حضرت مولانا خواجہ احمد حسین امرو ہوی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1289 | شعبان المعظم | 24 |
یوم وصال | 1361 | رجب المرجب | 27 |
حضرت مولانا خواجہ احمد حسین امرو ہوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا خواجہ احمد حسین امرو ہوی رحمۃ ا للہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت مولانا خواجہ احمد حسین امروہوی رحمۃ اللہ علیہ۔لقب:شیخ المشائخ،امام العلماء۔والد کااسم گرامی:شیخ المشائخ حضرت خواجہ حافظ محمد عباس علی خان علیہ الرحمہ۔آپ کاسلسلہ نسب بہ واسطہ حضرت مولانا سید شاہ فخرالدین احمد، حضرت حکیم بادشاہ الہ آبادی، ومولانا سید محمد عاشق ،ومولانا شاہ ابوالحسن نصیر آبادی، ومولانا مراداللہ تھانیسری ،ومولانا نعیم اللہ بہرائچی ،حضرت مرزا جان جاناں تک پہنچتاہے۔یہ وہی مولانا نعیم اللہ ہیں جن کو حضرت مرزا صاحب نےمکتوبات شریف دےکر فرمایاتھا:"لو امانت حضرت مجدد علیہ الرحمہ آپ کو تفویض کردی گئی ہے،یہ تمام خزانوں سےبڑاخزانہ ہے"۔(جواہر مجددیہ:7)۔ اسی طرح آپ کےخاندان کےایک اوربزرگ حضرت شیخ جان محمد خان قادری بلخی علیہ الرحمہ حضرت مجددالف ثانی علیہ الرحمہ کے خلیفہ تھے۔یہ خاندان صاحب تقوی ٰ وطہارت ،علمی وروحانی دولت سےمالا مال،اوربالخصوص حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی روحانی وعلمی امانتوں کاحامل خاندان ہے۔اس خاندان میں بڑےبڑے صوفیاء کرام گزرےہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 24 شعبان المعظم 1289ھ،مطابق آخرماہ اکتوبر/1872ء کو"امروہہ"ضلع مراد آباد میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ کی تعلیم وتربیت علمی وروحانی ماحول میں ہوئی۔آپ بے حد ذہین تھے،آپ کےچہرےسےہی ذہانت وفطانت کے آثار نظر آتے تھے۔یہی وجہ ہےکہ مولوی احمد حسن امروہوی شاگردخاص مولوی قاسم نانوتوی نے آپ کی ذہانت سے متاثر ہوکر از خود آپ کو اپنے مدرسہ میں داخل کرلیا۔تذکرۃ الکرام میں مرقوم ہے کہ مولوی احمد حسن آپ کو "علامہ بایزید" کے لقب سے پکارتے تھے،اور آپ کی شاگردی پر فخر کرتے ۔مگر آپ اپنے استاذ کے عقائد سے قطعی متاثر نہ ہوئے،بلکہ علی الاعلان استاد کے عقائد و نظریات کی تردیدکرتے تھے۔یہ آپ کے جد اعلیٰ حضرت شیخ جان محمد خاں قادری بلخی خلیفہ امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہما کا فیض واثر تھا،کہ وہابیہ میں رہ کر چھوٹی سی عمر میں ان سےمتأثر نہ ہوئے،اور اپنے عقائد ونظریات پر نہ صرف قائم رہے بلکہ ان کےباطل عقائد کاردبھی کرتےرہے۔جامع المعقولات حضرت مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور حضرت مولانا انوار اللہ حیدر آبادی(مصنف انوار احمدی) سے بھی استفادہ کیا۔(تذکرہ علمائے اہلسنت:47)
بیعت وخلافت: آپ اپنے والد گرامی حضرت شیخ المشائخ خواجہ محمد عباس علی خان علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور خلافت سےسرفراز کیے گئے،حضرت سید محمد معروف علی شاہ قادری حیدر آبادی نے بھی اجازت دی تھی۔اعلیٰ حضرت امام اہلسنت نےآپ کوخلافت وجازت کاشرف عطافرمایا۔آپ کی رفعتِ شان کی بدولت متعدد مشائخ نےآپ کواجازت وخلافت کے شرف سے مشرف فرمایا۔(خلفائے اعلیٰ حضرت:127)
