حضرت مولانا حکیم احمد الدین چشتی

حضرت مولانا  حکیم احمد الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ 

عالم ، حکیم، شاعر، مدرس و اعلیٰ منتظم جناب احمد الدین بن مولانا غلام حسین بن قاضی محمد احسن ۲ ، رمضان المبارک ۱۲۶۸ھ/۸، جولائی ۱۸۵۲ء کو موضع بولہ تحصیل پنڈ دادن خان ضلع جہلم (پنجاب) میں تولد ہوئے۔ تاریخی نام ’’چراغ دین‘‘ (۱۲۶۸ھ) تجویز ہوا۔ بعد میں آبائی گائوں بولہ سے منتقل ہو کر چکوال شہر میں مقیم ہوگئے۔

تعلیم و تربیت:

اپنے والد ماجد سے تمام مروجہ علوم کی تکمیل کی۔ ۱۸۷۲ء کو (یعنی بیس سال کی عمر میں) انگریز حکومت نے علماء کا انٹر ویو لیا، جس میں اول آنے پر آپ کو پچاس روپے(۵۰) نقد اور پندرہ روپے ماہانہ کا وظیفہ مقرر کیا تاکہ اورینٹل کالج لاہور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن آپ کالج پہنچ کر واپس ااگئے کیوں کہ وہاں کا معیار تعلیم بہت پست تھا۔

سفر حرمین شریفین:

۱۲۹۸ھ کو حرمین شریفین کی زیارت کیلئے رخت سفر باندھا ، وہاں مشہور ہندوستانی عالم ، فاتح عیسائیت مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی قدس سرہ(جو کہ آپ کے والد ماجد کے بھی استاد تھے) کے پاس ایک سال رہ کر حدیث قرأت، ہئیت، ریبع مجیب اور ربع مقظر وغیرہ علوم وہاں کے جید اساتذہ سے حاصل کرکے تعلیم و تدریس کی اعلیٰ سندیں حاصل کرکے واپس ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے عالم اسلام کے عظیم عالم، شیخ الاسلام حضرت شیخ زینی دحلان شافعی مکی قدس سرہٗ ’’الدررالسنیہ فی الرد علی الوھابیہ‘‘ سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا۔

بیعت و خلافت:

۱۲۸۰ھ کو والد ماجد کے ہمراہ شیخ طریقت فخر اہل سنت حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ (سیال شریف ضلع سرگودھا) کی خدمت میں حاضر ہو کر سلسلہ عالیہ چشتیہ میں بیعت ہوئے۔ ۱۳۱۰ھ کو بلاد مقدسہ کی زیارت کیلئے سفر کیا اور بغداد شریف میں حضرت نقیب سلمان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست مبارک پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔

مدرسہ مظہر العلوم کا بانی کون؟

کھڈہ مارکیت لیاری کراچی کے دارالعلوم مظہر العلوم کا بانی کون اور قبضہ کس کا؟ کے متعلق درج ذیل مضمون میں اختصار کے ساتھ دلائل درج کئے جارہے ہیں تاکہ تاریخ کے طالب علم پراصل حقائق واضح ہوں۔ مولانا اشرف صاحب لکھتے ہیں’’مولانا حمد دین چکوالی ۱۲۹۸ھ کو حرمین شریفین سے اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کرکے واپسی پر کراچی کے محلہ کھڈہ میں مولان اعبداللہ کے پاس کچھ عرصہ قیام کی اور وہاں ایک دینی مدرسہ مظہر العلوم قائم کیا جو آج بھی موجود ہے‘‘ (تذکرہ اکبار اہل سنت ص۴۴، مطبوعہ لاہور ۱۹۷۶ئ)

