حضرت مولانا عنایت اللہ خاں رام پوری

حضرت مولانا عنایت اللہ خاں رام پوری رحمۃ اللہ علیہ

ان کے اجداد موضو شل بانڈہ بانس کٹا علاقہ بونیر افغانستان کے رہنے والےتھے، حضرت مولانا عنایت اللہ خاں کے دادا بزرگوار رحمت خاں نواب فیض اللہ خاں کےآخر عہد میں رام پور آکر فوج میں جمعدار ہوئے، نواب نصر اللہ خاں کا عہد آیا تو ناخوش ہوکر ریاست ٹونک چلے گئے، رحمت اللہ خاں کا ٹونک میں انتقال ہوا، اُن کے بیٹےحبیب اللہ خاں کی شادی حضرت ملا فقیر اخوز[1] قدس سرہ کے متبنیٰ محمد صالح کی لڑکی سےہوئی، اسی عفیفہ کے بطن سے ۱۲۵۸؁ھ میں صاحب ترجمہ پیدا ہوئے۔

حافظ اکبر خاں رام پوری اور حافظ عنایت اللہ خاں سے حفظ قرآن پاک کیا، مولوی کریم نہٹوری سےفارسی کی چند کتابیں پڑھ کر سلسلۂ تعلیم ختم کردیا،۔۔۔۔۔ حضرت مولانا شہا ارشاد حسین مجددی حرمین مکرمین سے واپس آکر ملا اخوند فقیر کی مسجد میں مقیم تھے، آپ ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لیے اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت مولانا نے آپ کی طرف بفور دیکھ کر فرمایا، تم خود کیوں نہیں پڑھتے، فرمایاجوان ہوگیا ہوں، لڑکوں کی کتاب پڑھنےمیں حیاء ورشرم معلوم ہوگی، مولانان ےفرمایا ہم تم کو ایسی کتاب پڑھائیں۔ گے جو کسی نے نہ پڑھی ہوگی، مولانانے ‘‘ارشاد الصرف’’ آپ ہیکو پڑھانے کےلیے تصنیف فرمایا، چند روز بعد آپ پر شوق علم ایسا غالب ہوا کہ ترک علائق کر کے پوری توجہ سےتحصیل علوم میں لگ گئے آپ نے معقول و منقول کی اکثر کتابیں حضرتمولانا شاہ ارشاد حسین سے پڑھیں، اُن کی اجازت سےحضرت علامہ ہدایت اللہ خاں رام پوری، مولانا احمد حسن مراد آبادی، مولانا عبد العلی خاںریاضی داں سے بھی کسب علم کیا، حضرت مولانا نےاپنے مشائخ کےم عمول کے خلاف آپ کو خود اپنےحلقۂ ذکر میں شرکت کی ہدایت کی اور چند دن کےبعد مرید کیا، آپ ۳۲سال شب دروز خلوقت وجلوت ۱۳۱۱؁ھ کے بعدمولانا امداد حسین برادر اکبر حضرت مولانا شاہ ارشاد حسین قدس سرہٗ کے ارشاد کے بموجد ارشادی مجددی سلوک کے سالکوں کی خدمت ورہبری آپ کے سپرد ہوئی، علوم عقنیہ و نقلیہ کا درس بھی پوری قوت سے دیتےتھے، مولانا شاہ احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ سے آپ کے خصوصی روابط تھے، اکثر مراسلت رہتی تھی، حضرت بریلوی کے بہت سے فتاویٰ آپ کے دستخط اور مُہر سےمزین ہیں۔۔۔۔۔ ۱۰؍ذی الحجہ ۱۳۴۵؁ھ میں سفر آخرت فرمایا ۱۱؍ذی الحجہ کو اپنی خانقاہ واقع حلقہ والی زیارت میں مدفون ہوئے۔

(مقامات ارشادیہ)



[1] ۔ حضرت ملا عبد الکریم معروف بہ ملا فقیر اخوند سلسلۂ قادریہ کےعالی مرتبت بزرگ تھے، اُن کو حضرت شاہ منور علی الہ آبادی قدس سرہٗ سے شرف بیعت وخلافت حاصل تھی، حضرت الہ آبادی کی عمر شریف ساڑھے پانچسو برس کی ہوئی، ۱۲۰۶؁ھ حضرت اخوند صاحب کا سال رحلت ہے، حضرت اخوند صاحب قدس سرہٗ کے سلسلۂ فیض سےراقم سطور وابستہ ہے، راقم خاکسار کےپیر ومرشد حضرت بدر العرفاء رہبر راہ شریعت، گوہر درج طریقت، مولاناالحاج شاہ شاہ رفاقت حسین صاحب قبلہ دامت برکاتہم کے پیر بیعت وارشاد محبوب رحمانی، عارف حقانی، مجدد الطریقۃ الاشرفیہ حضرت سید شاہ علی حسینا شرفی سرکار کچھوچھہ مقدسہ حضرت امیر طریقت بدر شریعت عارف باللہ مولانا سید شاہ امیر احمد کابلی کے مجاز وما ذون تھے، ان کو حضرت اخوند صاحب سے اُن کو حضرت شاہ دولہ قدس سرہ مؤخر الذکر حضرت قطب الافراد سلطان بغداد غوث اعظم قدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ تھے، کاتب سطور کو دور طالب علمی مدرسہ عالیہ ۶۱، ۱۹۶۲؁ء میں کئی بار حضرت اخوند کے مزار پر حاضری اور فاتحہ خوانی کا شرف حاصل ہوا۔

تجویزوآراء