آپ نے زہد، ورع، ترک دنیا، تجرد اور عزلت (جیسے اوصاف حمیدہ) سے موصوف تھے اور اپنے زمانے کے تمام لوگوں کی نظروں میں مکرم و معظم تھے۔ ایک مرتبہ شیخ نظام الدین کے ان دوستوں کو، جن کی زندگی کتب بینی اور بحث مباحثہ میں گذری تھی، شوق ہوا کہ وہ مولانا جلال الدین اودھی سے کچھ علم حاصل کریں اور باہمی صلاح مشورے سے یہ طے پایا کہ مولانا ہی شیخ نظام الدین سے اس کی اجازت حاصل کریں۔ مولانا نے جب شیخ کی خدمت میں یہ بات پیش کی تو شیخ نظام الدین سمجھ گئے کہ دراصل یہ انہی لوگوں کی خواہش ہے تو آپ نے مولانا سے فرمایا کہ میں کیا کروں۔ میں نے تو ان سے کچھ اور ہی کام لینا ہے اور یہ لوگ پیاز کی مانند پوست در پوست ہیں۔
اخبار الاخیار
بہت بڑے دانشمند اور بے حد مشغول بحق تھے اور سماع کے عاشق و شیدا آپ کا ظاہر و باطن اہل تصوف کے اوصاف کے ساتھ موصوف تھا رحمۃ اللہ علیہ۔ کاتب حروف نے اپنے والد چچاؤں سے سنا ہے کہ جب مولانا سلطان المشائخ کی قدم بوسی اور بیعت کے شرف سے مشرف ہوکر جماعت خانہ میں تشریف لائے اور جوان صالح کے خطاب سے مخاطب ہوئے تو یہاں اکثر یاران دانشمند جیسے مولانا وجیہہ الدین پائلی اور دوسرے یار جمع تھے ان ہی ایام میں خراسان کی طرف سے ایک عالم آیا جسے مولانا بحاث کہتے تھے وہ بھی اس مجمع میں حاضر تھا۔ یہ شخص بہت سے علماء شہر سے بحث کر چکا تھا اور عین مجلس منظرہ میں انہیں الزام دے چکا تھا اس کی زور تقریر اور برجستگی جواب کی اس درجہ دھوم تھی کہ کسی کو اس سے معارضہ کرنے کی تاب نہ تھی چنانچہ اس مجلس میں بھی ایک مسئلہ چھڑ گیا اور مولانا جمال الدین اودھی نے بحث شروع کردی اور انجام کار اسے یہاں تک ملزم کیا کہ کوئی جواب بن نہ آیا اس وقت مولانا وجیہہ الدین پائلی اور دیگر حاضرین مجلس نے کمال انصاف سے داد دی اور سب نے متفقہ الفاظ میں مولانا جمال الدین کو مبارک باد دے کر کہا کہ آپ پر خدا کی رحمت ہو اور آپ کے علم میں خدا برکت عنایت کرے۔ آج تم نے اس عزیز کے سر سے رعونت و نخوت دور کی اسی مجلس میں خواجہ اقبال بھی موجود تھے آپ نے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ جو ان صالح یعنی مولانا جمال الدین بڑے دانشمند عالم ہیں سلطان المشائخ نے دریافت کیا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا خواجہ اقبال نے عرض کیا کہ انہوں نے مولانا بحاث سے گفتگو کی اور ایسے دلائل بیان کیے کہ انہیں بالکل بند کر دیا چنانچہ مولانا وجیہہ الدین پائلی اور دیگر حاضرین مجلس نے انصاف کیا اور ان کی تصویب فرمائی یہ سن کر سلطان المشائخ نے فرمایا کہ خواجہ اقبال! جوان صالح اور یاران مجلس کو بلا لاؤ۔ جب مولانا جمال الدین اور حاضرین مجلس حاضر ہوئے تو سلطان المشائخ نے فرمایا کہ مولانا جمال الدین تمہارے آنے پر خدا کی رحمت ہو کہ تم نے علوم کو بیچا نہیں ازاں بعد قوال طلب کئے گئے اور سلطان المشائخ سماع میں مصروف ہوئے اسی اثناء میں آپ نے مولانا جمال الدین کی طرف روئے سخن کر کے فرمایا کہ جو ان عاشق سماع سنو پھر تو مولانا کی یہ کیفیت تھی کہ جوں جوں سماع میں ترقی ہوتی جاتی اور قوال گاتے جاتے توں توں آپ کو رقت زیادہ ہوتی تھی اس کے بعد دوبارہ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ سماع سنو اس میں تمہیں تمام و کمال حظ حاصل ہوگا۔ ازاں بعد سلطان المشائخ نے مولانا کو اپنے لباس خاص سے مشرف فرمایا سلطان المشائخ کے اس ارشاد کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو عجیب و غریب حظ سماع میں حاصل ہوتا تھا۔ آپ کے سینۂ مبارک سے عشق کی آگ اس قدر شعلہ زن ہوتی تھی کہ حاضرین مجلس کے دلوں میں ایک فوری درد پیدا ہوجاتا تھا یہ برکت صرف جناب سلطان المشائخ کی سعادت بخش نظر سے حاصل ہوتی تھی اور اسی وجہ سے مولانا کو اس بارہ میں ہر دن شوق زیادہ ہوتا جاتا تھا۔ ذیل کے اشعار حکیم ثنائی کے ہیں جو گزشتہ عاقلوں اور باقی ماندہ جاہلوں کے بارے میں آپ نے نہایت خوبی سےلکھے ہیں۔
آن کسانیکہ رٖراہ دین رفتند بختہ از حسرتِ طلب گل شان ھر کہ اندر جھان جز ایشان بود ھمہ رفتندو کام و دولت ماند وان گرو ھے کہ نور سید ستند سر باغ و دل زمین دارند ھمہ ازراہ صدق بیخبر اند مکتب شرع راندیدہ ھنوز ھمہ دیوان آدمی اویند ماہ رویان و تیرہ ھوشانند در سخں چون شتر گستہ مھار ھیچ نا یافتہ زتقوی بوئے ھمہ جو یان کبرو تمکین اند
|
|
چھرہ از ننگ خلق بنھفتند سو ختہ ز آتش و فادل شان لا جرم زیر حکم ایشان بود ھمہ مر دند نام و حشمت ماند عشوۂ جان و دل خرید ستند کے دل عقل و شرح دین دار ند آدمی صورت اند لیگ خراند بدر عقل نا رسیدہ ھنوز ھمہ غولان بہ بے رھی پویند جاہ جویان و دین فر شانند چون شتر مرغ جملہ آتش خوار تھی از آب ماندہ ھمچو سبوئے ھمہ قلب شریعت و دین اند
|
ترجمہ: (جن لوگوں نے دین کا رستہ طے کیا انہوں نے ننگ خلق سے اپنا چہرہ چھپایا ان کی مٹی حسرت طلب سے پختہ اور دل وفا کی آگ سے سوختہ ہوا اور جب ان کی یہ کیفیت تھی تو دنیا میں ان کے جس قدر آدمی تھے سب ان کے مطیع فرمان تھے لیکن وہ دنیا سے اٹھ گئے اور کام و دولت باقی رہی سب یہاں سے چل دئیے اور حشمت و شوکت چھوڑ گئے ان کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے وہ صرف دل کے عشوہ کے خریدار ہوئے ان کی ساری ہمت زمین و باغ میں مصروف ہوئی اور جب یہاں تک نوبت پہنچی تو عقل و دین سب ضائع ہوئے اور راہ صدق سے بالکل غافل و بے خبر ہیں اور گو آدمی کی صورت میں ہیں لیکن حقیقت میں گدھے ہیں جنہوں نے شرع کا مکتب آنکھ سے نہیں دیکھا۔ اور عقل کے دروازہ تک ان کی رسائی نہیں ہوئی سب کے سب دیو خصلت آدمی صورت ہیں اور لوگوں کے گمراہ کرنے میں غول بیا بانی سے کم نہیں اگرچہ بظاہر مہ پارہ ہیں لیکن باطن میں تبرہ مکدر جاہ حشمت کے متلاشی اور دین فروشی ہیں بات کرنے میں شتر بے مہار ہیں اور وحشت میں شتر مرغ۔ تقوی کی بو تک ان میں پائی نہیں جاتی اور ٹھلیا کی طرح پانی سے خالی ہیں سب تکبر و تمکنت کے خواہان ہیں اور شریعت و دین کے اُلٹ پلٹ کرنے والے۔)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے کہ
ذھب الذین یعاش فی اکنا فھم
وبقیت فی خلق کجلد الا جرب
(یعنی جن کی پناہ میں عیش کیا جاتا تھا وہ چل بسے اور میں گندہ اور خارشی جلد پوست کی طرح خلق میں باقی رہ گئی۔)
//php } ?>