حضرت مولانا قاری احمد حسین فیروز پوری
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1333 | ||
یوم وصال | 1379 | ذوالقعدہ | 03 |
حضرت مولانا قاری احمد حسین فیروز پوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا قاری احمد حسین فیروز پوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:مولانا قاری احمد حسین فیروزپوری۔لقب:خطیب اہل سنت،پیکرِ خلوص ومحبت،مجاہدِختمِ نبوت۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت علامہ مولانا قاری احمد حسین فیروز پوری بن جناب عبدالصمد علیہما الرحمہ۔آپ نسباً صدیقی تھے۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:39)۔مسجدقصاباں فیروزپور(انڈیا)میں خطیب ہوئے۔پھر1945میں گجرات پاکستان تشریف لائے،لیکن اس کےباوجود’’فیروز پوری‘‘کہاجاتاتھا۔پھرگجرات میں ہی انتقال ہوااوریہیں سپردِ خاک ہوئے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1333ھ مطابق 1915ءکوموضع’’گومتی،تحصیل جھجھر،ضلع روہتک،انڈیا‘‘ میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: بچپن ہی میں والدین کا سایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا،مڈل تک تعلیم حاصل کرنےکےبعددرس ِنظامی کی ابتدائی کتب مختلف اساتذہ سے پڑھیں،پھر تحصیل علم کی غرض سے دہلی چلے گئے اورمشہور نعت گو شاعر مولانا صابر حسین صابر سےنحو،منطق اورفقہ کی کتب میں استفادہ کیا،دہلی ہی میں مولانا قاری شبیر حسینسےتجویدوقراء ت کادرس لیا اور مشق کی۔قرآن وحدیث اور فقہ پرآپ کوعبور حاصل تھا۔آپ نے قیام گجرات کےزمانے میں مولانا محمد سعید شبلی عربی ٹیچر ز کالج فیروز پور (سابق خطیب در بار حضرت فرید المۃ والدین گنجشکر قدس سرہٗ)سے مزید علمی استفادہ کیا ۔یہ آپ کی علم دوستی کی بہترین مثال ہے۔خطیب اعظم ہونےکےباوجودتحصیلِ علم اور علمی استفادےمیں کوئی عار محسوس نہیں کی۔یہی وجہ ہے ایسے لوگوں کےبیان سےعلم وعمل کی روشنی پھوٹتی تھی،جوسامعین کےدل میں جاکر اثر کرتی تھی۔اس وقت یہی محافل ومجالس اشاعت علم کابہترین ذریعہ ہواکرتی تھیں۔
لیکن افسوس!فی زمانہ جوخطباء حضرات ہیں ان میں سےاکثریت علم وعمل سےمجردہیں۔مطمعِ نظر دنیا ہے۔خاص موضوعات ہیں انہیں کےگرد گھوم رہےہیں،اس لئےعوام میں ذوق ختم ہوگیاہے۔حضرت مولانا قاری احمد حسین کواللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی سے پر سوز آوازاورلحنِ داؤدی عطا کیا تھا، اس لئے وعظ اورتقریرکی طرف میلان ہوا اور میدان خطابت میں وہ جوہر دکھائے کہ بایدو شاید ! آپ کابیان عشق مصطفیٰﷺکاکشتہ ہوتا تھا۔جس سےلوگوں کی دلوں میں دین اسلام کی حقانیت اور سرورِ عالمﷺ کی محبت جانگزیں ہواکرتی تھی۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں حضرت خواجہ عبد الخالق جہان خیلاں کوٹ عبدالخالق(ضلع ہوشیارپور)سےنسبت ارادت کی وجہ سےاپنےنام کےساتھ’’خالقی‘‘ بھی لکھاکرتےتھے۔
