حضرت شیخ مولانا قاری عبدالرزاق کشمیری

حضرت شیخ مولانا قاری عبدالرزاق کشمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

علامہ قاری عبدالرزاق بن مولانا عبدالغفور خان آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ تحصیل راو لا کوٹ کے ایک مضافاتی گاوٗ ں تتروٹ ( پاڑہ ) میں ۱۹۳۲ء کو تولد ہوئے ۔ آپ اپنے والد کے ہاں تین صاحبزادیوں کے بعد پہلی نرینہ اولاد تھے ۔

تعلیم و تربیت :

ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی پھر پرائمری اسکول رٹھاڑہ میں داخل کرادیا ۔ جب آپ نے سال سوم کا امتحان پاس کیا تو والد گرامی نے فارسی کتب پڑھنے کیلئے آپ کے چچا مولانا محمد سعید خان کے پاس بھیجا جو کہ گاوٗں رٹھارہ میں ہی مقیم تھے ۔ آپ نے فارسی کا مشہور رسالہ ’’کریما ‘‘ اپنے چچا کے پاس پڑھا اور ۱۲ سال کی عمر میں حافظ عبدالحئی کے ہمراہ حصول تعلیم کے لئے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ آپ غالبا ۱۹۴۴ء میں رہتک (تحصیل ضلع انڈیا) پہنچے وہاں مدرسہ اسلامیہ خیر المعا د میں داخلہ لیا ، حضرت شیخ طریقت علامہ مولانا حامد علی خان کے حضور میں زانو تہہ کئے ۔ رہتک کے زمانہ میں ساری کتب حضرت اکیلے ہی پڑھاتے تھے ۔ ۱۹۴۶ء میں مفتی عبداللطیف صاحب کو بھی مدرس مقرر کیا گیا ، آپ نے مفتی صاحب سے بھی اکستاب فیض کیا۔ ان دنوں تحریک پاکستان عروج پر پہنچ چکی تھی ملک بھرمیں قریہ قریہ ، نگر نگر، بستی جلسے جلوس ہو رہے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان عمل میں آیا ، فالحمد للہ !مسلمانوں کی جدوجہد کامیاب ہوئی ، دعائیں قبول ہوئیں ۔ بھارت میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو آپ نے اپنے استاد محترم حضرت مولانا حامد علی خان رامپوری کے حکم پر پاکستان تشریف لائے پھر کشمیر چلے گئے ۔ والد ماجد کے حکم پر دینی علوم کی تکمیل کے لئے پاکستان چلے آئے یہاں بکھی شریف (ضلع منڈی بہاء الدین ) میںمولانا سید جلال الدین شاہ (نابینا ) کی خدمت میں حاضر ہو کر میندی ، مسلم، حسامی ، مقامات حریری وغیرہ کتب کی تکمیل کے بعد رازی دوراں شیخ الحدیث علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب کی مشہور درس گا ہ انور العلوم (ملتان ) میں داخلہ لیا ۔ جہاں مولان مفتی امید علی خان ، مولانا عبدالکریم ، مولانا مفتی سید مسعود علی قادری (والد جسٹس مفتی سید شجاعت علی قادری و علامہ سید سعادت علی قادری ) سے ہدایہ اور مختصر المعانی وغیرہ کتب پڑھیں ۔ دور ہ حدیث شریف آپ نے حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب کے پاس مکمل کیا۔ او ر سند فراغت حاصل کی۔ ساتھ میں قاری معز الدین کے پاس قراٗت و تجوید کی تعلیم اور عملی مشق کیا کرتے تھے۔ اس لئے آپ عمر بھر ’’قاری صاحب ‘‘کے نام سے مشہور تھے ۔

بیعت :

طالب علمی کے دور میں شیخ طریقت مولانا پیر حامد علی خان رامپوری ( بانی جامعہ اسلامیہ خیر الماد ، خانقاہ حامد یہ ، قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان ) سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت تھے ۔ د س سال کا عرصہ خدمت عالیہ میں رہ کر تعلیم و تربیت ، تزکیہ نفس اور سلوک کی منا زل طے کرنے کے بعد ۲۲ سال کی عمر میں خلافت و اجازت سے نواز گئے ۔ بعد میں علامہ کاظمی نے سلسلہ قادریہ اور چشتیہ میں خلافت مرحمت فرمائی تھی ۔

