حضرت علامہ بہاءُ الدین محمد جلال الدین اودھی

 حضرت علامہ بہاءُ الدین محمد جلال الدین اودھی   رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

 صحراے تصوف کے شیر  تکلف و بناوٹ سے عاری مولانا جلال الملۃ والدین اودھی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو  زہد و ورع اور  ترک و تجرید کے ساتھ اول آخر  تک موصوف رہے آپ نے  تمام دنیاوی تعلقات دفعۃً ترک کر دئیے اور دنیا کے غوغا سے عاجز آکر گوشہ نشینی اختیار کی اور  خدا کی عبادت سلطان المشائخ کی محبت میں مشغول ہوئے آپ اودھ کے اکثر یاروں سے ارادت و بیعت میں سابق تھے اور سب کے نزدیک معظم و مکرم سمجھے جاتے تھے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اودھ  کے تمام یاروں نے اتفاق کیا کہ سلطان المشائخ  سے علمی تبحر  حاصل کرنے کی اجازت لینی چاہیے اگرچہ ان بزرگوں میں ایک ایک بزرگ عالم متبحر اور فاضل عصر تھا لیکن سلطان المشائخ  کے حکم سے یاد حق میں مشغول تھا مگر  چونکہ ایک عمر دراز علم کے شغل میں مصروف کی تھی اس لیے انہیں یہ ہوس دامن گیر ہوئی  کہ اس کام کے ساتھ علمی مناظروں  کا بھی چرچا  رہنا چاہیے چنانچہ یہی  ہوس اس امر کی باعث ہوئی کہ سلطان المشائخ  سے اس بارہ میں اجازت حاصل کرنی چاہیے الغرض سب یاروں نے مولانا جلال الدین کو اس پر  آمادہ کیا کہ وہ اس بارے میں مخدوم جہان سے عرض  کریں جب یہ تمام لوگ بزرگ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی مجلس کی یہ  کیفیت تھی کہ خدائے عزوجل وعلیٰ کی صفتِ کبریائی سلطان المشائخ پر متجلی تھی اور اس کی ہیبت  و رعب سے بہت  بڑے بڑے یار آپ کے سامنے بولنے کی طاقت نہ  رکھتے تھے لیکن مولانا جلال الدین کو وقت و بے وقتِ عرض کرنے کی اجازت تھی لہذا آپ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا مخدوم! اگر حکم ہو تو یاران اودھ کبھی کبھی علمی مجلس  قائم کر کے بحث و مناظرہ کیا کریں۔ سلطان المشائخ کو معلوم تھا کہ یہ سوال ان تمام یاروں کی طرف سے پیش ہوا ہے جو اس وقت مجلس میں حاضر ہیں اس لیے آپ نے فرمایا کہ کیا کروں افسوس مجھے تو  ان سے ایک اور  امر مطلوب ہے اور وہ پیاز کی طرح پوست ہی پوست ہیں۔ کاتب حروف کہتا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ کے جواب سے میں نے یہ  مستنبط کیا ہے کہ اس فرمانے سے آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مغز نہیں رکھتے کیونکہ جس قدر علم کی اس کام میں حاجت تھی جسے انہوں نے شروع کیا ہے وہ حاصل ہوگیا اور تحصیل علوم سے اصل غرض عمل کرنا ہے خدا وند تعالیٰ کی محبت بمنزلہ مغز کے ہے اور جو کچھ اس کے سوا ہے سب بمنزلہہ پوست  ہے یہی وجہ ہے کہ شیخ نصیر الدین محمود فرماتے تھے کہ ایک دفعہ مولانا شمس الدین یحییٰ اور یہ ضعیف دونوں سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر تھے سلطان المشائخ نے مولانا شمس الدین  کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ لب بند  کرو اور دروازہ بند رکھو۔ آپ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ مولانا وجیہہ الدین پائلی سے سلطان المشائخ نے فرمایا کہ مولانا تمہارے اور خدا تعالیٰ کے درمیان یہی زبان ہے۔ الغرض مولانا جلال الدین کی ذات  فرشتہ صفات کو چند روز  تک زحمت عارض رہی اور اس کے چند روز بعد دار فنا سے دار بقا میں رحلت فرما گئے۔

 (سِیَر الاولیاء)


متعلقہ

تجویزوآراء