حضرت مولانا سماء الدین دہلوی
حضرت مولانا سماء الدین دہلوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا سماء الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
آپ ظاہری اور معنوی علوم کےماہر تھے، متقی اور پرہیز گار تھے، دینا کی قطعاً خواہش نہ رکھتے تھے، صرف ضروریات کی حد تک دنیا کی چیزورں کو استعمال کرتے تھے، آپ مخدوم جہانیاں سید جلال الدین بخاری کے پوتے شیخ کبیرکے مرید تھے، کہتے ہیں کہ میر سید شریف جر جانی کے تلمیذ مولانا سناء الدین نے آپ سے علوم کی تحصیل کی تھی ملتان کی خانہ جنگیوں اور خلفشاریوں کی وجہ سے ملتان سے سکونت ترک کر کے کچھ عرصہ رنتھور اور بیانہ وغیرہ میں رہے اور اس کے بعد اور اس کے بعد دہلی میں سکونت پذیر ہوگئے چونکہ عمر بہت زیادہ ہوچکی تھی اس لیے آخری عمر میں آنکھوں کی بینائی ختم ہوگئی تھی لیکن اللہ نے اپنے فضل و کرم سے بغیر کسی علاج کے دوبارہ بینائی عطا کردی تھی۔
آپ اپنے گھر کے دروازے کے باہر کھڑے ہوکر فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی تمام مخلوق پر سب سے زیادہ مہربانی یہ ہے کہ مخلوق کی سماءالدین کی آنکھوں میں راہ دیدی ہے، آپ نے شیخ فخرالدین کی مشہور کتاب لمعات کا حاشیہ لکھا ہے۔ جو اس کے معانی کی تشریح و توضیح کے لیے بہت کافی ہے آپ کا ایک اور رسالہ بنام مفتاح الاسرار بھی ہے جس کی اکثر عبارتیں پوری کی پوری شیخ عزیز نسفی کے رسالوں سے نقل کی گئی ہیں، آپ نے 17؍ جمادی الاول 901ھ میں وفات پائی، آپ کا مقبرہ دہلی میں شمسی حوض پر ہے جہاں آپ کی اولاد کی قبریں لائنوں اور صفوں میں موجود ہیں۔
آپ نے شیخ عزیز نسفی کے مکتوبات میں سے ایک مکتوب کو مفتاح الاسرار میں اس طرح نقل کیا ہے کہ انسان کے انتہائی معنی میں، اہل شرعت اہل حکمت اور اہل وحدت کا اختلاف ہے، اہل شریعت کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم بنانے سے کئی ہزار برس پہلے روح کو پیدا کیا اور ہر ایک کے لیے ایک مقام مقرر کردیا جہاں وہ روح لوٹ کر واپس آئے گی اور رہے گی جیسا کہ ارشاد ہے یعنی روح جب اپنے مقام ایمان سے جدا ہوتی ہے تو پھر لوٹ کر آسمان اول پر آتی ہے اور روح جبکہ مقام عبادت سے جدائی اختیار کرتی ہے تو وہ دوسرے آسمان کی طرف لَوٹتی ہے، اور روح اگر مقام زہد و تقوی سے جدا ہوتی ہے تو تیسرے آسمان پر آجاتی ہے اور جو روح مقام معرفت سے جدا ہوتی ہے تو وہ چوتھے آسمان پر رونق افروز ہو جاتی ہے، اور جو روح ولایت کے مقام سے الگ ہوتی ہے تو وہ پانچویں آسمان کی طرف چلی جاتی، اور جو روح مقام نبوت سے ہٹ جاتی ہے تو وہ چھٹے آسمان پر جلوہ فگن ہوتی ہے اور جو روح مقام رسالت سے الگ ہوتی ہے وہ ساتویں آسمان کی طرف گھوم جاتی ہے اور جو روح مقام اولوالعزمی سے جدا ہوتی ہے تو وہ مقام کرسی کی جانب چلی جاتی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کہ جس نے مقام ختم نبوت سے جدائی اختیار کی ہے وہ عرش کی طرف پر واز کر گئی ہے اور روح جس مقام سے اتری ہے وہیں چڑھ جاتی ہے اور اپنا دائرہ پورا کر لیتی ہے اور یہ کیفیت نو بار واقع ہوتی ہے، لیکن جو شخص ایمان کے مقام تک رسائی نہیں کر پاتا اس کی روح کی پرواز کسی صورت میں بھی آسمان کی طرف نہیں ہوتی کیونکہ یہ مقامات و درجات نہ کسبی ہیں نہ خلقی اور اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق میں کوئی تبدل و تغیر نہیں کرتا، صحیح اور حق راستہ یہ ہے کہ اگر ان مراتب میں سے کوئی مرتبہ اور درجہ بھی کسبی ہوتا تو ممکن تھا کہ کوئی نہ کوئی آج تک اپنے کسب سے اپنے سے اونچے مرتبے تک پہنچ جاتا اور اسی طرح کوئی نہ کوئی مسلمان اپنے کسب و عمل کے ذریعہ مقام نبوت تک بھی رسائی حاصل کرلیتا، حالانکہ کوئی مسلمان آج تک مَقامِ نبوت و رسالت تک نہیں پہنچ سکا۔