سیرت وخصائص: خطیب اہل سنت،عالمِ باعمل،پیکر ِخلوص وایثار،مجسمہ حلم و رحمت،مجاہد ختم نبوت،حامی اہل سنت حضرت مولانا قاری احمد حسین فیر وز پوری ثم گجراتی۔آپرسول اللہﷺکےسچےعاشق اور دین مصطفیٰﷺکےعظیم داعی تھے۔آپ کی ساری زندگی اشاعتِ اسلام میں گزری۔اس کےلئےآپ نےدوردراز علاقوں کاسفر کیا۔ہرقسم کےمفادات سےبالاتر ہوکردین کی خدمت فرماتےتھے۔اللہ تعالیٰ نے قاری صاحبکوغضب کی آوازاور بلاکاسوزعطاکیاتھا۔جب آپ مولانا روم،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی اور علامہ اقبال علیہم الرحمہ کا کلام پڑھتے تو مجلس پر ایک کیف طاری ہو جاتا اور جب اس کی تشریح بیان کرتے تو اچھے اچھے اہل علم دنگ رہ جاتے،خاص طور پر اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی کا کلام جس حسن و خوبی سے پڑھتے تھے اس کی نظیر کہیں دیکھنے سننے میں نہیں آئی۔حقیقت یہ ہے کہ امام احمد رضا بریلوی کے روح پر ور نعتیہ کلام کو پنجاب اور سند ھ میں سب سے پہلے آپ ہی نے متعارف کرایا تھا ۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:41)
بارگاہِ مصطفیٰﷺمیں مقبولیت: سرور کائنات ﷺ کی محبت اور یاد میں شب و روز محور ہتے،آپ کی تقریروں میں یہ عنصر ہمیشہ نمایاں رہتا اور سننے والے کیف و سرور اور لذت ومحبت میں گم ہو جاتے۔آپ کو بار ہا خواب میں اور بعض اوقات عالم بیداری میں جمال جہاں آراکے دیدار کا شرف حاصل ہوا۔ نو عمری کا زمانہ تھا،کیا دیکھتے ہیں کہ خواب میں سرور دو عالم ﷺکےدربارمیں حاضر ہیں اور ایسی پیاری نعت عرض کر رہے ہیں جو پہلےانہیں یاد نہ تھی،بیدار ہونے پر تجس پیدا ہواکہ یہ نعت کس کی لکھی ہوئی ہے۔ایک دن اتفاقاً حدائق بخش (امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا نعتیہ دیوان ) دیکھ رہے تھے کہ اس میں وہی نعت مل گئی جو آپ نے خواب میں دربار رسالتﷺ میں پیش کی تھی۔ اب تو قاری صاحب کو حضرت فاضل بریلوی سےبے انتہامحبت ہوگئی۔اسی عقیدت کی بنا ءپر ایک دفعہ بریلی شریف حاضر ہوئے،فاضل بریلوی کے مزار پر انوار پر حاضری دی اور چند دن وہاں قیام کیا ۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:42)
تحریکِ پاکستان وتحریکِ ختمِ نبوت میں خدمات: حضرت قاری احمد حسین فیروزپوریایک مردِ مجاہد تھے۔ملت اسلامیہ کی فلاح وبہبوداور ان کی ترقی کےلئےساری عمر کوشاں رہے۔آپنےہراس تحریک کوکامیاب اور اس کی حمایت کی جومسلمانان عالم کےفائدےمیں تھی۔تحریکِ پاکستان کی بھرپور حمایت کی،اور اہل اسلام کو اپنےمسحورکن بیانات سےتائید ِ پاکستان اور مسلم لیگ کی حمایت پرآمادہ کیا۔علماء اہل سنت کی کوششوں سےتحریکِ پاکستان کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔اسی طرح جہاد کشمیر میں بڑی سر گرمی سے حصہ لیا اور تحریک ختم نبوت میں بھی پر جوش حصہ لیا۔آپ کی تقریر کا خاص و صف یہ تھا کہ اُکھڑا ہوا مجمع پھرسےجم جاتاتھا۔لطف یہ تھا کہ قار ی صاحب کے ہوتے ہوئے تلاوت،نعت،تقریر اور سلام ودعاکے لئےکسی اورشخص کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔گویا وہ خود ایک انجمن اور جامع اجلاس تھے،خلوص کا یہ عالم تھا کہ جہاں تشریف لےجاتےوہاں اجلاس کی تمام نشستوں میں قیام فر ماتے مباد اکسی نشست کا مقر ر نہ آئے اور منتظمین جلسہ کو پریشانی ہو۔آپ وعدےکوہرصورت نبھاتےسردی ہویاگرمی،طوفان بادوباراںہو،یاشدیدبخار،کوئی چیزآپکوایفائے وعدہ سے روک نہ سکتی تھی۔تقریرکےبعدفوراً اپنا سفر شروع کر دیتےاورجلسہ کےمنتظمین سےاجازت لینابھی گوارہ نہیں کرتےتھے۔مسلسل تین ماہ ہررات کراچی میں آپ کی تقریر یں ہواکرتی تھیں۔سامعین کی تعدادعموماًچالیس پچاس ہزارسےزائدہواکرتی تھی۔حیدرآباد،ٹھٹہ اورنواب شاہ وغیرہ مقامات کے لوگ محض آپ کی تقریر سننے کے لئے کراچی کا رخت سفر باندھا کرتے تھے ۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:41)
