
لباس مبارک:
آپ کا لباس مبارک نہایت سادہ ہوتا۔ سادگی کو پسند فرماتے زیادہ باریک لباس پہننا اچھا نہیں سمجھتے تھے اس لیے آپ کا لباس موٹے کپڑے سے بنا ہوا ہوتا تھا عام طور پر سفید کپڑے زیب تن فرماتے سیاہ لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے پگڑی کے ساتھ ٹوپی ضرور پہنتے تھے اگر کوئی شخص صرف پگڑی پہنتا تو اس پر خفا ہوتے اور فرماتے کہ حدیث پاک میں آیا ہے نصاریٰ صرف ٹوپی پہنتے تھے اور یہودی صرف پگڑی پہنتے تھے جب کہ حضور سرکار مدینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دونوں چیزوں کا حکم فرمایا تھا، کئی لوگ آپ کی خدمت میں سرخ رومی ٹوپی پہن کر حاضر ہوتے تو آپ اس بات کو نا پسند کرتے تھے اور فرماتے کہ صرف ٹوپی عیسائی پہنتے ہیں اگر کسی نے صرف پگڑی پہنی ہوتی تو اسے آپ اپنے پاس ٹوپی دے دیا کرتے اس مقصد کے لیے آپ نے بہت سے توپیاں دیسی لٹھے کی سِلوا کر اپنے پاس رکھی ہوئی تھیں اگر کوئی آپ کے پاس صرف ٹوپی پہن کر حاضر ہوتا تو آپ اس کو پگڑی اپنے پاس سے عطا فرما دیا کرتے تھے۔
سیاہ جوتے سے نفرت:
حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سیاہ رنگ کے جوتے پہننا پسند نہیں کرتے تھے اگر کسی کے پاس سیاہ بوٹ دیکھ لیتے تو خفگی کا اظہار کرتے ایک مرتبہ ایک مولوی صاحب سیاہ رنگ کے جوتے پہن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے شدید ناراضی کا اظہار فرمایا اور ان سے فرمایا کہ لوگوں کو یہی وعظ سنایا کرتے ہو خود تو سیاہ جوتا پہنا ہوا ہے پھر آپ نے بازار سے ان کے لے ایک نیا جوتا خریدا اور مولوی صاحب کو دے دیا۔ آپ زرد رنگ کی جوتی پہننا پسند فرماتے تھے اور خاص طور پر قصور سے بنوایا کرتے تھے۔ زندگی میں کبھی آپ نے سیاہ جوتا استعمال نہیں فرمایا۔
دُو کرتے:
گرمیوں کے موسم میں آپ کا معموم تھا کہ آپ دو کرتے زیب تن فرمایا کرتے تھے اگر کوئی سوالی حاضر خدمت ہوتا تو ایک کرتہ اُتار کر اسے مرحمت فرمادیا کرتے تھے۔
تبلیغ و تلقین کرنا:
آپ کی عادت مبارکہ میں یہ بات شامل تھی کہ آپ ہر آنے والے کو نیکی کی تلقین ضرور فرمایا کرتے تھے کوئی دنیا دار آپ کی خدمت میں جب حاضر ہوتا تو آپ اس کو خاص طور پر نیکی کی طرف راغب کرتے ہوئے تلقین اس طرح فرماتے کہ آپ کی بات اس کے قلب پر اثر کرتی ایسے دنیا داروں سے آپ اکثر فرماتے کہ اب تو قرآن پاک کو لوگوں نے بالکل ہی چھوڑ دیا ہے حضور سرکارِ مدینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بے شمار تکالیف اُٹھا کر دین کو حاصل کیا اس عظیم مقصد کی خاطر اپنی جانوں کی پرواہ نہ کی بھوک اور پیاس برداشت کی مگر ہم لوگوں کو اس کی کوئی قدر نہیں ہے کیونکہ ہمیں تو بڑی آسانی سے دین پہنچا ہے اور ہم اپنے نفس کے پیچھے پڑگئے اپنی خواہشوں کو ہم نے اپنا خدا بنالیا ہے۔
شانِ بے نیازی:
ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ مجھے چوتھے کا بخار آتا ہے آپ نے اُسے ایک تعویز لکھ کر دیا جس کی برکت سے اُس کا بخار ختم ہوگیا اس پر وہ شخص ایک بھینس لے کر حاضر ہوا آپ نے دیکھا تو فرمایا میں نے بھینس رکھنی تو ہے نہیں تم سے لے کر جو کسی دوسرے کو دے دوں گا تو بہتر ہے کہ تم ہی اسے اپنے پاس رکھو اور واپس لے جاؤ چنانچہ وہ شخص اپنی بھینس کو واپس لے کر چلا گیا۔
ارشادات عالیہ:
حضرت میاں شیر محمد صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ارشادات عالیہ سے بھلائی اور اچھائی کا درس ملتا ہے آپ کا معمول تھا کہ آپ ہر آنے والے کو تلقین و ہدایت فرمایا کرتے تھے اور شریعت مطہرہ کے مطابق زندگیاں گزارنے کا سبق دیتے تھے ذیل میں اسی حوالے سے آپ کے چند ارشادات عالیہ بیان کیے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ
۱۔ اپنے سالن کی وجہ سے ہمسایہ کو تکلیف نہ دو اگر کوئی لذیذ سالن پکاؤ تو پہلے ہمسایہ کے گھر بھیج دہ جس شخص سے اس کا ہمسایہ ناراض ہو اس سے اللہ اور رسول ناراض ہو جاتے ہیں۔
۲۔ لوگوں کو لا الہ اِلا اللہ پر پورا یقین نہیں ہے اگر یقین ہو تو اعمال درست ہوجائیں۔
۳۔ ہر کام کو کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو۔
۴۔ توجہ یہ چیز ہے کہ مرید صادق کا خیال مرشد کی طرف ہو اور شیخ کا خیال مرید کی طرف ہو یہ ضروری نہیں کہ سامنے بٹھا کر خیال کیا جائے۔
۵۔ جب کسی طالب صادق کی طرف خیال کیا جاتا ہے خواہ وہ طالب کہیں ہو ہوا میں سے گزرتا ہوا وہ خیال اُس تک پہنچ جاتا ہے۔
۶۔ دیوار کی ایک ایک اینٹ بھی صاحب فکر کے لیے بڑا وعظ ہے مگر انسان غفلت میں غرق ہے۔
۷۔ جو پیر جبراً مریدوں کے گھر میں قیام کرتے ہیں وہ ظالم تھانیداروں سے کم نہیں ہیں۔
۸۔ توکل بڑی مشکل چیز ہے کوئی ہم سے پوچھے کہ توکل کے راستہ میں کون کون سے امتحان ہوتے ہیں۔
۹۔ عید تو تب ہے جب دل اللہ تعالیٰ کی طرف عود کرے ورنہ عید کیسی۔
وصال مُبارک:
عاشق ربانی، شیر یز دانی، پیر کامل حضرت میاں شیر محمد صاحب شرقپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر تین ربیع الاول ۱۳۴۷ھ بروز پیر بعد نماز عصر تقریبا پانچ بجے سُکرات موت کے عالم کا آغاز ہوگیا اور ساڑھے دن بجے شب اس عالم فانی سے عالم باقی کی طرف رحلت فرما گئے۔ نصف شب کے وقت آپ کو غسل دیا گیا اور صبح کے وقت آپ کا جنازہ اٹھایا گیا نماز جنازہ حضرت صاحبزادہ محمد مظہر قیوم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جانشین مکان شریف نے پڑھائی ہزاروں عقیدت مند نماز جنازہ میں شامل تھے آپ کو دوہڑاں والے قبرستان شرقپور شریف میں دفن کیا گیا۔ آپ کے مزار اقدس پر روزانہ لاتعداد عقیدت مند حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور روحانی فیوض و برکات سے مستفید ہوتے ہیں۔
(مشائخ نقشبند)