اس گروہ کے نزدیک سلوک سے مراد یہ ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے مقام بازگشت کا معائنہ کرلیا جائے اور علم یقینی کے بجائے علم مشاہدی حاصل کرے۔ اور نبیاء کی معراج دو قسم کی ہے، ایک معراج روحانی بلا جسد اور دوسری معراج جسمانی مع الروح اور اولیا ئے کرام کو صرف ایک ہی قسم کی معراج ہوتی ہے اور وہ معراج روحانی ہے۔
اہل حکمت کہتے ہیں کہ اجسام سے پہلے چونکہ ارواح موجود نہ تھیں اس لیے ان کو اپنا مقام بھی معلوم نہیں اسی لیے دنیا میں آکر وہ اپنا مقام پیدا کرتی ہیں اجسام سے پہلے بالفعل روح کا موجود ہونا محال اور نا ممکنات میں سے ہے کیونکہ روح اگر بالفعل موجود مانی جائے تو اس کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں، ایک تو یہ کہ ان میں باہمی طور پر فرق ہوگا، دوئم ان میں باہمی فرق مراتب نہیں ہوگا، اگر ان میں کوئی فرق نہیں تو تمام مل کر ایک ہی ہوگی اور یہ نا ممکن ہے اور اگر ان میں باہمی افتراق تسلیم کر لیا جائے تو وہ چیزیں جن میں مغائرت ہوتی وہ ایک دوسری کی عین نہیں ہوا کرتیں اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ روح مرکب ہے حالانکہ تمام کے نزدیک یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ روح مرکب نہیں پس ثابت ہوا کہ ہر ایک کی روح اس کے جسم کے ساتھ موجود ہے اور جسم سے الگ ہوجانے کے بعد روح باقی رہتی ہے اگر جسم کمال حاصل کرچکا ہے تو روح کی پرواز عالم علوی کی جانب ہوگی بمع عقل و نفس کے اور عقل و نفس ہمیشہ پاک ہوتے ہیں اور کسب و علم نور کے اقتباس میں مصروف رہتے ہیں اور طہارت حاصل کرتے رہتے ہیں سو جس شخص کو عقل و نفس پاکیزہ میسر ہوجائے تو وہ اگر اپنے جسم سے جدائی اختیار کرے تو اس کی عقل اور پاکیزہ نفس اس کو عالم علوی کی طرف کھینچ لے، حالانکہ ایسا بھی کوئی واقاعہ آج تک ظہور میں نہیں آیا۔
شفاعت کے معنی یہ ہیں کہ جس آدمی کے اندر جیسی نسبت ہوگی تو اس کی پر واز بھی اسی نسبت کے مقام کی طرف ہوگی یعنی کسی نے اگر اپنے اندر قمر کی نسبت پیدا کرلی تو وہ اس سے فیضیاب ہوسکتا ہے اور جب اس مہارت نامہ کے ہوتے ہوئے اس کی روح اس سے جدا ہوتی ہے تو اس کا نفس اس کو قمر تک پہنچا دیتا ہے اور اگر کسی نے اس حال میں مفارقت نہ کی اور حالانکہ اس نے علم و طہارت میں کمال حاصل کرلیا تھا یعنی اس کو فلک الافلاک سے نسبت ہوگئی تھی تو وہ فلک الا فلاک سے فیوض حاصل کرتا ہے جب اس حالت میں مفارقت کرتا ہے تو اس کا نفس فلک الا فلاک کی طرف لوٹ آتا ہے جب آپ نے اول و آخر کو سمجھ لیا تو باقی کو اسی پر قیاس کرلیں۔
کہتے ہیں کہ جو کوئی ریاضت اور مجاہدات اقتباس انوار وعلوم کے ذریعہ اپنے نفس کو فلک الا فلاک تک پہنچادیتا ہے تو اس کی روح کی پرواز فلک الا فلاک کی طرف ہوگی اور جوشخص ریاضت و مجاہد، اقتباس انوار و علوم نہ کرے تو وہ فلک قمر کے نیچے جہاں دوزخ ہے پڑا رہے گا اور علم علوی جہاں جنت ہے اس کی طرف ہرگز ہرگز رسائی حاصل نہیں کر سکے گا اور جوکوئی مقام انسانیت تک علم و پاکیزگی کو پہنچائے اور اس عالم صغیر سے عالم کبیر میں چلا جائے تو وہ شخص اللہ کا خلیفہ کہلوانے کا مستحق ہے وہی اکبر اعظم اور جام جہاں نما ہے، اس عالم میں پہنچ کر یہ پاکیزہ عبادت گزار کبھی عقل و ادراک کے ذریعہ اور کبھی شعور اور لاشعور کے ذریعہ اللہ سے باتیں کرتا اور اللہ کی باتیں سنتا ہے، اس مَقام تک پہنچنے والے کی روح جب جدا ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ اللہ کی رحمت کے زیر سایہ مسرور و شاداں رہتا ہے اور اللہ کا مقرب کہلاتا ہے اسی کو بہشت کہتے ہیں اور یہ بہشت ایسے ہی کامل بزرگوں کے لیے ہے۔
اہل وحدت کہتے ہیں کہ ترقی و عروج میں آدمی کی کوئی حد مقرر نہیں اگر کوئی مستعد آدمی پوری محنت سے ایک ہزار سال تک بھی ریاضت و مجاہد کرتا رہے تو ہر آنے والے دن میں وہ ایک نئی اور عجیب کیفیت محسوس کرے گا جو گذشتہ دن اس کو معلوم نہ تھی اس لیے کہ اللہ کے علم و قدرت کی کوئی انتہا نہیں، اہل وحدت کے نزدیک انسان سے بڑھ کر اور کوئی چیز اشرف و باعظمت نہیں، اسی لیے انسان کی بازگشت میدان حشر میں آدمی ہی کے وجود میں ہوگی۔
اخبار الاخیار