مولانا حکیم احمد الدین چکوالی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1262 | رمضان المبارک | 02 |
یوم وصال | 1347 | ذوالقعدہ | 28 |
مولانا حکیم احمد الدین چکوالی (تذکرہ / سوانح)
مولانا حکیم احمد الدین چکوالی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت علامہ مولانا حکیم احمد الدین چشتی چکوالی۔لقب: استاذالاساتذہ۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے:مولانا حکیم احمد الدین چشتی بن مولانا غلام حسین چشتی چکوالی بن قاضی محمد احسن بن محمد حنیف بن محمد بن نور محمد۔علیہم الرحمہ۔خاندانی تعلق قطب شاہی اعوان سے ہے۔آپ کے والد گرامی حضرت مولانا غلام حسین چکوالی اپنے زمانےکےامام الفضلاء تھے۔انہوں نے علوم متداولہ کی تحصیل وتکمیل حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویسےکی۔علاوہ ازیں حضرت شیخ احمد سعید مجددی دہلوی،شیخ عبدالغنی مجددی دہلوی اور مفتی صدرالدین سےبھی علمی استفادہ کیا۔بیعت حضرت شمس العارفین سیالویسےتھی۔آپ کاوصال 28/جمادی الثانی 1305ھ کو چکوال میں ہوا۔مزار شریف چکوال میں ہے۔(فوز المقال فی خلفاء پیر سیال جلد اول :570)
تاریخِ ولادت: 2/رمضان المبارک 1268ھ مطابق 8/جولائی 1852ء کوموضع’’بولہ‘‘ تحصیل پنڈ دادن خان ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔بعد میں آبائی گاؤں سے منتقل ہوکر چکوال شہر میں مقیم ہوگئے۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:44)
تحصیلِ علم: 24/ محرم الحرام 1274ھ کو باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔تمام علوم اپنے والد گرامی سےحاصل کرکےسند فراغ حاصل کی۔1298ھ میں حرمین شریفین کا قصد کیا۔وہاں پر اپنے والد ماجد کےاستاد حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویسے علم التوقیت حاصل کیا۔علاوہ ازیں شیخ عبداللہ سراج مفتیِ مکہ اور شیخ احمد بن زینی دحلان محدث مکہ سے حدیث قرأت، ہئیت، ریبع مجیب اور ربع مقظر وغیرہ علوم وہاں کے جید اساتذہ سے حاصل کرکے تعلیم و تدریس کی اعلیٰ سندیں حاصل کرکے واپس ہوئے۔1872ء کو (یعنی بیس سال کی عمر میں) انگریز حکومت نے علماء کا انٹر ویو لیا، جس میں اول آنے پر آپ کو پچاس روپے(50) نقد اور پندرہ روپے ماہانہ کا وظیفہ مقرر کیا تاکہ اورینٹل کالج لاہور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن آپ کالج پہنچ کر واپس آگئے کیوں کہ وہاں کا معیار تعلیم بہت پست تھا۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:44)مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران آپ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے کہ ایک عربی خاتون نے فرمایا کہ یہ پنجابی قرآن کتنا غلط پڑھ رہاہے۔اس خاتون کے انتباہ پر آپ نےحضرت قاری عبداللہ مکی سے قرات وتجوید حاصل کی۔فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کادرس غوث الاسلام حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑویسےلیا۔(فوزالمقال: 571)
