حضرت مولانا شاہ عبد الباری فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:شاہ عبدالباری۔لقب:امام العلماء،فرنگی محلی،لکھنوی۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت شاہ عبدالباری بن حضرت شاہ مولانا عبدالوہاب بن حضرت مولاناشاہ محمد عبدالرزاق بن مہلک الوہابیین حضرت مولانا شاہ محمد جمال الدین فرنگی محلی۔علیہم الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1295ھ،مطابق 1878ءکو"فرنگی محل" لکھنؤ(ہند)میں ہوئی۔
تحصیل علم:حضرت مولانا شاہ عبد الباقی فرنگی محلی مدنی علیہ الرحمۃ سے اکثر علوم کا درس لیا، چند کتابیں حضرت مولانا عین القضاۃ حیدر آبادی ولکھنوی تلمیذ مولانا ابو الحسنات عبد الحئی فرنگی محلی سے پڑھیں۔1322ھ میں حرمین طیبین کا سفر کیا۔ اور حج کے بعد مدینہ طیّبہ میں حضرت علامہ سید علی بن ظاہر الوتری المدنی اور شیخ الدلائل علامہ سید امین رضوان اور علامہ شیخ سید احمد برزنجی مدنی اور حضرت شیخ المشائخ سید عبد الرحمٰن بغدادی نقیب الاشراف قدس اللہ اسرارہم سے سند واجازت حدیث وسلاسل طریقت حاصل کی، آپ کو تمام علوم میں تبحر تام حاصل تھا،امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ آپ کو" فاضلِ اکمل "کہتے تھے۔(تذکرہ علمائےاہلسنت:173)
بیعت وخلافت:حضرت شیخ المشائخ سیدعبدالرحمٰن بغدادی نقیب الاشراف درگاہِ غوثیہ کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اورخلافت سےسرفرازکیےگئے۔
سیرت وخصائص: نمونۂ سلف،حجۃ الخلف،امام العلماء،رئیس الاتقیاء،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،صاحبِ اوصاف کثیرہ،فاضلِ اکمل،عالمِ متبحر،حامیِ سنت،ماحی بدعت،غیظ المنافقین،مہلک الوہابیین،حضرت علامہ مولانا الشاہ عبدالباری فرنگی محلی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کاشمارہندوستان (پاک وہند) کےاعاظم علماء میں ہوتاہے۔آپ منقول ومعقول کےامام اورخاندانِ فرنگی محل کی علمی وروحانی اوراعتقادی امانتوں کےوارثِ اکمل تھے۔تمام درسی کتب پریکساں مہارت حاصل تھی۔آپ کی کوشش سےفرنگی محل لکھنؤ میں مدرسہ نظامیہ میں احیائےدین اسلام کےلئے درس وتدریس کاسلسلہ شروع ہوا۔پوری قوت کےساتھ درس وتدریس میں مصروف ہوگئے،ابتداً معقولات کی طرف زیادہ توجہ تھی،لیکن بعد میں آپ کی مشغولیت تمام کی تمام قرآن وحدیث کی تدریس کی طرف ہوگئی۔اس کےعلاوہ گھرمیں مثنوی مولانا روم کادرس دیتےتھے۔جس میں بڑےبڑےفضلاءکرام،اورعوام شرکت فرماتےتھے۔آپ کےعلمی فیضان سےکثیرلوگوں نےاستفادہ کیا۔آپ علیہ الرحمہ تمام دینی ودنیاوی امورپر بڑی گہری نظررکھتےتھے۔
