فقیہِ اعظم حضرت علامہ مفتی محمد نور اللہ نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1333 | رجب المرجب | 16 |
یوم وصال | 1403 | رجب المرجب | 01 |
فقیہِ اعظم حضرت علامہ مفتی محمد نور اللہ نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (تذکرہ / سوانح)
فقیہِ اعظم حضرت علامہ مفتی محمد نور اللہ نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی: علامہ مفتی محمد نوراللہ نعیمی بصیرپوری ۔کنیت:ابوالخیر۔لقب:فقیہِ اعظم ۔سلسلۂ نسب اسطرح ہے:فقیہِ اعظم مولانا مفتی نوراللہ بصیرپوری بن حضرت علامہ مولانا الحاج ابوالنورمحمدصدیق چشتی بن حضرت مولانااحمددین ۔علیہم الرحمہ۔ آپ کا تعلق ارائیں خاندان کے ایک ایسےعلمی و روحانی گھرانے سے ہے، جونسلاً بعد نسل علوم اسلامیہ کا امین چلا آرہا ہے۔
تاریخ ِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 16/رجب المرجب 1332ھ،مطابق 10/جون 1914ءکوتحصیل دیپالپورضلع ساہیوال پنجاب میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد زبدۃ الاصفیاء مولانا ابو النور محمد صدیق چشتی علیہ الرحمۃ (م 1380ھ/1961ء) اور جدامجد حضرت مولانا احمد دین علیہ الرحمۃ (م1361ھ/1942ء)سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل کی،پھر متحدہ ہندوستان کے مختلف مدارس کا رُخ کیا اورخداداد صلاحیت، ذاتی لگن اور محنت کی بنا پر علم کے کوہ ہمالیہ بن گئے۔علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل کرنے کے بعد 1351ھ/1933ء میں مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں داخلہ لیا، جہاں شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا سید محمد دیدار علی شاہ الوری علیہ الرحمۃ (م1354ھ/1935ء) اور مفتیٔ اعظم پاکستان مولانا ابو البرکات سید احمد قادری علیہ الرحمۃ (م1398ھ/1978ء) سے دورہ حدیث شریف پرھا۔ حضرت محدث الوری علیہ الرحمۃ دورۂ حدیث پڑھنے والوں کو اکثر فرمایا کرتے۔"اس بار تم مولانا محمد نور اللہ صاحب کی طفیل پڑھ رہے ہو"۔دورۂ حدیث مکمل کرنے کے بعد 6/شعبان 1352ھ، بمطابق 23/نومبر 1933ء کو سندو دستار فضیلت عطا کی گئی۔ اس موقع پر امام اہل سنت محدث الوری علیہ الرحمۃ نے آپ کو مطبوعہ سند کے علاوہ خصوصی اسناد سے بھی نوازا اور"ابو الخیر" کنیت عطا فرمائی۔
بیعت وخلافت: آپ صدرالافاضل بدرالمماثل مفسرقرآن،محافظ نظریۂ پاکستان حضرت علامہ مفتی سیدنعیم الدین مرادبادی رحمۃ اللہ علیہ کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اورتمام علوم وسلاسل کی اجازت سےمشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: مجمع علم عرفاں، شیخ الحدیث والتفسیر، حجۃ الاسلام،محدث دوراں،فقیہ العصر،فقیہ النفس،مفتیِ اعظم،حضرت فقیہ اعظم ابو الخیر مفتی محمد نور اللہ نعیمی بصیرپوری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے ان مقبول اور برگزیدہ بندوں میں سے ہیں، جن کا دوام جریدۂ عالم پرثبت ہو چکا ہے۔اعلیٰ اوصاف اور متنوع القاب میں سے "فقیہ اعظم" کا لقب زبان زد خاص و عام ہے۔ اب فقیہ اعظم کہا جائے تو اہل علم اس سے آپ ہی کی ذات گرامی مراد لیتے ہیں۔حضرت فقیہ اعظم نے اپنی فطری ذکاوت و ذہانت سے زمانہ طالب علمی میں ذاتی مطالعہ سے کم و بیش پچاس و فنون میں وہ مہارت حاصل کی کہ باید و شاید۔ آپ کے اساتذہ بھی کی علمی استعداد اور صلاحیت و قابلیت کے متعرف تھے۔
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز نے تعلیم سے فراغت کے فوراً بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز اپنے دور کی نادر روزگار شخصیت تھے، علم و فضل، تقویٰ و طہارت، تنظیم و سیاست اور ہمت و استقامت میں یکتائے روزگار تھے۔ یوں تو تفسیر، حدیث اور دیگر تمام مروج علومِ دینیہ میں کامل دسترس رکھتے تھے لیکن فقہ میں آپ کو تخصص کا درجہ حاصل تھا، اس لیے آپ کےہم عصر اکابر علماء نے آپ کو" فقیہ اعظم" تسلیم کیا۔حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز فتویٰ نویسی میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے، آپ کی ذات مرجع خلائق تھی، ملک و بیرون ملک کے لوگ استفتاء ات میں آپ کی طرف رجوع کرتے۔ ایک فقیہ اور مفتی کے لیے جن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے وہ تمام تر آپ میں بہ درجہ اتم پائی جاتی تھیں۔آپ کواللہ جل شانہ نےمجتہدانہ صلاحیتیں ودیعت فرمائی تھیں۔
