فقیہ اعظم مولانا مفتی نور اللہ بصیر پوری
فقیہ اعظم مولانا مفتی نور اللہ بصیر پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
فقیہِ اعظم مولانا الحاج ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی، بصیر پور
استاذ الاساتذہ فقیہِ اعظم حضرت مولانا الحاج ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی بن حضرت مولانا الحاج ابو النور صدّیق چشتی علیہ الرحمہ (م ۱۳۸۰ھ / ۱۹۶۱ء) بن حضرت مولانا احمد دین علیہ الرحمہ (م ۱۹۴۲ء) دیبالپور (ساہیوال) کے ایک مشہور قصبے سو جیکے میں ۱۶؍ رجب المرجب ۱۳۳۲ھ / ۲۲؍ جون ۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے۔
آپ کا تعلق ارائیں خاندان کے ایک علمی و روحانی گھرانے سے ہے جونسلاً بعد نسل علوم اسلامیہ کا امین چلا آرہا ہے۔
آپ نے قرآن پاک، فارسی، صرف اور نحو کی تعلیم اپنے والد ماجد اور جدِّ امجد سے حاصل کی۔ پھر علوم متداولہ کی تحصیل کے لیے ۱۳۴۵ھ میں مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم گھمنڈ پور میں داخل ہوئے۔ جہاں چھ سال کا عرصہ محقق دوراں حضرت مولانا الحاج فتح محمد صاحب محدّث بہاول نگری علیہ الرحمۃ (م ۱۳۸۹ھ / ۱۹۶۹ء سے اکتسابِ فیض کر کے متعدد علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔
۱۳۵۱ھ میں مرکزی دار العلوم حزب الاحناف لاہور میں داخل ہوئے، جہاں امامِ اہل سنّت حضرت مولانا الحاج سید ابو محمد، محمد دیدار علی شاہ محدّثِ اعظم الوری رحمہ اللہ (م ۱۳۵۴ھ / ۱۹۳۵ء) اور حضرت مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا ابو البرکات سیّد احمد قادری رحمہ اللہ سے علمِ حدیث کی تعلیم پائی۔ دورۂ حدیث کی جماعت میں آپ کو ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ ۲۳؍ نومبر ۱۹۳۳ء / ۱۶؍ شعبان المعظّم ۱۳۵۲ھ کو آپ نے مرکزی دار العلوم حزب الاحناف لاہور سے سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی امام اہل سنّت نے آپ کو خصوصی سندات بھی عطا فرمائیں اور ’’ابو الخیر‘‘ کی کنیت سے نوازا جبکہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا ابو البرکات سیّد احمد قادری مدظلہ نے بعد میں آپ کو فقیہ اعظم کے لقب سے نوازا۔
آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس سے فرمایا۔ ۱۳۵۲ھ سے ۱۳۵۶ھ تک موضع واسو سالم میں تدریسی خدمات انجام دیں، البتہ ۱۳۵۴ھ میں تقریباً ایک سال کے لیے مولانا محمد اکبر چشتی بصیر پوری کے مدرسہ میں بصیر پور میں مسندِ تدریس پر فائز رہے، چونکہ آپ کی خدا داد صلاحیتیں اعلیٰ تعمیری کام کی متقاضی تھیں، اس لیے آپ نے دیبال پور ایسے جہالت زدہ علاقے میں مدرسہ فریدیہ کے نام سے ۱۳۵۷ھ / ۱۹۳۸ء میں ایک دار العلوم کی بنیاد رکھی، جہاں علمی ذوق رکھنے والے آمدورفت کی سہولتوں کے فقدان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جوق در جوق آنا شروع ہوئے چنانچہ آپ کی قابلیت اور پُر تاثیر شہرہ کی بناء پر روز بروز طلباء کی تعداد بڑھتی گئی۔
۱۳۶۳ھ / ۱۹۴۴ء میں آپ نے اسی مقام پر بخاری شریف سے دورۂ حدیث کا آغاز فرمایا۔
چونکہ طلباء کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی تھی، اس لیے آپ نے مدرسہ کو عظیم الشان دار العلوم کی شکل میں منتقل کرنے کا مصمّم ارادہ فرماتے ہوئے ساہیوال کے ایک مشہور قصبہ بصیر پور کا انتخاب کیا۔
