حضرت مولانا قاری عبدالرزاق کشمیری
حضرت مولانا قاری عبدالرزاق کشمیری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا قاری عبدالرزاق کشمیری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:علامہ قاری عبدالرزاق کشمیری۔علاقۂ کشمیر کی نسبت سے’’کشمیری‘‘ کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: علامہ قاری عبدالرزاق بن مولانا عبدالغفور خان علیہماالرحمہ۔ آپ اپنے والد کے ہاں تین صاحبزادیوں کے بعد پہلی نرینہ اولاد تھے ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1351ھ مطابق 1932ء کو ’’تتر وٹ،پاڑہ‘‘ کے مضافات تحصیل راولا کوٹ،ضلع پونچھ، آزاد کشمیر میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی پھر پرائمری اسکول رٹھاڑہ میں داخل کرادیا ۔ جب آپ نے سال سوم کا امتحان پاس کیا تو والد گرامی نے فارسی کتب پڑھنے کیلئے آپ کے چچا مولانا محمد سعید خان کے پاس بھیجا جو کہ گاوٗں رٹھارہ میں ہی مقیم تھے ۔ آپ نے فارسی کا مشہور رسالہ ’’کریما ‘‘ اپنے چچا کے پاس پڑھا اور 12 سال کی عمر میں حافظ عبدالحئی کے ہمراہ حصول تعلیم کے لئے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ آپ غالبا 1944ء میں رہتک (تحصیل ضلع انڈیا) پہنچے وہاں مدرسہ اسلامیہ خیر المعا د میں داخلہ لیا۔ حضرت شیخ طریقت علامہ مولانا حامد علی خان کے حضور میں زانوئے تلمذ تہہ کئے ۔ "رہتک" کے زمانہ میں ساری کتب حضرت اکیلے ہی پڑھاتے تھے ۔ 1946ء میں مفتی عبداللطیف صاحب کو بھی مدرس مقرر کیا گیا ، آپ نے مفتی صاحب سے بھی اکستاب فیض کیا۔ ان دنوں تحریک پاکستان عروج پر پہنچ چکی تھی ملک بھرمیں قریہ قریہ ، نگر نگر، بستی بستی جلسے جلوس ہو رہے تھے۔ 1947ء میں قیام پاکستان عمل میں آیا ، فالحمد للہ !مسلمانوں کی جدوجہد کامیاب ہوئی ، دعائیں قبول ہوئیں ۔ بھارت میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو آپ اپنے استاذِ محترم حضرت مولانا حامد علی خان رام پوری کے حکم پر پاکستان تشریف لائے پھر کشمیر چلے گئے ۔
والد ماجد کے حکم پر دینی علوم کی تکمیل کے لئے پاکستان چلے آئے یہاں بکھی شریف (ضلع منڈی بہاء الدین ) میں مولانا سید جلال الدین شاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر میبذی،حسامی ، مقامات حریری وغیرہ کتب کی تکمیل کے بعد رازی دوراں شیخ الحدیث علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب کی مشہور درس گا ہ انوار العلوم (ملتان ) میں داخلہ لیا ۔ جہاں مولانا مفتی امید علی خان ، مولانا عبدالکریم ، مولانا مفتی سید مسعود علی قادری (والد جسٹس مفتی سید شجاعت علی قادری) سے ہدایہ اور مختصر المعانی وغیرہ کتب پڑھیں ۔ دورہ حدیث شریف آپ نے حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب کے پاس مکمل کیا۔ او ر سند فراغت حاصل کی۔ ساتھ میں قاری معز الدین کے پاس قراٗت و تجوید کی تعلیم اور عملی مشق کیا کرتے تھے۔ اس لئے آپ عمر بھر ’’قاری صاحب ‘‘کے نام سے مشہور تھے ۔
بیعت وخلافت: طالب علمی کے دور میں قائدِ تحریکِ نظام مصطفیٰ، ملتان کے بےتاج بادشاہ حضرت مولانا حامد علی خان رام پوری ( بانی جامعہ اسلامیہ خیر الماد ، خانقاہ حامد یہ ، قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان ) سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت تھے ۔ د س سال کا عرصہ خدمت عالیہ میں رہ کر تعلیم و تربیت ، تزکیہ نفس اور سلوک کی منا زل طے کرنے کے بعد 22 سال کی عمر میں خلافت و اجازت سے نوازے گئے ۔ بعد میں علامہ کاظمی نے سلسلہ قادریہ اور چشتیہ میں خلافت مرحمت فرمائی تھی ۔
فقیر راشدی غفرلہ کا مشاہدہ ہے آج کل جو دیدہ زیب ، پریس سے چھپی ہوئی پرکشش خلافتیں بٹ رہی ہیں ۔ اور بانٹے والے اور جھولی پھیلانے والے دونوں طرف سر گرمی ہے۔ عام سے صوفی کو ایک سو روپے میں خلافت آرام سے مل جاتی ہے جب کہ نامور شخصیت اور چرب زبان واعظ کوکئی کئی سلاسل میں خلافتیں مل رہی ہیں ۔ اس لئے ہر مولوی پیر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے (الاماشاء اللہ ) ۔ آج خلافت کی وہ وقعت نہ رہی ہے جو پہلے تھی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی جعلی خلافتوں کی نحوست سے بچائے آمین ۔ لیکن قاری صاحب کا معاملہ دوسرا ہے انہوں نے دس سال شیخ کی خدمت میں رہ کر ریاضت و مجاہد ہ کے ذریعے تزکیہ نفس کیا۔ اس کے بعد خلافت کے حقدار ٹھہرے ۔ سبحان اللہ !
