حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی رام پوری
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1217 | ربيع الأول | 01 |
یوم وصال | 1277 | ربيع الأول | 12 |
حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی رام پوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی رام پوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی: حضرت شاہ ابو سعید مجددی۔کنیت:ابوالمکارم۔لقب:مظہر یزداں،سند الاولیاء،امام العرفاء۔آپ کےنانا حضرت شاہ محمد صدیقی جونہایت ہی متقی وپرہیزگار اور جید عالم دین تھے۔انہوں نے بذریعہ مکاشفۂ باطنی آپ کانام ’’غلام غوث ‘‘ رکھا۔لیکن آپ شاہ احمد سعید مجددی کےنام سے معروف ہیں۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی بن مولانا شاہ ابو سعید مجددی رام پوری بن شاہ صفی القدر بن شاہ عزیز القدر بن شاہ عیسیٰ بن خواجہ سیف الدین بن خواجہ محمد معصوم سرہندی بن امام ربانی حضرت مجدد الفِ ثانی (علیہم الرحمۃ والرضوان)۔(تذکرہ کاملان رام پور:14)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت یکم ربیع الاول 1217ھ،مطابق جولائی 1802ء کوبمقام رام پور میں پیدا ہوئے۔تاریخِ ولادت مادہ ’’مظہر ِ یزداں‘‘ سے نکلتی ہے۔
تحصیلِ علم: بچپن میں ہی حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے تھے۔جب حفظ قرآن کریم میں مشغول تھے۔اس وقت صغر سنی میں حضرت شاہ درگاہی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہواکرتے تھے۔شاہ صاحب خوب عنایت فرماتے،اور اپنے قریب بٹھاکر قرآن شریف سنا کرتےتھے۔پھر دس سال کی عمر میں حضرت شاہ غلام علی دہلوی علیہ الرحمہ سےاکثر کتب تصوف جیسے رسالہ قشیریہ،احیاء العلوم،عوارف المعارف،نفحات الانس،رشحات،مکتوبات امام ربانی،مثنوی مولانا روم وغیرہ پڑھیں اور بعض کی سماعت کی،ترمذی اور مشکوٰۃ المصابیح پڑھیں،باقی کتب منقول ومعقول علمائے دہلی مولانا فضل امام خیر آبادی،شاہ رفیع الدین،شاہ عبدالقادر، مولانا نورفرنگی محلی،مولانا رشیدالدین ۔رام پور میں مفتی شرف الدین اور مولانا سراج احمد بن حضرت محمد مرشد،لکھنؤ میں مولانا اشرف اور مولانا نور قُدِّس اسررہم سے درسیات پڑھ کر حضرت شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی قدس سرہ سے حدیث کا دور کیا۔بیس سال کی عمر میں دستارِ فضیلت باندھی گئی۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:23/تذکرہ کاملان رام پور:15)
بیعت وخلافت:دس سال کی عمر میں شیخ الاسلام حضرت خواجہ غلام علی دہلوی علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔سلوک کی منازل طے کرنے کےبعد سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں صاحبِ مجاز ہوئے۔
سیرت وخصائص:عالم،عارف،فاضل، کامل،فقیہ،محدث،مفسر،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،جامع شریعت وطریقت،عارف بااللہ،واصل بااللہ،عاشق رسول اللہﷺ،غیظ المنافقین،مہلک الوہابیین،حامی دین متین،صاحبِ اخلاق محمدی حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ حضرت امام ربانی مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی کےعظیم خانوادے،اور علمی وروحانی امانتوں کے وارث ِ کامل اور دینِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناءﷺ کےعظیم داعی تھے۔تمام علوم کےجامع،اوراسرار و معرفت کےبحرِ بے کنارتھے۔درس وتدریس وعظ ونصیحت اور تربیت ِ سالکین میں ہمہ وقت مشغول رہتے تھے۔آپ حضرت شاہ غلام علی کے خلیفہ اور امورِ الطافِ خاص تھے حضرت شاہ غلام علی آپ کوعلو استعداد میں آپ کے والد شاہ ابو سعید مجددی سے افضل فرماتے تھے۔ایک مرتبہ دونوں باپ بیٹے حضرت شاہ غلام علی دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے،حاضرین سے ارشاد ہوا کون افضل ہےسب لوگ خاموش رہے۔پھر خود ہی فرمایا:بیٹا باپ سے افضل ہے۔(تذکرہ کاملان رام پور:16)