موجودہ دورکےچیلنجوں کانہ صرف مقابلہ کیا بلکہ شریعت کی روشنی میں ان کاحل بھی پیش کیا۔ ان کا چنانچہ ایک جگہ علماء کو دعوت فکر و عمل دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:"کیا تازہ حوادثات و نوازل کے متعلق احکام شرعی موجود نہیں کہ ہم بالکلصُمٌّ بُکۡمٌبن جائیں اور عملاً اغیار کے ان کافرانہ مزعومات کی تصدیق کریں کہ معاذ اللہ اسلام فرسودہ مذہب ہے۔ اس میں روز مرہ ضروریات زندگی کے جدید ترین ہزارہا تقاضوں کا کوئی حل نہیں۔ یہ حقیقت بھی اظہر من الشّمس ہے کہ کسی ناجائز اور غلط چیز کو اپنے مقاد و منشاء سے جائز و مباح کہنا ہر گز جائز نہیں مگر شرعاً اجازت ہو تو عدم جواز کی رٹ لگانا بھی جائز نہیں، غرض یہ کہ ضد اور نفس پرستی سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ذمہ دار علمائے کرام محض اللہ تعالیٰ کے لیے نفسانیت سے بلند و بالا سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایسے جزئیات کے فیصلے کریں مگر بظاہر یہ توقع تمنا کے حدود طے نہیں کر سکتی اور یہی انتشار آزاد خیالی کا باعث بن رہا ہے۔"(فتاویٰ نوریہ، جلد 3، صفحہ 533)
حضرت فقیہ اعظم اعلیٰ اخلاق و کرادار کے حامل تھے۔ ان کے قول و فعل میں کامل ہم آہنگی تھی۔ آپ با وقار،بارعب اور پر کشش شخصیت کے حامل تھے۔ آپ بچوں پر رحمت، طلبہ پر شفقت اور بزرگوں سے مودّت فرمایا کرتے تھے۔ اخلاقیات میں صاحب خلق عظیم کے مظہر اتم تھے۔ شخصیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ کی ذات شرافت و منانت،جرات و استقلال،ہمدردی،خیر خواہی،حلم و بردباری،بے لوثی و فرض شناسی،عالی ظفر،علم و عمل،تواضع و انکسار خشیت الہیہ جیسی صفات سےمتصف تھی۔ آپ سلف صالحین کی کامل تصویر تھے۔
آپ کی زندگی کی خصوصیات میں اہم بات یہ ہے کہ آپ سادہ منش، کم گو، دل کے کھرے اور شہرت و ذاتی نمائش سے بے نیاز تھے۔ شہری زندگی کے ہمہموں اور ظاہریت کے رکھ رکھاؤ سے دور، فطری اور صاف ستھرے ماحول میں رہ کر دین متین کی بے لوث خدمت کرتے ہوئے زندگی بسر کر ڈالی۔ درس و تدریس،فتویٰ نویسی، خطابت و امامت اور بہت بڑے ادارے کے جملہ انتظامی امور کی نگہداشت کے عوض تنخواہ یا اجرت لینے کے روادارنہ ہوئے بلکہ جملہ دینی خدمات محض رضائے الہی کی خاطر مفت سر انجام دیتے رہے۔انہی اوصاف کے پیش نظر استاذ الاساتذہ حضرت علامہ عطا محمد بندیالوی علیہ الرحمۃ نے آپ کو "مجدد وقت" قرار دیا۔ شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی علیہ الرحمہ نے آپ کو "آیت من آیات اللہ" کہا اور شہباز خطابت زادہ سید فیض الحسن شاہ صاحب علیہ الرحمہ (آلو مہار شریف) نے آپ کو "دور حاضر کا امام ابو حنیفہ" قرار دیا۔
حضرت فقیہ اعظم فنافی الرسولﷺ اور فنافی حب المدینہ تھے۔ آپ کی محفل میں حاضری سے شرف یاب ہونے والے اس حقیقت سےبخوبی واقف ہیں کہ سرکار دو عالمﷺ کے ذکر سےآنکھوں سے آنسؤوں کے چشمے ابلنے لگتے، ایسا محسوس ہوتا کہ محبوب پاکﷺ کے جمال جہاں آراء کے دیدار میں محو ہیں۔ مولانا حافظ محمد اسد اللہ نوری کے نام ایک مکتوب گرامی میں اسی حقیقت کو یوں منکشف فرماتے ہیں:"میرا تو بفضلہٖ تعالیٰ یہ عالم ہے کہ بصیر پور میں درس اسباق دیتے ہوئے مدینہ عالیہ میں ہی حاضر معلوم ہوتا ہوں۔ گنبد خضراء پیش نظر رہے تو کوئی دوری نہیں۔ تعلیم بھی نہایت ضروری ہے کہ صوفی بے علم شیطان کا مسخرہ ہوتا ہے، ورنہ دل یہی چاہتا ہے کہ ہر وقت مدینہ عالیہ حاضری رہے"۔ (مکتوب محررہ، 18-اکتوبر 1979ء)کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ظاہری بے سرو سامانی کے باوجود بارگاہ حبیب ﷺ سے بلاوا آ گیا،اورمدینۃ المنورہ میں بارگاہ ِ حبیب ﷺمیں حاضر ہوگئے۔
تاریخِ وصال: یکم رجب المرجب 1403ھ بمطابق 15/ اپریل 1983ء، بروز جمعۃ المبارک، دو پہر ایک بجے وصال فرمایا۔آپ کی آخری آرامگاہ بصیر پورشریف ضلع ساہیوال پنجاب پاکستان میں ہے۔
ماخذومراجع: روشن دریچے۔