مولانا عبداللہ سنی حنفی صحیح العقیدہ تھے، مولانا احمد دین کے دوست اور ایک روایت کے مطابق شاگرد بھی تھے اور کراچی کے مشہور قاری حافظ غلام رسول قادری (متوفی ۱۳۹۱ھ) کی نماز جنازہ جہانگیر پارک صدر میں مولانا عبداللہ نے پڑھائی تھی جس میں اہل سنت کے بہت سارے علماء و مشائخ بھی شریک تھے ۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی دیوبندی یا وہابی سے اہل سنت کے عالم و پیر کے جنازے کی امامت جانتے بوجھتے کرائی جائے۔ معلوم یہ ہوا کہ حضرت مولانا عبداللہ اہل سنت و جماعت سے تعلق رکھتے تھے مگر آپ کے صاحبزادے اہل سنت سے منحرف ہو کر دیو بندی ہوگئے۔ (سہ ماہی محراب و ممبر خاص نمبر کراچی) معلوم ہوا حضرت مولانا عبداللہ کا لرکا ’’مولوی محمد صادق‘‘ نے والد ماجد کے عقیدے و نظریے سے غداری کرکے دارالعلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کرکے پکے دیوبندی وہابی بنے، سندھ واپس آکر دیوبندیت کا نگریسیت سے شہرت حاصل کی، متحدہ قومیت(ہندو مسلم اتحاد) کے مبلغ بنے، تحریک ہجرت و کانگریس میں بھر پور کام کیا۔ اس طرح اہل سنت کے مدرسہ پر وہابیت کا نہ فقط قبضہ ہوا بلکہ آج تک مرکز بنا ہوا ہے۔ مولوی صادق کی نسبت سے مدرسے سے پرچہ ’’الصادق‘‘ آج تک جاری ہے۔

مدرسہ کس سن میں قائم ہوا؟ مولانا احمد الدین نے مدرسہ مظہر العلوم کے قیام پر برزبان فارسی ایک طویل نظم بھی لکھی تھی جس میں بعض مصرعے عربی زبان میں بھی ہیں اس کا عنوان ہے ’’وماہی الاذکر للمسلمین‘‘ (۱۳۰۴ھ) یہ نظم الصادق میں شائع ہوئی۔ چند مصرعے درج ذیل ہیں:

بعد از تحمید صلوٰۃ و سلام

باد لائح برضمیر خاص و عام

کاندرین حین از عنایات کریم

قد جریٰ ینبوع فیض مستدام

از پئے احیاء دین مصطفی

کس نماندہ گیر نام اند انام

در کراچی بند از جھد اتم

مدرسہ جاری شدہ باانتظام

آخری مصرعے:

چون کہ ہیست این مظہر جود و علوم

اسم و تاریخش ہمہ گیری ای ہمام

محض بہر اطلاع اہل دین

ایں سطور چند کردم ارتسام

گرچہ خاطر گوئدم ہل من مزید

لیک اکنون بہ کہ سازم اختتام

صد صلوٰۃ و صد تحیات و سلام

بر رسول آل و اصحاب کرام

(الصادق رائیداد ، ۷۰۔ ۱۳۷۱ھ ص:۱۴۰)

معلوم ہوا کہ مولانا احمد چکوالی نے مدرسہ مطہر العلوم ۱۳۰۴ھ/۱۸۸۶ء کو قائم کیا تھا۔ مولانا عبداللہ نے ۱۳۳۳ھ/۱۹۱۴ء کو انتقال کیا۔ مولوی صادق ۱۲۹۱ھ کو پیدا ہوا۔ مدرسہ مطہر العلوم میں حضرت مولانا احمد یدن چکوالی سے چند سال تک مختلف علوم و فنان کی کتابیں پڑھیں۔ پھر دارالعلوم دیوبند چلا گیا جہاں سے ۱۳۱۲ھ/۱۸۹۴ء کو سند فراغت حاصل کرکے واپس کراچی اایا اور مظہر العلوم کھدہ میں ۲ روپے مشاہرہ پر مدرس مقرر ہوا اور والد صاحب کے انتقال کے بعد مدرسہ کا پہلا وہابی مہتمم ہوا اس کے بعد کھل کر وہابیت کی تبلیغ کی۔ عبید اللہ سندھی اور دین محمد وفائی ، حکیم فتح محمد سیوہانی کی رفاقت میں مظہر العلوم کانگریس کا مرکز بنایاگیا۔ بعد ازاں لواری شریف (ضلع بدین) کی خانقاہ کے خلاف چلنے والی تحریک کا مرکز و محور یہی مدرسہ تھا۔ مولوی محمد صادق نے لواری شریف کے خلاف غلط پروپیگنڈا کا ایک سلسلہ چلایا کتابچے و کتابیں لکھ کر چھپوائیں اور کانگریس و دیوبندی نظریہ رکھنے والے سندھی اخبارات میں مسلسل مضامین چھپوا کر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔

ایک اور اہم انشاف یہ سامنے آیا کہ ۱۹۰۷ء کو مدرسہ مطہر العلوم میں ’’دارالافتائ‘‘ کا شعبہ قائم کیا گیا تھا، جس کے صدر مفتی مولانا عبداللہ مرحوم تھے اور اس کے  نائب مفتی حضرت علامہ عبدالکریم درس تھے جب کہ کراچی کے متعدد مفتی صاحبان مولانا محمد صدیق، مولانا عبدالحق ہالائی، مولانا احمد بخاری وغیرہ اس کے باضابطہ ممبر تھے (الصادق ۱۹۸۲ء ص۴۸)

تاریخ گواہ ہے یہ اس دور کی کہانی ہے جب کہ کراچی میںوہابیت کا نام و نشان بھی نہ تھا اور مظہر العلوم اہل سنت و جماعت احناف کی درسگاہ تھی اور علماء اہل سنت کی محنت شاقہ سے ترقی کی جانب رواں دواں تھی اور دارالافتاء عوام الناس کی خدمت میں پیش پیش تھا۔ لیکن شومی قسمت دیکھئے کہ اپنا مرکز ۱۹۱۴ء کے بعد مخالفین کے قبضہ میں آگیا اور ان کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال ہوا۔

درس و تدریس:

مدرسہ مظہر العلوم میں مسند تدریس پر رونق افروز ہو کر طالبان علم کو سیراب کرتے رہے اس کے بعد اپنے وطن واپس چلے گئے اور جالی والی مسجد چکوال میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو آپ کی شہرت دور دراز تک پہنچی، خاص طور پر مثنوی شریف، ربع مجیب اور رربع مقظر وغیرہ علوم پڑھنے کیلئے دور دراز سے علماء حاضر ہوتے اور شرف تلمذ حاصل کرتے

تلامذہ:

آپ کی جماععت تلامذہ میں سے بعض نام درج ذیل ہیں:

۱۔       قدوۃ المحققین مولانا غلام محمود پپلانوی (محشی تکملہ و مصنف نجم الرحمن)

۲۔     حضرت مولانا عبداللہ              کھڈہ ،کراچی

۳۔     مولوی محمد صادق          دیوبندی کانگریسی کھڈہ کراچی

حکمت:

آپ نے علم طب بھی پڑھا اور اس میں بھی کمال حاصل کیا، کئی لا علاج مریض آپ کے علاج سے شفا یاب ہوئے۔

اولاد:

آپ کے دو صاحبزادے آپ کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے۔

۱۔  مولانا حافظ علاء الدین ۲۱ سال کی عمر میں فوت ہوگئے

۲۔  مولانا حافظ قاضی ضیاء الدین ایم ۔ اے بی ایڈ ڈسٹرکٹ انسپکٹر اسکولز، صحیح العقیدہ سنی تھے، ملازمت کے دوران ایک حادثہ کا شکار ہوگئے۔

شاعری:

تاریخ گوئی میں آپ کو کمال حاصل تھا عربی فارسی اور اردو میں مشق سخن فرماتے تھے۔ مدرسہ مطہر العلوم کے قیام پ رتاریخی طویل فارسی نظم لکھی اور اپنے استاد گرامی حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی وفات پر قطعہ تاریخ وصال کہا جو کہ محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی شاعری کا وش غالباً ضائع ہو چکی ہے۔

حافظ قرآن:

آپ پہلے حافظ قرآن نہ تھے بعد میں شوق پیدا ہوا تو قرآن کریم حفظ کرکے تراویح میں سنایا کرتے تھے۔

وصال:

استاد العلماء مولانا احمد الدین چشتی  ۲۸، ذوالقعدہ ۱۳۴۷ھ/۸ مئی۱۹۲۹ء کو صبح صاد ق سے کچھ پہلے صرف ایک دن کی علالت کے بعد اس دارفانی سے رحلت فرما ہوئے اور چکوال میں اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے۔

(ماخوذ تذکرہ اکابر اہل سنت مطبوعہ لاہور۔ امام احمد رضا اور علماء سندھ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۵ اور تفصیل کیلئے دیکھئے ’’فوز المقال فی خلاء پیر سیال‘‘ مطبوعہ سیال شریف ضلع سرگودھا۔)

(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)

تجویزوآراء