بعد نمازِفجر،ظہر،مغرب تین وقت حلقہ مراقبہ قائم فرماتے،اس کے بعد حدیث وتفسیر و فقہ کا درس دیتے،فتاویٰ بھی لکھا کرتے تھے،فرماتے تھے: فتویٰ نویسی میرا کام نہیں،مگر کیا کروں جاہل عالم بن گئے ہیں۔رات کے پچھلے حصے میں نماز تہجد اہتمام کےساتھ اداکرتے تھے۔نمازِ فجر طویل قرأت کےساتھ ادافرماتے۔مسجد شریف میں ہی تشریف فرما رہتے،اشراق،چاشت پڑھ کر جلسہ عام میں بیٹھ جاتے،حاجت مندوں کی حاجت روائی فرماتے،پھر طلبہ کو منقول ومعقول کی کتب کا درس دیتے۔معقول قطبی تک پڑھاتے،زیادہ نہیں پڑھاتے تھے،فرماتے اگرچہ میں معقولات پر قادر ہوں مگر اس کی تعلیم پسند نہیں ہے۔علوم تفسیر وحدیث فقہ واصول فقہ میں بڑی فصاحت وبلاغت کے ساتھ تقریر فرماتے۔اسی طرح کتب تصوف میں حقائق ومعارف کےدریا بہادیتے۔
1249ھ میں والد کی جگہ پر خانقاہ شاہ غلام علی کے سجادہ نشین ہوئے،مریدوں کے حال پر بہت شفیق تھے،مریدین کا ہجوم ہوگیا،لوگوں کو آپ کی ذات سےبہت فائدہ پہنچا۔ستاون برس کی عمر ہوئی تھی کہ 1272ھ /1857ء میں غدر کابگل بج گیا،حفاظت کے خیال سے اہل وعیال کو شہر سے باہر دیہات میں بھیج دیا،اور خود خانقاہ ہی میں مقیم رہے،لوگوں نےچلنے کےلیے عرض کیا، فرمایا جب تک بزرگوں کا حکم نہ ہوگا نہیں جاؤں گا،ایک شب بعد از تہجد فرمایا،اب نکلنے کی اجازت ہوگئی ہے خانقاہ کا انتظام حاجی دوست محمد قندھاری کو سپرد کرکے سواری تلاش کرائی،مگر نہ ملی،خادم نے کہا کہ حضرت امیر وغریب ،مردو زن سب پیدل جارہے ہیں۔آپ نےفرمایا میں تو پیدل نہیں چل سکتا۔پھر تھوڑی دیر مراقبے میں بیٹھ گئے،اسی اثناء میں اللہ جل شانہ کی طرف سے دوگھوڑے آپ کو مل گئے،آپ ان پر سوار ہوکر قطب صاحب میں آئے،یہاں پر اہل وعیال پہلےہی سے مقیم تھے،یہیں پر بیوی صاحبہ کا انتقال ہوا،حضرت سید محمد نور بد ایونی قدس سرہ کےپہلو میں دفن کر کے مریدین کی جمعیت کو ہمرکاب لے کر با ارادۂ ہجرت عازم ِمکہ ہوئے۔
دورانِ سفر پنجاب میں داخل ہوئے،جس علاقے سے گزر ہوتا لوگ جوق در جو ق قدم بوس ہوتے،اور داخلِ سلسلہ ہوتے،آپ اپنے مرید وخلیفہ حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری کےہاں موسیٰ زئی ڈیرہ اسمعیل خان تشریف لے گئے،وہاں سے کراچی اورکراچی سےممبئی،اور بذریعہ جہاز آخر شوال میں جدہ پہنچے،رمضان سمندر میں گزارا،تراویح میں قرآن پڑھا،معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔حج کا شرف حاصل کیا،چار ماہ بعد مدینہ منورہ حاضر ہوئے،خالد پاشا محافظ مدینہ منورہ داخل سلسلہ ہوئے،اور ایک مکان کرایہ پر لےکر رہائش کے لیے پیش کیا،رجب کے مہینے میں اہل وعیال کو مکہ مکرمہ سے بلاکر اس مکان میں مقیم ہوگئے۔یاد رہے کہ آپ نےبھی انگریزوں کے خلاف فتویٰ جہاد پر دستخط کیے تھے،اور اس فتوے کی توثیق فرمائی تھی۔
آپ نےوصال سےقبل قیام دہلی میں وصیت فرمائی تھی کہ مجھے حضرت مرزا جان جاناں کےزیر قدم دفن کرنا۔مدینہ منورہ میں وصیت فرمائی تھی کہ حضرت عثمان غنی کےقرب میں دفن کرنا۔ آپ نے وہابیوں کے رد میں مشہور کتاب’’ حق المبین فی رد علی الوھابیین‘‘ تصنیف فرمائی۔حضرت کے اکسٹھ خلفاء تھے جو افغانستان بخارا وغیرہ میں پھیلے ہوئے تھے،مولوی رشید احمد گنگوہی نے آپ سے اکتساب علم کیا تھا مگر بد عقیدہ ہونے کی وجہ سے آپ کا تذکرہ اہانت آمیز کرتاتھا۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال بروزمنگل 2/ربیع الاول 1277ھ،مطابق 18/ستمبر 1860ء کومدینۃ المنورہ میں ہوا۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔تذکرہ کاملان رام پور۔