۱۳۶۴ھ / ۱۹۴۵ء میں دار العلوم فریدیہ، فریدیہ پور سے بصیر پور منتقل ہوگیا اور یہاں یہ دار العلوم ’’دار العلوم حنفیہ فریدیہ‘‘ کے نام سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہوا۔ دار العلوم کی تعمیر و تاسیس سے عروج و ارتقاء کے مرحلے طے کرنے میں آپ کو بڑے صبر آزما امتحان سے گزرنا پڑا، مگر آپ نے صبر و استقامت سے ہر آزمائش کا مقابلہ کیا اور دار العلوم کو نازک ترین لمحات میں ترقی کی راہ پر ہی چلاتے ہوئے نظر آئے۔ ابتدا میں چار کچے کمرے بنائے گئے اور نماز کے لیے ایک قطعہ زمین پر چھپر ڈال کر مسجد بنائی گئی۔ بعد ازاں مختلف مراحل طے کرتا ہوا دار العلوم اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ آج پاکستان کے عظیم الشّان مرکز کی حیثیت سے اپنا نام پیدا کر چکا ہے۔
پچاس سے زائد پختہ کمرے، متعدّد بر آمدے اور درس گاہیں دوسری منزل پر چند کمروں کے علاوہ وسیع و عریض ہال کی صورت میں دار الحدیث آپ کے جذبۂ عشق رسول کی عملی تصویر پیش کر رہا ہے۔
اور اب نہایت ہی خوبصورت جامع مسجد جو زیارت کے قابل ہے، ۱۳۶۸ھ / ۱۹۴۹ء سے ۱۳۷۷ھ / ۱۹۵۸ء تک جس کی تعمیر کا کام مسلسل جاری رہا، اپنی دل آویزا اور خوبصورتی میں ایک منفرد شان رکھتی ہے۔
حضرت فقیہ اعظم نے باوجود تدریسی انہماک کے سیاسی طور پر اہم خدمات انجام دیں تحریکِ پاکستان میں اہل سنّت و جماعت کے تمام مشائخ و اکابر علماء کے ہمراہ مسلم لیگ کی بھر پور حمایت کی۔
اپنے پیر و مرشد حضرت صدر الافاضل مولانا نعیم الدّین مراد آبادی علیہ الرحمہ کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی خاطر نمایاں کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ بزرگانِ دین اور علماء اہلِ سنّت کی مساعیٔ جمیلہ سے دُنیا کے نقشے پر ایک نظریاتی اسلامی ملک کا قیام عمل میں آگیا۔جہادِ کشمیر میں غازی کشمیر حضرت مولانا علامہ ابو الحسنات قادری علیہ الرحمہ کا ساتھ دیا۔
تحریکِ ختم نبوّت ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء میں خصوصیّت سے حصّہ لیا اور قید و بند کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے ساہیوال جیل میں اپنے والد ماجد حضرت مولانا ابو النّور محمد صدیق اور اپنے اکابر تلامذہ حضرت مولانا ابو الضیاء محمد باقر نوری اور حضرت مولانا ابو النصر منظور احمد ہاشمی وغیرہما کے ساتھ قید ہوئے۔ آپ کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی، مگر تین ماہ بعد رہا کر دیے گئے۔
۱۹۷۴ء میں جب سانحۂ ربوہ کے باعث تحریکِ ختم نبوّت کا آغاز ہوا، تو آپ نے تحفظ نا موسِ رسالت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تحریک میں نا قابلِ فراموش کردار کا مظاہرہ کیا۔ ۷؍ مارچ ۱۹۷۷ء میں ہونے والے انتخابات میں جمیت علماء پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے قومی اتحاد کے ٹکٹ پر آپ نے نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ اور مقامِ مصطفےٰ کے تحفظ کی خاطر انتخاب میں حصہ لیا۔ ملک کے دوسرے مقامات کی طرح یہاں بھی اس وقت کی حکومتی پارٹی (پیپلز پارٹی) نے دھاندلی سے کام لیا اور آپ کے مقابل کو کامیاب قرار دے دیاگیا۔ جب انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تاریخ کی بے مثال تحریک شروع ہوئی تو اس تحریکِ نظامِ مصطفےٰ میں آپ نے بھر پور حصّہ لیا۔ ۲۳؍ مارچ ۱۹۷۷ء کو ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے آپ نے گرفتاری پیش کی۔ آپ کو رہا کرنے کے متعدّد کوششیں ہوئیں، مگر آپ نے رہا ہونے سے انکار کردیا، چنانچہ جب تک تحریک جاری رہی آپ سنٹرل جیل ساہیوال میں رہے اور جیل کے اندر بھی اپنے مشن کو جاری رکھتے ہوئے درس قرآن کریم علاوہ بخاری شریف بھی متعدّد قیدی طلباء و علماء کو پڑھاتے رہے۔
