خطیب اہل سنت حضرت علامہ مولانا قاری احمد حسین فیروز پوری
خطیب اہل سنت حضرت علامہ مولانا قاری احمد حسین فیروز پوری علیہ الرحمۃ
خطیب اہل سنت،عالم با عمل،پیکر خلوص وایثار،مجسمہ حلم و رحمت حضرت مولانا قادری احمد حسین فیر وز پوری ثم گجراتی ابن جناب عبدالصمد موضع گومتی تحصیل جھجر ضلع رہتک میں ۱۳۳۳/۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے،بچپن ہی میں والدین کا سایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا،مڈل تک تعلیم حاصل کر ے کے بعد درس نظامی کی ابتدائی کتب مختلف اساتذہ سے پڑھیں،پھر تحصیل علم کی غرض سے دہلی چلے گئے اور مشہور نعت گو شاعر مولانا صابر حسین صابر سے نحو،منطق ادرفقہ کی کتب میں استفادہ کہ ، دہلی ہی میں مولانا قاری شبیر حسین سے تجوید و قراء ت کا درس لیا اور مشق کی۔اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی سے قاری صاحب کو پر سوز آواز ورلحن دا ودی عطا کیا تھا اس لئے وعظ و رقریری کی طرف میلان ہوا اور میدان خطابت میں وہ جوہر دکھائے کہ بایدو شاید ! آپ نسباً صدیقی اور مشرباً نقشبندی تھے اور حضرت خواجہ عبد الخالق جہانخیلال کوٹ عبد الخالق ( ضلع،ہشیارپور) سے نسبت ارادت کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ ’’ خانقی ‘‘ لکھا کرتے تھے ۔
ابتداء میں آپ مسجد قصاباں فیروز پور میں خطیب مقرر ہوئے۔آپ کے پراظرو عظ کا شہرہ دور دور تک پہنچا ، بمبئی ، امر رسرا اور جالندھر وغیرہ مقامات پر آپ کی بکثرت تقریریں ہوا کرتی تھیں فیروز پور میں آپ کی شہرت و مقبولیت اس حد کو پہنچی کہ گجرات ( پاکستان ) تشریف لانے کے بعد بھی آپ کے فیرو زپوری کہا جاتا تھا۔اسی دوران آپ نے مولانا محمد سعید شبلی عربی ٹیچر ز کالج فیروز پور (سابق خطیب در بار حضرت فرید المۃ والدین گنجشکر قدس سرہٗ)سے مزید علمی استفادہ کیا ۔
غالباً ۱۹۴۵ء میں جب آپ حرمین شریفین کی زیارت کو گئے تو دوران سفر جہاز میں آپ کی تقاریر کا سلسلہ جاری رہا،اسی جہاز میاں فضل دین پگانولے مرحوم بھی شریک سفر تھے،وہ قاری صاحب کے وعظ سے بے حد متاثر ہوئے اور گجرات تشریف لانے کی دعوت دی چنانچہ قاری صاحب نے مسجد میاں جلال دین مرحوم میں درس دیا اور رات کو انچی مسجد منڈی میںتقریر کی۔آپ کے بیان کا اہل گجرات پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ لوگ دل و جان سے آپ پر فریقہ ہوگئے اور اصرار کیا کہ آپ ہمارے پاس ہی تشریف لے آئیں اور ہمارے دلوں کو آقائے مدنی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کے نور سے منور فر مائیں،ان حضرات کی طلب صادق رنگ لائی اور قاری صاحب گجرات تشریف لے آئے اور مرکزی جامع مسجد عید گاہ میں خطبہ دینا شروع کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں نماز عید تمام لوگ بلا امتیاز،قاری صاحب کی اقتدا ء میں ادا کیا کرتے تھے ۔
ویسے تو پورے پاکستان کے نامور علماء سے قاری صاحب کے گہرے مراسم تھے لیکن خاص طور پر یہ حضرات قابل ذکر ہیں :۔
۱۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیم
۲۔ پیر طریقت حضرت پیر ولایت شاہ
۳۔ حضرت پیر حبیب اللہ شاہ
۴۔ مولانا فیروز دین
۵۔ الحاج لالہ برکت علی
۶۔ لالہ فضل دین
۷۔ الحاج مرزا اللہ دتابٹ
۸۔ الحاج سلطان علی
۹۔ مولانا مبارک محی الدین
۱۰۔ مولانا حافظ سید علی
۱۱۔ مولانا حکیم مختار احمد اشرفی
۱۲۔ مولانا محمد عارف
۱۳۔ مولانا سید محمود شاہ
فی الحقیقت اس وقت گجرات شہر منبع برکات بنارہا۔
حضرت قاری صاحب نے تحریک پاکستان اور جہاد کشمیر میں بڑی سر گرمی سے حصہ لیا اور اہل اسلام کو اپنے مسحور کن بیانات سے تائید پاکستان اور مسلم لیگ کی حمایت پر آمادہ کیا،تحریک ختم نبوت میں بھی پر جوش حصہ لیا۔آپ کی تقریر کا خاص و صف یہ تھا کہ اکھڑا ہوا مجمع پھر سے جم جاتا تھا ، لطف یہ تھا کہ قار ی صاحب کے ہوتے ہوئے تلاوت،نعت،تقریر اور سلام و دعا کے لئے کسی اور شخص کی ضرورت نہیں رہتی تھی،گویا وہ خود ایک انجمن اور جامع اجلاس تھے،خلوص کا یہ عالم تھا کہ جہاں تشریف لے جاتے وہاں اجلاس کی تمام نشتوں میں قیام فر ماتے مباد اکسی نشست کا مقر ر نہ آئے اور منتظمین جلسہ کو پریشانی ہو،آپ وعدے کو ہر صورت نبھاتے سردی ہو یا گرمی ، طوفان با دو باراں ہو یا شدید نجار،کوئی چیز آپ کو ایفائے وعدہ سے روک نہ سکتی تھی، تقریر کے بعد فوراً اپنا سفر شروع کر دیتے اور جلسہ کے منتظمین سے اجازت مسلسل تین ماہ ہر رات کراچی میں آپ کی تقریر یں ہوا کرتی تھیں،سامعین کی تعداد عموماً چالیس پچاس ہزار سے زائد ہوا کرتی تھی،حیدر آ باد،ٹھٹہ اور نواب شاہ وغیرہ مقامت کے لوگ محض آپ کی تقریر سننے کے لئے کراچی کا رخت سفر باندھا کرتے تھے ۔