بیعت و خلافت: 1280ھ کو والد ماجد کے ہمراہ شیخ طریقت حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کی خدمت میں حاضر ہو کر سلسلہ عالیہ چشتیہ میں بیعت ہوئے۔ 1310ھ کو بلاد مقدسہ کی زیارت کیلئے سفر کیا اور بغداد شریف میں حضرت نقیب سلمان کے دست مبارک پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: استاذا لاساتذہ،مرجع الفضلاء،امام المعقول والمنقول،عالم، حکیم،شاعر،مدرس ،مفکر،منتظم،حضرت علامہ مولانا حکیم احمد الدین چشتی چکوالی۔آپ کا خاندانی تعلق ایک علمی وروحانی خانوادے سے ہے۔آپ خلفِ رشید تھے۔تمام علوم وفنون پر مہارت رکھتے تھے۔اولیاء کرام اور بالخصوص حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی سےنہایت عقیدت رکھتےتھے۔ایک مرتبہ مسجد میں بوقت اشراق اوراد وظائف میں مشغول تھےکہ کسی نے پوچھ لیا کہ حضرت شمس العارفین کےحسن وجمال اور حلیہ کے بارے میں دریافت کیا۔آبدیدہ ہوکر فرمایا کہ میرے شمس اس آسمانی شمس سے زیادہ نورانی ومنور ہیں۔دیرتک آپ پر کیف ووجدان کی حالت طاری رہی۔(فوزالمقال)
مولانا حکیم احمد الدین چکوالی دراز قامت،درمیانی جسامت،سرخ وسفید رنگت،صورت وسیرت میں بے حد حسین وجمیل تھے۔اسی طرح لباس بھی نفیس استعمال کرتےتھے۔کرتا شلوار،کندھے پر چادر،سر پر عمامہ ۔لباس سفید رنگ کا استعمال کرتےتھے۔غذاقلیل استعمال کرتےتھے۔
آپ کےروز مرہ معمولات میں درس وتدریس،امامت فتویٰ نویسی،وعظ ونصیحت،اور اوراد و وظائف چشتیہ کی تلاوت وغیرہ شامل تھی۔جمعۃ المبارک کا خطبے میں مسلمانوں کو عمل ِ صالح کی ترغیب دیتےتھے۔
آپبڑے پارسا،پابندِ شریعت، اور اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلنے والے تھے۔بڑے مستجاب الدعوات،خود دار،اور صابر وشاکر تھے۔جید عالم کےساتھ حاذق حکیم بھی تھے۔مریضوں کا علاج مفت کرتےتھے۔شاعری اور تاریخ گوئی میں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔بڑے ذہین وفطین تھے۔پہلے حافظ نہیں تھے بعد میں شوق ہوا تو قرآن کریم حفظ کرکےتراویح میں سنایا کرتےتھے۔بڑی بارعب اور پروقار شخصیت کے مالک تھے۔تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔چکوال میں رہتےہوئے اپنی پوری زندگی نہ بازار گئے اور نہ ہی بازار دیکھا۔بڑے حق گو اور بےباک عالم دین تھے۔فقہ،تصوف اور علوم اسلامی سے ان کا سینہ منور تھا۔اکابرین شہر اور حکام آپ کی بہت قدر ومنزلت کرتےتھے۔فرق ِ باطلہ کے سخت مخالف تھے۔ساری زندگی درس وتدریس وعظ ونصیحت اور ذکر الہی میں بسر کی۔قدرت نے آپ کو شاعرانہ طبیعت ودیعت فرمائی تھی۔عربی،فارسی،اور اردو،پنجابی میں بے تکلف شاعرکہتے تھے۔لیکن زیادہ توجہ شاعری کی طرف نہ تھی۔اسی طرح تاریخی مادے بحساب ابجد نکالنے میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔عربی فارسی کلاموں میں تضمین آپ کےلئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔’’الداعی‘‘ تخلص تھا۔زیادہ تر کلام فارسی میں ہے۔
درس وتدریس: جب آپ نے چکوال میں مسند تدریس بچھائی تو آپ کی شہرت دور دور تک پہنچی۔کشمیر،سرحد،اور کابل وقندھار تک کےطلبہ تعلیم حاصل کرتےتھے۔خاص طور پر مثنوی شریف،ربع مجیب،اور ربع مقنطرہ وغیرہ علوم پڑھنے کےلئے دور دراز سے علماء حاضر ہوتے اور شرفِ تلمذ حاصل کرتے۔قدوۃ المحققین حضرت علامہ غلام محمود پپلانوی(محشی تکملہ ومصنف نجم الرحمن) آپ کے ارشد تلامذہ میں سےتھے۔حضرت مفتی دین محمد رتوی نے فقہ، اصول فقہ،طب کی تعلیم آپ سے حاصل کی۔حضرت مولانا عبداللہ کھڈہ مارکیٹ کراچی صدر مدرس مدرسہ مظہر العلوم کراچی۔مولوی محمد صادق دیوبندی کانگریسی کھڈہ کراچی۔نامور تلامذہ ہیں۔جنات بھی آپ کے درس میں شریک ہوتےتھے۔