۱۹۶۰ء میں آپ نے پہلی بار حج و زیارت کی سعادتِ عظمیٰ حاصل کی اور پھر بارگاہِ رسالت سے ایسا کوئی کرم ہوا کہ بار بار حج و زیارت کی نعمت سے سرفراز ہوتے رہے۔ آٹھ مرتبہ حج و زیارت اور دو مرتبہ عمرہ شریف اور مدینہ طیّبہ میں جانے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ اس طرح آپ دس مرتبہ حرمین شریفین (زادہما اللہ شرفا) جا چکے ہیں۔
دورۂ حدیث کے دوران آپ نے اکثر گنبد خضراء کے سائے میں احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھانے کی آرزو کا اظہار کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس آرزو کو پورا فرمایا۔ دو تین مرتبہ آپ روضۂ پاک کے سامنے درسِ قرآن دینے اور بخاری شریف کا دورہ پڑھانے کی نعمت حاصل کر چکے ہیں۔
آپ کوصدر الافاضل حضرت علامہ مولانا نعیم الدّین مراد آبادی رحمہ اللہ سے بیعت کا شرف حاصل ہوا اور مرشد نے عین آپ کی خواہش کے مطابق درس و تدریس اور خدمتِ قرآن و حدیث کا وظیفہ دیا۔
درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور سیاسی مصروفیات کے باوجود آپ نے میدانِ تحریر میں معتد بہ حصّہ لیا، چنانچہ آپ کی تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ فتاویٰ نوریہ (چار جلد مکمّل، پانچواں زیرِ تکمیل) اوّل، دوم مطبوعہ باقی زیرِ طباعت۔
۲۔ مکبّر الصوت۔
۳۔ حدیث الحبیب۔
۴۔ فئی الزوال (عربی)۔
۵۔ نعمائے بخشش (نعتیہ دیوان)۔
۶۔ نور القوانین (مجموعہ قواعد منظوم بزبان پنجابی)
۷۔ حُرمتِ زاغ۔
۸۔ مسئلہ سایہ۔
۹۔ روزہ اور ٹیکہ
۱۰۔ ابداء بشریٰ بقبول الصّلوٰۃ فی الفحوۃ الکبریٰ۔
۱۱۔ نورِ نعیمی (یہ تمام مطبوعہ ہیں)
غیر مطبوعہ میں ایک نعتیہ دیوان عربی، فارسی، پنجابی اور اُردو پر مشتمل ہے اس کے علاوہ بخاری شریف اور مسلم شریف پر حواشی لکھے۔
فقیہِ اعظم حضرت مولانا محمد نور اللہ نعیمی کی چار صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے ہیں۔ صاحبزادوں کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
۱۔ حضرت مولانا الحاج ابو الفضل محمد نصر اللہ نوری۔
۲۔ مولانا الحاج ابو العطأ محمد ظہور اللہ نوری۔
۳۔ حضرت مولانا الحاج محمد محب اللہ۔[۱]
[۱۔ محمد منشاء تابش قصوری ’’تعارف فقیہِ اعظم‘‘ فتاویٰ نوریہ جلد دوم، انجمن حزب الرحمان بصیر پور۔]
آپ کے تلامذہ کا حلقہ کافی وسیع ہے، تاہم چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
۱۔ مولانا محمد باقر نوری، مدّرس جامعہ حنفیہ فریدیہ بصیر پور۔
۲۔ مولانا صاحبزادہ محمد نصر اللہ رحمۃ اللہ۔
۳۔ مولانا عبد العزیز، مہتمم دار العلوم غوثیہ، حویلی لکھّا، ساہیوال۔
۴۔ مولانا محمد شریف نوری علیہ الرحمہ۔
۵۔ مولانا احمد علی قصوری، جمعیّت علماء پاکستان۔
۶۔ مولانا ابو النصر منظور احمد شاہ، مہتمم جامعہ فریدیہ ساہیوال۔
۷۔ مولانا شبیّر احمد ہاشمی، بورے والا۔
۸۔ مولانا علی محمد نوری، وہاڑی۔
۹۔ مولانا محمد منشا تابش قصوری، ناظم شعبۂ تصنیف و تالیف جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
(تعارف علماءِ اہلسنت)