حضرت مولانا محبوب علی خان لکھنوی
حضرت مولانا محبوب علی خان لکھنوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا محبوب علی خان لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:حضرت مولانا محبوب علی خان۔لقب:غازیِ ملت،مناظراہلسنت،مفتیِ اعظم پٹیالہ،مصنف کتبِ کثیرہ،لکھنؤکی نسبت سے"لکھنوی"مشہورہیں۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: مولانا محبوب علی خان بن ابوالحفاظ نواب علی خان بن محمد حیات خان بن محمد سعادت خان بن محمد خاں۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔آپ کےوالدِگرامی،حضرت مولانا ہدایت رسول رامپوری (خلیفہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ )کے مرید تھے۔آپ مفتی اعظم بمبئی خلیفۂ اعلیٰ حضرت حضور شیر بیشۂ اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کے برادر اصغرہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت لکھنؤ انڈیا میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: حفظ قرآن پاک اور ابتدائی تعلیم دار العلوم منظر الاسلام بریلی شریف میں حاصل کی۔ دار العلوم حزب الاحناف لاہور میں حضرت مولانا سید دار علی الوری قدس سرہ ٗ سے دورۂ حدیث کی تکمیل کر کے سند فضیلت حاصل کی۔
بیعت وخلافت: اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجددملت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اورسندِاجازت وخلافت سے سرفرازکیےگئے۔ آپ نےاطرافِ ہندمیں سلسلہ عالیہ رضویہ کےفروغ میں اہم کرداراداکیا۔
سیرت وخصائص: غازیِ ملت،مناظراہلسنت،مفتیِ اعظم پٹیالہ،مصنف کتبِ کثیرہ،محبوبِ اعلیٰ حضرت،صاحبِ تقویٰ وفضیلت حضرت علامہ مولانا مفتی محبوب علی خان لکھنوی رضوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ ایک جامع علمی وعملی شخصیت کےمالک تھے۔تمام فنون پرکامل قدرت رکھتےتھے۔فنِ مناظرہ وردبدمذہباں میں اپنےبرادراکبر حضرت شیربیشہ اہل سنت کےہم قدم تھے۔اللہ تعالیٰ نے حق بولنے و حق لکھنے کی بے پناہ صلاحیت آپ کو عطا کی تھی۔ تحریر سے آپ کو اس درجہ شغف تھا کہ تادم زیست پرورش لوح و قلم اور پھراس کی نشر و اشاعت میں سرگرم عمل رہے۔ آپ نے اکثر اصلاح عقائد فاسدہ کےموضوع پر قلم اٹھایا ہے۔خوب لکھا ہے اور حق ادا کردیا ہے۔ کتابوں کا موضوع خالص علمی رنگ لیے ہوئے ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے مصنف کی علمی دقیقہ رسی اور نکتہ شناسی کا اندازہ ہوتا ہے۔آپ کی جملہ تصانیف کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اتنا لکھنے میں ضرور حق بجانب ہوں کہ وہ درجنوں اہم کتابوں کےمصنف تھے۔
حضرت مفتی صاحب نے علم دین کی جو شمع وہاں روشن کی ہے اس سے اپنے تو اپنے بےگانوں کےقلب بھی منور ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔کتنوں کو آپ نے داخلِ اسلام کیا۔ ایسا جادوئی لب و لہجہ خدا نے آپ کو عطا کیا تھا کہ ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی دشمنِ رسول عاشق رسولﷺ ضرور بن جاتا۔ پٹیالہ میں اشاعتِ اسلام پر تبصرہ کرتے ہوئے چودھری اختر علی لکھتے ہیں۔" مسلمانوں میں ایمانی روح اور مذہبی بیداری پیدا ہورہی ہے۔