2015-08-19
علمائے اسلام
متفرق
1241
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 1258 | | |
یوم وصال | 1345 | ذوالحجہ | 10 |
حضرت مولانا عنایت اللہ خاں رام پوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت مولانا عنایت اللہ خان رام پوری۔لقب: امام العلماء،سید الاصفیاء۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:حضرت مولانا عنایت اللہ خان،بن حبیب اللہ خان،بن شیخ رحمت اللہ خان،بن قاضی معظم خان علیہم الرحمۃ والرضوان۔مولانا عنایت اللہ خانکاآبائی علاقہ’’شل بانڈہ‘‘ضلع بونیرموجودہ خیبرپختونخواہ ہے۔یہ علاقہ سوات سےباون کلومیٹر دور دشوارگزار پہاڑیوں میں واقع ہے۔آپکےجد اعلیٰ قاضی معظم خاںاپنے وقت کے ایک متبحر عالم وفاضل تھے۔جد امجد شیخ رحمت اللہ خاںجناب سید فیض اللہ خاں صاحب بہادرمرحوم کےعہدِ اخیر میں رام پورآئے اور فوج میں جمعداری کامنصب ملا۔مولانا کےوالدِگرامی رام پور میں دیہات و قصبہ جات کی ٹھیکہ داری کرتے تھے۔ان کی شادی محمد صالح خاں متبنیٰ وخلیفہ ملافقیر اخوند صاحب کی دخترنیک اختر سےہوئی۔جن کےبطن سےحضرت العلام مولانا عنایت اللہ خاں رام پوریپیداہوئے۔(تذکرہ کاملان رام پور:269)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1258ھ مطابق 1842ء کورام پور(انڈیا) میں ہوئی۔(تذکرہ علماء اہل سنت:134)
تحصیل ِ علم: بچپن میں حافظ اکبر خاں رام پوری اور حافظ عنایت اللہ خاں سے حفظِ قرآنِ پاک کیا۔ مولوی کریم نہٹوری سےفارسی کی چند کتابیں پڑھ کر سلسلۂ تعلیم ختم کردیا۔جوانی میں قدم رکھا۔اس وقت حضرت مولاناشاہ ارشادحسین رام پوری حرمین سےواپس آکر رام پور میں فقیراخوندکی مسجد میں مقیم تھے۔آپ ایک مسئلہ مولانا سےدریافت کرنے کےلئے حاضر ہوئے۔حضرت مولانا نےآپ کی طرف بغور دیکھا اور چہرےپرآثارِ سعادت پرکھ کر فرمایاکب تک مسائل پوچھتے رہوگے،خود کیوں نہیں پڑھتے۔تاکہ لوگ تم سےمعلوم کریں۔آپ نے عرض کیا حضرت اب میں جوان ہوگیاہوں۔بچوں والی کتابیں پڑھتے ہوئے حیاآئےگی۔ مولانانےفرمایا ہم تمہیں ایسی کتاب پڑھائیں گے جو کسی نے نہ پڑھی ہوگی۔ مولانانے ’’ارشاد الصرف‘‘ آپ کو پڑھانے کےلیے ہی تصنیف فرمائی تھی۔ چند روز بعد آپ پر شوقِ علم ایسا غالب ہوا کہ ترک علائق کر کے پوری توجہ سےتحصیلِ علوم میں لگ گئے ۔آپ نے معقول و منقول کی اکثر کتابیں حضرت مولانا شاہ ارشاد حسین سے پڑھیں، اُن کی اجازت سےحضرت علامہ ہدایت اللہ خاں رام پوری، مولانا احمد حسن مراد آبادی، مولانا عبد العلی خاں ریاضی داں سے بھی کسبِ علم کیا۔ایک وقت ایسا آیا کہ آپ علامۂ زماں اور مرجع الفضلاء بن گئے۔
بیعت وخلافت:امام العلماءوالعرفاء،سندالاصفیاء،مرج البحرین،مجمع الفریقین،حضرت علامہ مولاناشاہ ارشاد حسین رام پوریکےدستِ حق پرست پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے۔مجاہدات وریاضات کےبعدخلاف واجازت سےمشرف ہوئے۔حضرت مولانا ارشاد حسین رام پوریکی رحلت کےبعد خانقاہ مجددیہ اور سالکین کی رہبری آپ کےسپرد ہوئی۔(ایضا:135)
سیرت وخصائص: استاذالعلماء،سندالاتقیاء،پیشوائے اہلِ سنت،شیخ ِطریقت،عارفِ حقیقت حضرت علامہ مولانا عنایت اللہ خاں رام پوری۔آپاپنےوقت کےمنقولات ومعقولات کےامام،بہترین مدرس،فقیہ العصر اور شیخِ طریقت تھے۔آپ کی ذات سےاہل سنت وجماعت کوترقی وعروج حاصل ہوا۔آپ نےاہل سنت کوقابل علماء کی جماعت عطاء کی۔آپ حضرت مولاناشاہ ارشادحسین رام پوریکےمرید بھی تھےاورمراد بھی۔تیس سال کامل اپنے پیرومرشد اور استاذ مکرم کی خدمت کی،اس دوران دنیا واہل دنیا سےانقطاع کلی کرکے فیض مجددیہ سےخوب سیراب ہوئے۔مرشد کی عنایتیں بھی آپ پربےحساب تھیں۔
درس وتدریس اور سالکین کی تربیت،عوام کووعظ ونصیحت،خانقاہ مجددیہ کانظام وانصرام،سائلین کےسوالوں کےجوابات الغرض آپ دین متین کی خدمت میں ہمہ وقت مشغول رہتےتھے۔زیادہ شغف تدریس میں تھا۔تمام علوم پر یکساں مہارت حاصل تھی۔تمام فنونِ عقلیہ ونقلیہ کادرس پوری قوت وذوق سےدیتےتھے۔یہ سلسلہ پیرانہ سالی میں بھی برابر جاری رہا۔آپ کےخوان ِ علم سےکئی لوگ مستفید ہوئے۔آپ کےتمام معاملات توکل علی اللہ پرتھے۔بظاہر کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا،لیکن ہروقت فکرِمعاش سے بےنیازاوربلکہ دوسروں کی مددکرتےتھے۔اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خاں بریلوی سے آپ کے خصوصی روابط تھے،اکثر مراسلت رہتی تھی،حضرت فاضل بریلوی کے بہت سے فتاویٰ آپ کے دستخط اور مُہر سےمزین ہیں۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:135)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 10/ذوالحج 1345ھ ،مطابق جون/1927ء کوہوا۔11 ذی الحجہ کواپنی خانقاہ میں مدفون ہوئے۔مزار شریف رام پور انڈیا میں ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔تذکرہ کاملان رام پور۔
//php } ?>