سیرت وخصائص: صاحبِ جودوسخا،مجمع السلاسل،جامع فضائل وخصائص،بحرِ طریقت،حبر ِشریعت،امام العلماء،سیدالاتقیاء،سندالاصفیاء،رئیس الحکماء،حامیِ دین مصطفیٰﷺ،ماحیِ اہل بدع والہواء،صاحبِ تصانیفِ کثیرہ،محبوبِ ربِ کونین حضرت مولانا خواجہ شاہ احمد حسین نقشبندی قادری امروہوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کےایک جید عالم دین اور شیخِ طریقت تھے،اپنے خاندان کی علمی وروحانی امانتوں کےوارث اور اہل ِ حق اہل سنت وجماعت کےسچے نقیب تھے۔بچپن میں ہی چہرے سےبزرگی وفطانت کے آثار نمایاں تھے۔مدرسے میں ہمیشہ نمایاں نمبروں سےکامیاب ہوتےرہے،بہت جلد علوم نقلیہ وعقلیہ میں مہارت حاصل کرلی،اوردینِ متین کے فروغ وترقی کےلئے کوشاں ہوگئے۔
حضرت مولانا شاہ احمد حسین امروہوی رحمۃ اللہ علیہ علم تقویٰ کی بدولت بہت جلد عوام وخواص میں بہت مقبول ہوگئے۔آپ قابل رشک شخصیت کےمالک تھے۔احقاق حق اور ابطال باطل آپ کی زندگی کاایک اہم مقصد تھا۔اس کےلئے کسی کی رو رعایت کے قائل نہیں تھے۔اسی وجہ سے علماء ومشائخِ اہل سنت کی عقیدتوں کا محور تھے۔ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت سےخصوصی محبت تھی۔مجددوقت کی زیارت کےلئے 24/رمضان المبارک 1331ھ،مطابق اگست/1913ء کوبارگاہ اعلی حضرت میں پہنچے۔مغرب کا وقت تھا،اعلیٰ حضرت کی اقتداء میں نماز اداکی،امام اہلسنت کی نگاہ لطف وعنایت سلام پھیرتےہی آپ پر پڑی، اعلیٰ حضرت نے سلام پھیرتے ہی اپنے سرکا عمامہ اتار کر آپ کو مرحمت فرمایا،اور" تاج الفیوض "کےنام سےفی البدیہہ تاریخ فرماکرعزت بخشی۔
اس اعزاز واکرام کاسبب یہ ہوا کہ دوران جماعت اعلی ٰ حضرت علیہ الرحمہ کوحضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ نےمولانا کی رفعت ِ مرتبت کےباعث اجازت وخلافت عطاء کرنےکاارشاد فرمایاتھا۔(تذکرہ علماء اہل سنت:47/خلفائے اعلی حضرت:127)
آپ نے1894ء کو"مطبع انتظامی" کےنام سے امروہہ میں ایک پرنٹنگ پریس کی بنیاد ڈالی اور"گلدستۂ نسیم چمن" کےنام سےایک ماہنامہ بھی جاری کیا۔اسی طرح حیدرآباددکن میں بسلسلہ ملازمت ایک عرصے تک مقیم رہے،اورتبلیغِ دین کی خدمت بھی انجام دیتے رہے۔شیخ طریقت اورجید عالم دین کے ساتھ بلندپایہ سخن گوبھی تھے۔اردو کےعلاوہ عربی اورفارسی شعروادب میں خاصا عبور حاصل تھا۔"احمد"تخلص فرماتے۔آپ نےمختلف موضوعات تقریباً تیرہ بہترین اورضخیم کتب تصنیف فرمائی ہیں۔آپ کی ایک کتاب "جواہرمجددیہ" ادارہ مسعودیہ کراچی نےشائع کی ہے۔آپ کی تمام کتب ایک ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں،اوران کی اشاعت اہل سنت پراحسان ِعظیم ہوگا۔کیونکہ بعد میں آنے والے ان کی کتب سےہی مستفید ہوسکتےہیں۔
تاریخِ وصال:27/رجب المرجب 1361ھ،مطابق 11/اگست 1942ء،بروزمنگل داعیِ اجل کو لبیک کہا۔آپ کے محب صادق حضرت مولانا شاہ مفتی محمد مظہراللہ دہلوی نے نماز جنازہ کی امامت کی۔والد ماجد کے پہلو میں مدفون ہوئے،آپ کامزاردہلی میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔خلفائے اعلیٰ حضرت۔جواہر مجددیہ۔تذکرۃ الکرام۔