فاضل مصنف زید مجدہ نےصحیح اشارہ فرمایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج وہ کمالات نہ رہے،صرف القاب ہی القاب ہیں،اندر خالی ہے۔تومن حاجی بگو۔۔۔من ترا ملا بگویم ۔۔۔کا سلسلہ عروج پرہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ لاکھوں کےدلوں میں محبتِ اسلام زندہ کرتے،اور اِن کو دیکھ کر لوگ اسلام سے بیزار ہورہے ہیں۔(فقیر تونسویؔ غفرلہ)
سیرت وخصائص: صوفیِ باصفا،عالمِ با عمل،جامع المعقول والمنقول،شیخ الحدیث،حضرت علامہ مولانا مفتی قاری عبدالرزاق کشمیری نقشبندی مجددی حامدی۔آپ ماضی قریب کےان علماء میں سےتھےجن کی صورت کردار میں اکابرین علماء اولیاء کی سیرت مبارکہ کی جھلک اس پر فتن دور میں ہمیں نظر آتی ہے۔سمجھنے اور سیکھنے والوں کےلئے اس میں بڑی حکمتیں ہیں۔حضرت قاری صاحب ایک جید عالم دین اور اپنے وقت کےاکابر علماء ومشائخ کےفیض یافتہ تھے۔آپ نےخلوص وللہیت کے ساتھ ساری زندگی دینِ متین کی خدمت فرمائی جوآج کل کےنوجوان علماء کرام کے لئے مشعل راہ ہے۔
آپ کے مزاج میں انتہائی سادگی اور بے تکلفی تھی ، جو میسر آتا پہن لیتے تکلف و تصنع کو پسند نہ فرماتے تھے ، البتہ لباس ہمیشہ صاف ستھر ا او ر پر وقار ہوتا تھا ۔ کمال عاجزی و انکساری میں خود داری اور عزت نفس کا امتزاج آپ کی ایک نمایاں خصوصیت تھی ۔ مستقل مزاج تھے جذباتی نہیں تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تعمیر ی ذہن ودیعت فرمایا تھا۔طلب دنیا کی کمزوریوں سے آپ کی ذات مبر ا تھی اس لئے آپ نے مسجد و مدرسہ تبدیل نہیں کیا جہان تھے وہیں زندگی لگادی ۔ آپ نے کبھی اشارۃ ً بھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ایک بار جامعہ مجددیہ کے اساتذہ نے تنخواہ بڑھانے کے لئے ایک درخواست مہتمم کے نام لکھی اور دستخط کے لئے آپ کے پاس بھیجی آپ نے دستخط سے انکار کرتے ہوئے فرمایا:’’ہم یہاں تنخواہ لینے کے لئے نہیں بیٹھے ہیں‘‘۔آپ کے مخلصین آپ کو حیدر آباد میں پلاٹ لینے،اپنا دارالعلوم بنانے اور مکان تعمیر کرانے کا مشورہ دیا کرتے تھے ، لیکن آپ اکثر یہ فرماکر انہیں خاموش کرادیتے کہ ’’ہمارا یہاں قیام عارضی ہے رہنے کیلئے کشمیر میں جھونپڑا ہے ‘‘ ۔ آپ کے وصال تک آپ کا کوئی بینک بیلنس تھا اور نہ جائیداد ۔ مگر اس زہد و استغنا ء کے باوجود دوسروں کے دنیوی معاملات میں غیر معمولی دلچپسی لیتے تھے اپنے رفقاء ، شاگردوں ، محبین لوگوں کے مسائل کے بارے میں متفکر رہتے اور ہر ممکن مالی مدد فرماتے تھے یہی وجہ تھی کہ بے شمار لوگ آپ کو اپنا غمخوار سمجھتے تھے۔ آپ نے عمر بھر کبھی کسی کے سامنے ذاتی ضرورت کے لئے دست سوال دراز نہیں کیا ہاں البتہ اگر کسی شاگر د یا عزیز کو حاجت پیش آتی تو اپنی ضمانت پر قرض دلایا کرتے تھے ۔
خطابت و امامت : مدرسہ انوار العلوم ملتان کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں ملک کے جید علماء و مشائخ خطباء قرا حضرات کو مد عو کیا کیا جاتا تھا ۔ ان نامور ہستیوں میں استاد القراٗ مولانا قاری محمد طفیل نقشبندی بھی شامل تھے۔ قاری صاحب کے ساتھ آپ کی شنا سائی بھارت کے طالب علمی کے زمانہ سے تھی ، قاری صاحب کے ساتھ ملتان میں ملاقات کے دوران انہوں نے حیدر آباد (سندھ ) میں خدمت دین کے لئے دعوت پیش کی، آپ نے دعوت محبت کو قبول فرمایا اور حیدر آباد تشریف لا کر بقیہ زندگی حیدر آباد کے لئے وقف کر دی ۔