فقیر راشدی غفرلہ کا مشاہدہ ہے آج کل جو دیدہ زیب ، پریس سے چھپی ہوئی پرکشش خلافتیں بٹ رہی ہیں ۔ اور بانٹے والے اور جھولی پھیلانے والے دونوں طرف سر گرمی ہے۔ عام سے صوفی کو ایک سو روپے میں خلافت آرام سے مل جاتی ہے جب کہ نامور شخصیت اور چرب زبان واعظ کوکئی کئی سلاسل میں خلافتیں مل رہی ہیں ۔جس قدر انہیں نذرانے آسانی سے مل جاتے ہیں اسی قدر خلافتیں ہاتھ باندھ کر ان کے سامنے فرمانبردار شاگر د کی طرح حاضر رہتی ہیں ۔ اس لئے ہر مولوی پیر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے (الاماشاء اللہ ) ۔ آج خلافت کی وہ وقعت نہ رہی ہے جو پہلے تھی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی جعلی خلافتوں کی نحوست سے بچائے آمین ۔ لیکن قاری صاحب کا معاملہ دوسرا ہے انہوں نے دس سال شیخ کی خدمت میں رہ کر ریاضت مجاہد ہ کے ذریعے تزکیہ نفس کیا۔ اس کے بعد خلافت کے حقدار ٹھہرے ۔ سبحان اللہ !

شادی و اولاد :

طالب علمی کے دور میں جب تین سال تک مرشد گرامی کی خدمت میں رہنے کے بعد والدین کی زیارت کے لئے پہلی بار آبائی گوٹھ آئے تو اس موقعہ پر والدین کے حکم پر آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔ تقریبا دس سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اکلوتا بیٹا مولانا ڈاکٹر عبدالقدوس خان حامدی عطا فرمایا ۔

خطابت و امامت :

مدرسہ انوار العلوم ملتان کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں ملک کے جید علماء و مشائخ خطباء قرا حضرات کو مد عو کیا کیا جاتا تھا ۔ ان نامور ہستیوں میں استاد القراٗ مولانا قاری محمد طفیل نقشبندی بھی شامل تھے۔ قاری صاحب کے ساتھ آپ کی شنا سائی بھارت کے طالب علمی کے زمانہ سے تھی ، قاری صاحب کے ساتھ ملتان میں ملاقات کے دوران انہوں نے حیدر آباد (سندھ ) میں خدمت دین کے لئے دعوت پیش کی، آپ نے دعوت محبت کو قبول فرمایا اور حیدر آباد تشریف لا کر بقیہ زندگی حیدر آباد کے لئے وقف کر دی ۔

۱۹۵۹ء کو حیدرآباد میں جامع مسجد مائی خیری (محلہ فقیر جوپڑ ) کی امامت و خطابت سونپی گئی اور ایک سو روپے مشاہرہ مقرر ہوا ۔ ۱۹۶۰ء میں جب ’’محکمہ اوقاف ‘‘ قائم ہوا تو آپ کی مسجد اوقاف کی تحویل میں چلی گئی اور آپ کو ضلع حیدر آباد کا ڈسٹرکٹ خطیب مقرر کیا گیا جس عہدے پر آپ وصا ل تک متمکن رہے ۔

اس سے قبل طالب علمی کے زمانہ میں رہتک ( بھارت ) میں راجپوتوں کے محلہ کی مسجد میں امامت کی جگہ خالی ہوئی تو انتظامیہ کے اصرار پر حضرت مولانا حامد علی خان نے آپ کو منصب امامت پر فائز فرمایا ۔ ان دنوں آپ بالغ تو ضرور تھے لیکن چہرے پر ابھی ریش نہیں آئی تھی۔

قیام ملتان کے دوران گڑ منڈی کی جامع مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے ۔ چھٹیوں میں جب اپنے گوٹھ جاتے تو وہاں بھی جمعہ میں تقریر کا سلسلہ جاری رکھتے ، اس طرح آپ سے اہل علاقہ و اہل خاندان اور برادری والے بھی مستفید ہوتے تھے ۔

درس و تدریس :

گڑ منڈی کی جامع مسجد میں آپ نے مدرسہ ’’ریاض العلوم ‘‘کی بنیاد رکھی اور درس و تدریس کا آغاز اس مدرسہ سے فرمایا۔ جہاں بیرونی طلباء کے قیام کا بھی بندوبست تھا۔ کچھ عرصہ ایک پرائیویٹ اسکول میں بھی اسلامیات کا پیر یڈ پڑھاتے رہے ۔

