2016-03-09
علمائے اسلام
متفرق
1496
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 1237 | جمادى الآخر | 02 |
یوم وصال | 1287 | ذوالحجہ | 16 |
حضرت مولانا شاہ عبدالرشید مجددی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت مولانا عبدالرشید مجددی۔لقب:جامع شریعت وطریقت۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: حضرت مولانا شاہ عبدالرشید مجددی بن حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی بن مولانا شاہ ابو سعید مجددی رام پوری بن شاہ صفی القدر بن شاہ عزیز القدر بن شاہ عیسیٰ بن خواجہ سیف الدین بن خواجہ محمد معصوم سرہندی بن امام ربانی حضرت مجدد الفِ ثانی (علیہم الرحمۃ والرضوان)۔(تذکرہ کاملان رام پور:219/تذکرہ علمائے اہل سنت:137)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 2/جمادی الاخریٰ1237ھ مطابق ماہ فروری/1822ءکولکھنؤ میں ہوئی۔(ایضاً)
تحصیل ِعلم: آپ ایک علمی ومذہبی گھرانے میں پیداہوئے۔صغر سنی میں آثار سعادت چہرے سےہویدا تھے۔انتہائی ذہین وفطین تھے۔یہی وجہ ہے کہ دس برس کی عمر پوری نہ ہونے پائی تھی کہ حافظ قرآن ہوگئے۔صرف ونحو مولانا حبیب اللہ ملتانی سے،علوم عقلیہ مولانا فیض احمد دہلوی سے،کتب فقہ، تصوف، اور اصول حدیث والد ماجد سے،کتب حدیث مولانا شاہ مخصوص اللہ بن مولانا شاہ رفیع الدین اور مولانا شاہ محمد اسحٰق سے پڑھیں۔آپ علیہ الرحمہ علوم ظاہریہ وباطنیہ میں وحید العصر تھے۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:137)
بیعت وخلافت: سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں آپ کےجدامجد امام العرفاء والفضلاء حضرت شاہ ابوسعید مجددی نے27/رمضان المبارک بعد نماز تراویح آپ کواور اپنے فرزند اوسط شاہ عبدالغنی کوایک ساتھ بیعت فرمایا۔پھرجب 1256ھ کوحج کےلئےجانےلگے،تووالد گرامی حضرت شاہ احمد سعید مجددینےبڑی مشکل سےاجازت دی،اور پھر الوداع کےلئےبذاتِ خودشہرکےدروازہ تک رخصت کرنےآئے،اورمجمع عام میں حضرت شاہ غلام دھلوی کا عطیہ ٹوپی،قمیص،اورعمامہ پہناکرخلافت عطا کی۔مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ سراج مکیسے سند حدیث حاصل کی۔(ایضا:138)
سیرت وخصائص: فاضل علوم عقلیہ ونقلیہ،ماہر علوم وحقائقِ باطنیہ،عارف اسرار ربانیہ ،وارث ِ کامل علوم ومعارف مجددیہ حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالرشید مجددی ۔جدامجد حضرت شاہ ابو سعیدآپ سےبہت محبت فرماتےتھے،اورآپ کواپنےساتھ سلاتےتھے۔جس وقت وہ تہجد کی نماز کےلئے اٹھتے تویہ بھی ساتھ اٹھتےتھے۔دس سال کی چھوٹی عمر میں کلام اللہ حفظ کرلیا۔صغر سنی میں ہی حلقۂ ذکر وفکر میں شامل ہوتے،علوم ِظاہری کی تکمیل کےبعد والد گرامی نےمجاہدات وریاضات میں مشغول کردیا۔حج وزیارت سےفارغ ہوکر دہلی آئے اور تووالد بغل گیر ہوکر ملے،اور استقبال کیا۔1237ھ میں والد ماجد کے حکم سے نواب سید کلب علی خاں مرحوم کی بیعت کے لیے رام پور گئے،ایک ماہ قیام کر کے دھلی واپس گئے۔1274ھ میں والد ماجد کے ہمراہ ہجرت کی،حضرت شاہ احمد سعید کے انتقال 1277ھ کے بعد مسند ارشاد پر بیٹھ کر ہدایتِ خلق میں مصروف ہوگئے۔ انتقال سے پانچ سال پہلے ہر سال حج کرتےتھے۔آپ کی بدولت عرب دنیا میں سلسلہ عالیہ کوفروغ حاصل ہوا۔بہت سےارادت مندپوری دنیا میں تھے۔جب عمر شریف پچاس سال ہوئی یعنی سال رحلت تو اس مرتبہ بڑے اہتمام کےساتھ تشریف لےگئے۔رفقاء اہل قافلہ کو سخت تاکید تھی کہ سوائے ذکر وفکرکےاور کوئی کام نہ کریں۔اس راہ میں اللہ رسول کےعلاوہ کسی کاذکر خواہ خوبی ہو یابدی نہ کریں۔خلاف ورزی کرنےوالے پر جرمانہ مقرر کیا گیا۔(تذکرہ کاملین رام پور:220) حج کے موقع پر منیٰ میں 12ذی الحجہ کو اپنے بیٹے شاہ محمد معصوم سے فرمایا حج کے بعد ہندوستان جانا، معلوم نہیں دودن بعد کیا ہو، 14ذی الحجہ سے بخار کے ساتھ دردِ سر شروع ہوا جو رفتہ رفتہ شدت پکڑتا گیا،سکرات موت میں باربارمسکراتے تھے۔
تاریخِ وصال: 16/ذی الحجہ 1287ھ مطابق 7/مارچ 1871ء کو منگل کے دن عصر اور مغرب کے درمیان انتقال ہوا۔جنت المعلیٰ مکۃ المکرمہ میں حضرت ام المومنین سیدتنا خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پائیں شریف دفن ہوئے، ہزاروں بندگان خدا کو آپ کی ذات سے فیض پہنچا۔عرب ممالک میں بکثرت آپ کےمرید اور خلفاء تھے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔تذکرہ کاملان رام پور۔
//php } ?>