اللہ تعالیٰ نے قاری صاحب کو غضب کی آواز اور بلا کا سوز عطا کیاتھا۔جب آپ مولانا روم،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی اور علامہ اقبال کا کلام پڑتھے تو مجلس پر ایک کیف طاری ہو جاتا اور جب اس کی تشریح بیان کرتے تو اچھے اچھے اہل علم دنگ رہ جاتے ، خاص طور پر اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ کا کلام جس حسن و خوبی سے پڑھتے تھے اس کی نظیر کہیں دیکھنے سننے میں نہیں آئی۔حقیقت یہ ہے کہ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کے روح پر سر نعتیہ کلام کو پنجاب اور سند ھ میں سب سے پہلے آپ ہی نے متعارف کرایا تھا ۔
سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت اور یاد میں شب و روز محور ہتے ، آپ کی تقریروں میں یہ عنصر ہمیشہ نمایاں رہتا اور سننے والے کیف و سرور اور لذت محبت میں گم ہو جاتے۔آپ کو بار ہا خواب میں اور بعض اوقات عالم بیداری میں جمال جہاں آراکے دیدار کا شرف حاصل ہوا۔ نو عمری کا زمانہ تھ ، کیا دیکھتے ہیں کہ خواب میں سرور دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے در بار میں حاضر ہیں اور ایسی پیاری نعت عرض کر رہے ہیں جو پہلے انہیں یاد نہ تھی ، بیدار ہونے پر تجس پیدا ہوا کہ یہ نعت کس کی لکھی ہوئی ہے ، ایک دن اتفاقاً حدائق بخش (امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا نعتیہ دیوان ) دیکھ رہے تھے کہ اس میں وہی نعت مل گئی جو آپ نے خواب میں دربار رسالت میں پیش کی تھی ، اب تو قاری صاحب کو فاضل بریلوی قدس سرہٗ سے بے انہا محبت ہوگئی ، اسی عقیدت کی بنا پر ایک دفعہ بریلی شریف حاضر ہوئے ، فاضل بریلوی قدس سرہ کے مزار پر انوار پر حاضری دی اور چند دن وہاں قیام کیا ۔
قاری صاحب نہایت رقیق القلب اور رحم دل واقع ہوئے تے ، انسان تو انسان حیوان بھی آپ کی شفقت سے بہرہ ور ہوتے تھے ۔ با قاعد گی سے تہجد ادا کرنا ااپ کا معمول تھا ، وعظ و تبلیغ کے علاوہ تدریس اور خاص طور پر قرائت پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا اور بے شمار لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے ۔ مولانا قاری محمد علی (لاہور)اور مولا نا قاری محمد دین راجوروی ( گجرات ) آپ کے نظور نظر تلا مذہ ہیں (انہیں حضرات سے حضرت قاری صاحب کے یہ حالات دستیاب ہوئے ہیں)
۳ ذی قعدہ ، ۳۰ /اپریل ( ۱۳۷۹/۱۹۶۰ئ) بروز ہفتہ ساڑھے بارہ بجے دن قاری صاحب کا وصال ہوا ، آخری کلمہ ادرکنی یا رسول اللہ زبان پر جاری ہوا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ آپ کا جنازہ جارہا تھا اور ساتھ ساتھ لائوڈ سپیکر پر قاری صاحب کی تلاوت کا ریکارڈ لگایا گیا تھا جسے سن کر حاضرین کی چینخیں نکل رہی تھیں ۔ ایک لاکھ سے زیادہ افرادنے باچشم پر نم جنازہ میں شرکت کی،جنازہ گاہ خواجگان ، علی پور روڈ میں آپ کی آخری آرام گاہ بنی[1]
آپ نے ایک صاجزادی خورشیدہ بیگم اور ایک صاجزادہ محمد حسین یاد گار چھوڑے ۔ مولانا الحاج حکیم محمد مظفر علی خاں مظفر چشتی نظامی ساکن چک عمر نے درج ذیل تاریخ وفات کہی ؎
آں حبیب محترم احمد حسین
شد روانہ جانب خلد بریں
زینت گجرات ، فخر عید گاہ
نام او مشہور تا دیوار چیں
بر زبانش ذکر خالق دائمی
حق پرست و نعت گوئے شاہ دیں
خوبصورت ، نیک سیرت بے ریا
عابد و نراہد امام الصالحین
گفت تاریخش غلام قادرا
مہر تاباں رفت از چشم بہ ہیں
گفت ہائے بلبل باغ رسول
بار دیگر با مظفر دل حزیں
ایضًا منہ
زد نیاز رفت قاری پاک باطن
خدا رحمت کند بر جان وماش
مظفر گفت در تاریخ ھجری
بفر دوس بریں شاداست سالش
[1] محمد عبد الحکیم شرف قادری ، مولانا قاری احمد حسین فر دوز پوری ،
ماہنا مہ ضیائے حرم ، دسمبر ۱۹۷۲ء ، ص ۵۳ تا ۵۵
(تذکرہ اکبریہ اہلسنت)