حیدر آباد میں مائی خیری مسجد میں مولانا قاری محمد طفیل صاحب کا قائم کردہ ’’مدرسہ قرآنیہ رحمانیہ ‘‘ پہلے سے جاری تھا۔ آپ نے اس میں درس نظامی شروع کر دیا او رتھوڑے عرصہ میں دور دراز کے طلباء کی کثیر تعداد نے مدرسہ میں داخلہ لیا اور آپ سے اکتساب فیض کیا۔

قاری محمد طفیل اور قاری عبدالرزاق نے مفتی محمود الوری سے رابطہ کیا اور انہیں قائل کیا کہ آپ کے پا س جگہ اور وسائل کی کمی نہیں ہے آپ مدرسہ کو دارالعلوم بنائیں ، درس نظامی شروع کریں تو ہم طلباء سمیت اپنی خدما ت پیش کر نے کیک لئے تیار ہیں مفتی صاحب نے اس تجویز کو پسند کیا اور اس طرح دارالعلوم رکن الاسلام کی بنیاد محلہ ہیر آباد میں رکھی گئی ۔ قاری صاحب کی تجویز پر مفتی صاحب نے جامعہ مجدد یہ کے الفاظ نام میں شامل فرمائے ۔ اب مکمل نام یوں ہوا: ’’جامعہ مجدد یہ رکن الاسلام ‘‘آپ کی شبانہ روز کاوشوں روحانی اور علمی فیوضات کے باعث اس ادارے کو چار چاند لگے ۔

۱۹۷۰ ء میں جب مفتی محمو د الوری نے نقاہت اور ضعف بصارت کی وجہ سے تدریس ترک کر دی تو علامہ قاری عبدالرزاق کو دارالعلوم کا شیخ الحدیث بنا دیا گیا ، جہاں آپ ۱۹۹۰ء تک اس منصب علمی پر فائز رہے۔ (مضمون نگار : ڈاکٹر عبدالقدوس خان ، ماہنامہ الحامد ملتان ، مارچ اپریل ۲۰۰۳ء )

تلامذہ :

آپ کے تلامذہ کی کثیر فہرست میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں :

۱۔       مولانا ڈاکٹر محمد زبیر نقشبندی ، مہتمم جامعہ مجدد یہ رکن الاسلام ، حیدر آبا د سندھ

آپ کے مزاج میں انتہائی سادگی اور بے تکلفی تھی ، جو میسر آتا پہن لیتے تکلف و تصنع کو پسند نہ فرماتے تھے ، البتہ لباس ہمیشہ صاف ستھر ا او ر پر وقار تھا ۔ کمال عاجزی و انکساری میں خود داری اور عزت نفس کا امتزاج آپ کی ایک نمایاں خصوصیت تھی ۔ مستقل مزاج تھے جذباتی نہیں تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تعمیر ی ذہن و ویعت فرمایا تھا۔ باوفا تھے دوستی کو نبھانا جانتے تھے ۔ طلب دنیا کی کمزوریوں سے آپ کی ذات مبر ا تھی اس لئے آپ نے مسجد و مدرسہ تبدیل نہیں کیا جہان تھے وہیں زندگی لگادی ۔ آپ نے کبھی اشارۃ بھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ایک بار جامعہ مجددیہ کے استاتذہ نے تنخواہ بڑھانے کے لئے ایک درخواست مہتمم کے نام لکھی اور دستخط کے لئے آپ کے پاس بھیجی آپ نے دستخط سے انکار کرتے ہوئے فرمایا:’’ہم یہاں تنخواہ لینے کے لئے نہیں بیٹھے ہیں ۔ ’’آپ کے مخلصین آپ کو حیدر آباد میں پلاٹ لینے ، اپنا دارالعلوم بنانے اور مکان تعمیر کرانے کا مشورہ دیا کرتے تھے ، لیکن آپ اکثر یہ فرماکر انہیں خاموش کرادیتے کہ ’’ہمارا یہاں قیام عارضی ہے رہنے کیلئے کشمیر میں جھونپڑا ہے ‘‘ ۔ آپ کے وصال تک آپ کا کوئی بینک بیلنس نہیں تھانہ جائیداد ۔ مگر اس زہد و استغنا ء کے باوجود دوسروں کے دنیوی معاملات میں غیر معمولی دلچپسی لیتے تھے اپنے رفقاء ، شاگردوں ، محبین دار لوگوں کے مسائل کے بارے میں متفکر رہتے اور ہر ممکن مالی مدد فرماتے تھے یہی وجہ تھی کہ بے شمار لوگ آپ کو اپنا غمخوار سمجھتے تھے۔ آپ نے عمر بھر کبھی کسی کے سامنے ذاتی ضرورت کے لئے دست سوال دراز نہیں کیا ہاں البتہ اگر کسی شاگر د یا عزیز کو حاجت پیش آتی تو اپنی ضمانت پر قرض دلایا کرتے تھے ۔