قاری صاحب نہایت رقیق القلب اور رحم دل واقع ہوئے تھے،انسان تو انسان حیوان بھی آپ کی شفقت سےبہرہ ورہوتےتھے۔با قاعد گی سے تہجد ادا کرنا آپ کامعمول تھا۔وعظ وتبلیغ کے علاوہ تدریس اور خاص طور پر قرأت پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا اور بے شمار لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے۔مولانا قاری محمد علی (لاہور)اور مولا نا قاری محمد دین راجوروی ( گجرات ) آپ کےمنظور نظر تلا مذہ میں سےہیں۔ابتداءمیں آپ مسجدقصاباں فیروز پور میں خطیب مقررہوئے۔آپ کے پراثرو عظ کا شہرہ دور دور تک پہنچا،بمبئی،امر تسراورجالندھر وغیرہ مقامات پر آپ کی بکثرت تقریریں ہوا کرتی تھیں۔فیروز پور میں آپ کی شہرت و مقبولیت اس حد کو پہنچی کہ گجرات ( پاکستان ) تشریف لانے کے بعد بھی آپ کوفیرو زپوری کہا جاتا تھا۔
غالباً 1945ء میں جب آپ حرمین شریفین کی زیارت کو گئے تو دوران سفر جہاز میں آپ کی تقاریر کا سلسلہ جاری رہا،اسی جہاز میں میاں فضل دین پگانوالے مرحوم بھی شریکِ سفر تھے۔وہ قاری صاحب کےوعظ سےبےحدمتاثرہوئےاورگجرات تشریف لانےکی دعوت دی چنانچہ قاری صاحب نے مسجد میاں جلال دین مرحوم میں درس دیا اور رات کو اونچی مسجد منڈی میں تقریرکی۔آپ کے بیان کا اہل گجرات پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ لوگ دل و جان سے آپ کے فریفتہ ہوگئےاور اصرارکیا کہ آپ ہمارے پاس ہی تشریف لے آئیں اور ہمارے دلوں کو آقائےدوجہاںﷺکی محبت کےنورسےمنورفر مائیں۔ان حضرات کی طلبِ صادق رنگ لائی اور قاری صاحب گجرات تشریف لےآئے اور مرکزی جامع مسجد عید گاہ میں خطبہ دینا شروع کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں نماز ِعید تمام لوگ بلا امتیازقاری صاحب کی اقتدا ء میں ادا کیا کرتےتھے۔مفسرشہیرحکیم الامت حضرت مفتی احمد یارخان نعیمیسےخصوصی مراسم وتعلقات ہوگئے،گجرات میں مفتی صاحب تحریر میں اورقاری صاحب تقریرمیں بےمثال تھے۔اس وقت یقیناً گجرات منبع برکات تھا۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال بروزہفتہ،ساڑھے بارہ بجےدن،3/ذی قعدہ1379ھ مطابق 30/اپریل 1960ءکوہوا۔آخری کلمہ’’ادرکنی یا رسول اللہ ‘‘زبان پر جاری ہوا، اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ آپ کا جنازہ جارہا تھا اور ساتھ ساتھ لاؤڈ اسپیکر پر قاری صاحب کی تلاوت کی ریکارڈنگ لگائی گئی تھی، جسےسن کرحاضرین کی چیخیں نکل گئیں۔ایک لاکھ سے زیادہ افرادنے باچشمِ پُرنم جنازہ میں شرکت کی۔جنازہ گاہ خواجگان،علی پور روڈ گجرات پاکستان میں آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔ایک صاحبزادی اور ایک صاحبزادہ محمد حسین یادگارچھوڑا۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