1959ء کو حیدرآباد میں جامع مسجد مائی خیری (محلہ فقیر جوپڑ ) کی امامت و خطابت سونپی گئی اور ایک سو روپے مشاہرہ مقرر ہوا ۔ 1960ء میں جب ’’محکمہ اوقاف ‘‘ قائم ہوا تو آپ کی مسجد اوقاف کی تحویل میں چلی گئی اور آپ کو ضلع حیدر آباد کا ڈسٹرکٹ خطیب مقرر کیا گیا جس عہدے پر آپ وصا ل تک متمکن رہے ۔ اس سے قبل طالب علمی کے زمانہ میں رہتک ( بھارت ) میں راجپوتوں کے محلہ کی مسجد میں امامت کی جگہ خالی ہوئی تو انتظامیہ کے اصرار پر حضرت مولانا حامد علی خان نے آپ کو منصب امامت پر فائز فرمایا ۔ قیام ملتان کے دوران گڑ منڈی کی جامع مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے ۔
درس و تدریس: گڑ منڈی کی جامع مسجد میں آپ نے مدرسہ ’’ریاض العلوم ‘‘کی بنیاد رکھی اور درس و تدریس کا آغاز اس مدرسہ سے فرمایا۔ جہاں بیرونی طلباء کے قیام کا بھی بندوبست تھا۔ کچھ عرصہ ایک پرائیویٹ اسکول میں بھی اسلامیات کاسبق پڑھاتے رہے ۔ حیدر آباد میں مائی خیری مسجد میں مولانا قاری محمد طفیل صاحب کا قائم کردہ ’’مدرسہ قرآنیہ رحمانیہ ‘‘ پہلے سے جاری تھا۔ آپ نے اس میں درس نظامی شروع کر دیا او رتھوڑے عرصہ میں دور دراز کے طلباء کی کثیر تعداد نے مدرسہ میں داخلہ لیا اور آپ سے اکتساب فیض کیا۔
قاری محمد طفیل اور قاری عبدالرزاق نے مفتی محمود الوری علیہ الرحمہ سے رابطہ کیا اور انہیں قائل کیا کہ آپ کے پا س جگہ اور وسائل کی کمی نہیں ہے آپ مدرسہ کو دارالعلوم بنائیں ، درس نظامی شروع کریں تو ہم طلباء سمیت اپنی خدما ت پیش کر نے کے لئے تیار ہیں مفتی صاحب نے اس تجویز کو پسند کیا اور اس طرح دارالعلوم رکن الاسلام کی بنیاد محلہ ہیر آباد میں رکھی گئی ۔ قاری صاحب کی تجویز پر مفتی صاحب نے جامعہ مجدد یہ کے الفاظ نام میں شامل فرمائے ۔ اب مکمل نام یوں ہوا: ’’جامعہ مجدد یہ رکن الاسلام ‘‘ آپ کی شبانہ روز کاوشوں روحانی اور علمی فیوضات کے باعث اس ادارے کو چار چاند لگے ۔ 1970 ء میں جب مفتی محمو د الوری نے نقاہت اور ضعف بصارت کی وجہ سے تدریس ترک کر دی تو علامہ قاری عبدالرزاق کو دارالعلوم کا شیخ الحدیث بنا دیا گیا ، جہاں آپ 1990ء تک اس منصب علمی پر فائز رہے۔
شادی و اولاد :طالب علمی کے دور میں جب تین سال تک مرشد گرامی کی خدمت میں رہنے کے بعد والدین کی زیارت کے لئے پہلی بار آبائی گاؤں آئے تو اس موقعہ پر والدین کے حکم پر آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔ تقریبا دس سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اکلوتا بیٹا مولانا ڈاکٹر عبدالقدوس خان حامدی عطا فرمایا ۔ صاحبزادہ ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر نقشبندی ، مہتمم جامعہ مجدد یہ رکن الاسلام ، حیدر آبا د سندھ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں۔تصانیف میں یہ دورسائل ہیں۔ 1۔عالمگیر نبوت (یعنی حضور کل کائنات کے نبی ) 2۔مختصر تذکرہ امام بانی مجدد الف ثانی۔یہ دونوں رسائل جماعت اہل سنت حیدر آباد کے زیر اہتمام شائع ہو کر مفت تقسیم کیےگئے۔
تایخِ وصال: یکم ربیع الاول 1420ھ مطابق 16/جون 1999ء کو داعی اجل کو لبیک کہا او ر آج وادی کشمیر میں اپنے آبائی گوٹھ شروٹ اٹھاڑہ (تحصیل را و کوٹ ) میں آسود ہ خاک ہیں
ماخذ ومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