آپ کو جب کراچی میں ڈائلا ئسز کا مہنگا ترین علاج کراتے ہوئے ایک عرصہ گذر گیا تو آپ کے بعض شاگردوں نے آپ کی مالی اعانت کیلئے حیدرآباد میں مخصوص افراد سے عطیہ لینے کی مہم شروع کر دی جب آپ کو علم ہوا تو سخت ناراض ہوئے اور پیغام بھجوایا کہ یہ سلسلہ فورابند کیا جائے ۔

(صاحبزادے ڈاکٹر عبدالقدوس خان کے مضمون سے ماخوذ ۔ یہ مضمون مولانا پیر عبدالرزاق صاحب سہروردی (حیدر آباد ) سے موصول ہوا، فقیر دونوں حضرات کا مشکور ہے)

شعبہ نشر و اشاعت :

جب آپ ’’جماعت اہل سنت ‘‘ پاکستان حیدر آباد کے صدر منتخب ہوئے تو آپ نے اپنی مسجد مائی خیری میں ’’شعبہ نشر و اشاعت ‘‘ قائم فرمایا ۔ جس کو کسی اور تنظیم کانام نہیں دیا بلکہ جماعت اہل سنت پاکستان کانام دیا او ر اسی شعبہ کے تحت ہزاروں کی تعداد میں علماء اہل سنت کے ارد و رسائل ، کتابچے پمفلٹ اور کتابیں شائع ہو کر مفت تقسیم ہوئیں اور ڈاک کے ذریعے ملک کے کونے کونے میں بھیجی جاتی تھیں ۔ اس کام میں جماعت کے ناظم اعلیٰ قاری عبدالعزیز صاحب نقشبندی آپ کے دست راست تھے۔ آپ کے انتقال کے بعد بھی قاری عبدالعزیز صاحب اسی اشاعتی کام میں اسی جذبہ و لگن سے سر گرم ہیں ۔ یہ مرد مجاہد ، نقاہت ، نحیف ، ضعیف اور عوارض جسمانی کے باوجود عمل مستقل کا عادی ہے۔ اللہ تعالیٰ برکتیں عطا فرمائے ۔ آمین

تصنیف و تالیف :

آپ کی تصنیف و تالیف کا تفصیلی علم نہ ہو سکا ۔ آپ کے صاحبزادے نے اس سلسلہ میں کچھ بھی نہیں لکھا ہے۔ بہر حال مولانا عبدالرزاق سہروردی (حیدرآباد ) کے ذریعے دو مطبوعہ رسائل کا علم ہوا ہے۔

۱۔      عالمگیر نبوت (یعنی حضور کل کائنات کے نبی ) محررہ ۱۴۱۱ھ؍ ۱۹۹۱ء

۲۔     مختصر تذکرہ امام بانی مجدد الف ثانی محررہ ۱۴۱۱ھ ؍ ۱۹۹۰ء

یہ دونوں رسائل جماعت اہل سنت حیدر آباد کے زیر اہتمام شائع ہو کر مفت تقسیم ہوئے ۔

وصال :

علامہ قاری عبدالرزاق نقشبندی نے یکم ربیع الاول شریف ۱۴۲۰ھ ؍ ۱۶، جون ۱۹۹۹ ء کو داعی اجل کو لبیک کہا او ر آج وادی کشمیر میں اپنے آبائی گوٹھ شروٹ اٹھاڑہ (تحصیل را و کوٹ ) میں آسود ہ خاک ہیں :

حضرت رزاق کا فیض نظر جاری رہے

ان کے دل میں بھی سبھی عزت افزائی آپ کی

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

تجویزوآراء