چنانچہ مخالف کو بھی آپ کے وعظ میں آخر سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ قدرت نے عجیب مبارک طریقہ استدلال آپ کو ودیعت فرمایا ہے۔ 2/ جمادی الاول بروز جمعہ مبارک 1353ھ کو قبل نماز جمعہ جبکہ وہ وعظ فرمارہےتھے۔ایک شخص مسمٰی مکند اور ولد بھاگ سکن تیر نک ضلع حصار نے برضا و رغبت خود ہزاروں مسلمانوں کے روبر و حضرت علامہ کے دست حق پرست پر ہندو مذہب سے توبہ کی اور اسلام قبول کیا۔ اسلامی نامی " محمد بخش" رکھا گیا۔اسی طرح کئی افراد آپ کی کوششوں سےمشرف بااسلام ہوئے۔(الفقیہ امرتسر1937ء)
ممبئی میں آپ کتب خانہ اہل سنت کاقیام عمل میں لائےجس سےاہل سنت کی کثیرکتب ورسائل کی اشاعت ہوئی۔آپ نےدینِ کی خدمت میں بڑی آزمائشوں اورتکلیفوں کاسامناکیا۔لیکن کبھی بھی اپنے موقف سےپیچھےنہیں ہٹے۔یوں تومخالفینِ اہلِ حق کی طرف سےکئی مصائب کاسامنارہالیکن ممبئی میں مقدمہ ممبئی اور انقلاب اینڈ کمپنی کی سازشوں کا شدید جال آپ اور آپ کے مخلصین اہل سنت کا ایک عظیم امتحان تھا ،جو دنیائے سنیت کی وہ روشن تاریخ ہے اور آج بھی منزلوں کے بیچ دخم میں ہماری رہنمائی کیلیے کافی ہے۔ زندگی کے اس سخت ترین موڑ پر آپ کی محبت کا،خلوص ِنیت کا، عزم اور حوصلہ کا، جذبہ وفاداری کا ،جانثاری اور استقامات فی الدین کا جس جس طرح بھی امتحان لیا گیا تو آپ اسلام و سنیت کی نشر و اشاعت کی خاطرِ اہل باطل کے ہزار ہاباطل طوفانوں میں نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ برابر مسکراتے ہوئے نظر آئے۔ رفیقوں کے قدم ڈگمگا گئے۔ اور احباب کے چہروں پر اداسی چھپاگئی مگر کوئی زلزلہ آپ کے پائے ثبات کو متزلزل نہ کرسکا اور نہ آپ کے عزم محکم میں کسی قسم کی جنبش پیدا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اور اس کےرسول ﷺنے ایسی شاندار کامیابوں سے ہمکنار کیا کہ ممبئی ہی نہیں بلکہ مہارا شڑ کی تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماءممبئی اس عظیم الشان فتح و نصرت کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔(مولانا حشمت علی خان:122)
شریعت کا انہیں بے حد پاس تھا۔ زہد و تقویٰ ان کی زندگی کا ایک حصہ بن چکا تھا کسی کام کے کرنے سے پہلے شرعی نقطۂ نظر سے اسکا جائزہ ضرور لے لیتے۔ فرائض و اجبات پر عمل تو تھا ہی مستحبات و مسنونات کی بھی اُن کے یہاں بڑی قدر اور اہمیت تھی۔زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے بھی بہرہ مند تھے۔بیعت واردت کا بھی سلسلہ تھا سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت کرتے تھے۔ سینکڑوں مریدین اُن کے دامن ارادت سے وابستہ ہیں۔آپ کے مریدین " محبوبی" لکھتے ہیں۔آپ کے مریدین میں خلوص و محبت کا جذبہ آپ ہی کی طرح ہے۔ مثال مشہور ہے درخت اپنے پھل اور پیر اپنے مرید سے پہنچا جاتا ہے۔ جب تک بقید حیات رہے اشاعتِ دین حق کو مقصود زندگی سمجھتے رہے۔ یاد گار میں صاحبزاد اور شاگردوں کے علاوہ ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی آپ کی تصانیف ہیں جو رہتی دنیا تک آپ کی علمی عظمت کا اعتراف اہل علم وفن سے کراتی رہیں گی۔
تاریخِ وصال: 24/جمادی الاخری1385ھ،مطابق 20/اکتوبر1965ءکوسفرِ آخرت کیا۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت۔مولانا حشمت علی خان لکھنوی۔