آپ نےان آزمائشی حالات میں جب خطۂ ہندوستان پر انگریزقابض ہوچکاتھا،اورخلافتِ عثمانیہ کےخلاف سازشیں عروج پرتھیں،حجازمقدس میں انگریزوں کےایماءپر وہابی یلغارمیں مصروف تھے،اورمقاماتِ مقدسہ کی بےحرمتی کی جارہی تھی،اس وقت آپ نے"انجمن خدام کعبہ" کی بنیادرکھی ،جس نےوہابیوں کےمظالم اورمقامتِ مقدسہ کی بےحرمتی کاسختی سےنوٹس لیا۔اسی طرح تحریکِ خلافت میں بھی پیش پیش رہے۔بلکہ آپ قائدین میں سےتھے۔ہرطریقے سےاس کی تائید پرعام لوگوں کوآمادہ،اوراس کی اعانت،اس کےحق میں مختلف شہروں میں جلسےمنعقدکرتےتھے۔انگریز اوراس حامیوں کےزبردست مخالف تھے۔جہاں موقع ملتا اچانک حملہ کرتے،اللہ جل شانہ نےآپ کومقبولیت عامہ عطاء فرمائی تھی۔آپ کاگھرمسلمانوں کاسیاسی مرکزتھا۔جہاں ہروقت عوام وخواص کاایک جم غفیرموجودرہتاتھا۔ان کاطعام وقیام کامکمل بندوبست آپ کےہاں سےہوتاتھا۔آپ بہت سخی،اورمہمان نوازتھے۔آپ کاگھرکبھی مہمانوں سےخالی نہ دیکھاگیا۔ہرآنےوالی کی بڑی توقیرکرتےتھے،غریب مسلمانوں کی مددواعانت آپ کاشیوہ تھا۔
آپ بہت نڈراورباوقارتھے۔کبھی بھی کسی سےمرعوب نہیں ہوئے،اگرکہیں اسلام اورمسلمانوں کی عزت وقارکی بات آتی توجواب دینےوالوں میں اول ہوتےتھے۔یہی وجہ ہےکہ مسٹرگاندھی آپ سےمرعوب رہتاتھا۔علماء ومشائخ کی عزت مبالغےکی حدتک کرتےتھے۔فرماتےعلماء ومشائخ کی عزت وتوقیراسلام کی توقیرہے۔لیکن بدمذہبوں اوراسلام دشمنوں کےخلاف ننگی تلوارتھے۔وہابیوں،دیوبندیوں کےسخت مخالف تھے۔یہی وجہ ہےکہ آپ ہی کے حکم سے مولوی اشرف علی تھانوی کی بہشتی زیورا ور حفظ الایمان فرنگی محل میں جلائی گئی تھی، آپ نے تھانوی صاحب کو حفظ الایمان کی کفریہ عبارت سے توبہ کے لیے بار بار متوجہ کیا، مگر ان کو توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو سکی۔
نمازباجماعت اداکرنےکی بہت حفاظت فرماتےتھے،خواہ سفرکی حالت میں ہوں یاحضرکی حالت میں،نمازباجماعت اداکرتےتھے۔سفر کی حالت میں کم ازکم دورفیق ساتھ ہوتےتھے۔ان کاتمام خرچہ آپ صرف اس لئے برداشت کرتےتھے،ان کی وجہ سےنمازباجماعت کی سعادت میسرہوتی تھی۔اللہ اکبر۔(یہ آج کےنوجوان علماءکرام کےلئےایک بہت بڑی نصیحت ہے،کہ ہمارےاکابرین کاتقویٰ کتنابلندتھا،ہمیں ان کےنقش قدم پرچلناچاہئے)۔اسی طرح فرصت سےفارغ وقت میں اورادووظائف اورنوافل میں مشغول رہتےتھے۔آپ کےوصال سےفرنگی محل کاایک عہدختم ہوگیا،اورعلم کاباب بندہوگیا۔آپ علمائےفرنگی محل کےسرتاج تھے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 4/رجب المرجب 1344ھ،مطابق 15/جنوری 1926ءکوفالج کےحملےسےہوا۔آپ نےصدقۂ جاریہ میں کثیرعمدہ تصانیف اورجیدعلماءکرام چھوڑےہیں۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت۔نزہۃ الخواطر۔
//php } ?>