مدرسہ مظہر العلوم کا بانی کون؟: کھڈہ مارکیٹ لیاری کراچی کے دارالعلوم مظہر العلوم کا بانی کون اور قبضہ کس کا؟ کے متعلق درج ذیل مضمون میں اختصار کے ساتھ دلائل درج کئے جارہے ہیں تاکہ تاریخ کے طالب علم پراصل حقائق واضح ہوں۔ مولانا اشرف صاحب لکھتے ہیں:’’مولانا حمد دین چکوالی1298ھ کو حرمین شریفین سے اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کرکے واپسی پر کراچی کے محلہ کھڈہ میں مولاناعبداللہ کے پاس کچھ عرصہ قیام کیا اور وہاں ایک دینی مدرسہ مظہر العلوم قائم کیا جو آج بھی موجود ہے‘‘ (تذکرہ اکابر اہل سنت :44)
مولانا عبداللہ سنی حنفی صحیح العقیدہ تھے، مولانا احمد دین کے دوست اور ایک روایت کے مطابق شاگرد بھی تھے اور کراچی کے مشہور قاری حافظ غلام رسول قادری (متوفی1391ھ) کی نماز جنازہ جہانگیر پارک صدر میں مولانا عبداللہ نے پڑھائی تھی جس میں اہل سنت کے بہت سارے علماء و مشائخ بھی شریک تھے ۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی دیوبندی یا وہابی سے اہل سنت کے عالم و پیر کے جنازے کی امامت جانتے بوجھتے کرائی جائے۔ معلوم یہ ہوا کہ حضرت مولانا عبداللہ اہل سنت و جماعت سے تعلق رکھتے تھے مگر آپ کے صاحبزادے اہل سنت سے منحرف ہو کر دیو بندی ہوگئے۔ حضرت مولانا عبداللہ کا لڑکا ’’مولوی محمد صادق‘‘نے والد ماجد کے عقیدے و نظریے سے غداری کرکے دارالعلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کرکے پکے دیوبندی وہابی بنے، سندھ واپس آکر دیوبندیت کا نگریسیت سے شہرت حاصل کی، متحدہ قومیت(ہندو مسلم اتحاد) کے مبلغ بنے، تحریک ہجرت و کانگریس میں بھر پور کام کیا۔ اس طرح اہل سنت کے مدرسہ پر وہابیت کا نہ فقط قبضہ ہوا بلکہ آج تک مرکز بنا ہوا ہے۔ مولوی صادق کی نسبت سے مدرسے سے پرچہ ’’الصادق‘‘ آج تک جاری ہے۔
ایک اور اہم انشاف یہ سامنے آیا کہ 1907ء کو مدرسہ مظہر العلوم میں ’’دارالافتاء‘‘ کا شعبہ قائم کیا گیا تھا، جس کے صدر مفتی مولانا عبداللہ مرحوم تھے اور اس کے نائب مفتی حضرت علامہ عبدالکریم درس تھے جب کہ کراچی کے متعدد مفتی صاحبان مولانا محمد صدیق، مولانا عبدالحق ہالائی، مولانا احمد بخاری وغیرہ اس کے باضابطہ ممبر تھے۔مولانا حکیم احمد الدین کے دو صاحبزادے ان کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے۔۱۔ مولانا حافظ علاء الدین 21 سال کی عمر میں فوت ہوگئے۔2۔ مولانا حافظ قاضی ضیاء الدین ایم ۔ اے بی ایڈ۔ ڈسٹرکٹ انسپکٹر اسکولز، صحیح العقیدہ سنی تھے، ملازمت کے دوران ایک حادثہ کا شکار ہوگئے۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:107)
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 28/ذوالقعدہ 1347ھ مطابق 8/مئی 1929ء کو صبح صادق سے پہلےہوا۔چکوال میں آبائی قبرستان میں مدفون ہیں۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔انوار علمائے اہلسنت سندھ۔فوزالمقال فی خلفاء پیر سیال جلد اول۔