حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محل لکھنوی

حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محل لکھنوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

قدوۃ الخلف، بقیۃ السلف حضرت علامہ شاہ محمد عبد الباری ابن حضرت مولانا شاہ عبد الوہاب ابن حضرت مولانا شاہ محمد عبد الرزاق ابن غیظ المنافقین، مہلک الوہابین حضرت مولانا شاہ محمد جمال الدین فرنگی محلی قدست اسرارہم ۱۲۹۵؁ھ میں فرنگی محل لکھنو میں پیدا ہوئے، حضرت مولانا شاہ عبد الباقی فرنگی محلی مدنی علیہ الرحمۃ سے اکثر علوم کا درس لیا، چند کتابیں حضرت مولانا عین القضاۃ حیدر آبادی ولکھنوی تلمیذ مولانا ابو الحسنات عبد الحئی فرنگی محلی سے پڑھیں۔۔۔ ۱۲۲۳؁ھ میں حرمین طیبین کا سفر کیا۔ اور حج کے بعد مدینہ طیّبہ میں حضرت علامہ سید علی علی ابن ظاہر الوتری المدنی اور شیخ الدلائل علامہ سید امیان ابن رضوان اور علامہ شیخ سید احمد برزنجی مدنی اور حضرت شیخ المشائخ سید عبد الرحمٰن بغدادی نقیب الاشراف قدس اللہ اسرارہم سے سند واجازت حدیث وسلاسل طریقت حاصل کی، آپ کو تمام علوم میں تبحر تام حاصل تھا، فاضل بریلوی مولانا احمد رضا آپ کو فاضل، مکمل کہتے تھے۔

حرمین طیبین کی زیارت سے واپسی کے بعد مدرسہ نظامیہ میں درس وتدریس میں مشغول ہوئے پوری قوت سے درس دیتے تھے، پہلے فنون سے دل چسپی تھی، آخر میں صرف حدیث شریف پڑھاتے تھے، بڑے بڑےعلماء اور فضلاء نے آپ سے اخذ علوم کیا۔

آپ کو سیاست سے بھی دل چسپی تھی، مسٹر گاندھی کو آپ ہی کی ذات سے شہرت نصیب ہوئی مگر، اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ کےتوجہ دلانےپر مسٹر گاندھی کا ساتھ چھوڑدیا، ۔۔۔۔۔۔۔ بقیع مبارک مدینہ طیّبہ اور جنۃ المعلیٰ مکہ معظمہ کے مزارات کے انہدام اور سعود اوّل کے مظالم وجفا کی آپ نے بھی سخت مخالفت کی، آپ ہی کے حکم سے مولانا اشرف علی تھانوی کی بہشتی زیور ور حفظ الایمان فرنگی محل میں جلائی گئی تھی، آپ نے مولانا تھانوی کو حفظ الایمان کی کفری عبارت سے توبہ کے لیے بار بار متوجہ کیا، مگر ان کو توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو سکی۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اووسخی تھے، مہمانوں کے اکرام میں کافی مبالغہ کرتے تھے، نماز با جماعت کے خیال سےہر سفر میں دو آدمیوں کو ساتھ رکھتے تھے،

مرض فالج میں دو یوم مبتلا رہ کر ۴؍رجب المرجب ۱۳۴۴؁ھ میں وفات پائی، آپ کی وفات پر فرنگی محل کا یاک عہد ختم ہوگیا، آپ علمائے فرنگی محل کے شیخ تھے،

تصانیف:۔ ‘‘التعلیق المختار علی کتاب الآثار’’ ملھم الملکوت بشرح مسلم الثبوت الآثار المحمدیہ والاثار المضلۃ (حدیث میں) آثار الاول من علمائے فرنگی محل’’

تجویزوآراء