حضرت مولانا شاہ محمد عبید اللہ کانپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: حضرت مولانا شاہ محمد عبیداللہ ۔کانپورمیں مستقل اقامت کی وجہ سے "کانپوری"کہلاتے ہیں۔
مولدوموطن: آپ کاتعلق "بہاولپور"پنجاب سے تھا۔ شیخ المدرسین حضرت مولانا شاہ احمد حسن کانپوری علیہ الرحمہ کی خدمت میں تحصیلِ علم کی غرض سے کانپورحاضرہوئے،اور پھروہیں مستقل رہائش اختیارکرلی۔ساری عمر دینِ متین خدمت کرتے رہے۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی،قرآنِ مجید حفظ کرنے کے بعدمزیدتحصیل ِعلم کے لیے حضرت مولانا شاہ احمدحسن کانپوری قدس سرہ کے درس کا شہرہ سن کر کانپور آئے، اور اخذ علوم کیا۔آپ اُستاذِ زمن کی درسگاہ سے فارغ ہونے والی پہلی جماعتِ علماء میں ممتاز تھے۔
سیرت وخصائص: فاضلِ اکمل،عالمِ متبحر،استاذالعلماء والفضلاء،سندالاتقیاء،حامیِ مسلکِ اعلیٰ حضرت،ماحیِ بدعت،غیظ الوہابیین، حضرت مولانا شاہ محمد عبیداللہ کانپوری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کاشمار اس وقت کے جیدعلماءومدرسین میں ہوتاتھا۔تمام علومِ عقلیہ ونقلیہ میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔یہی وجہ ہےکہ استادِزمن مولانا احمدحسن کانپوری علیہ الرحمہ نے اپنے دونوں صاحبزادگان استاذ العلماء مولاناشاہ مشتاق احمد کانپوری اورمفسرِ قرآن حضرت مولانا نثار احمد مفتی آگرہ کی کی تعلیم وتربیت آپ کی سپرد کی تھی۔آپ کادرس استاذِ زمن کے درس کاکامل نمونہ ہواکرتا تھا۔تقویٰ وپرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے۔تقوی ٰ کایہ عالم تھا کہ سنت توسنت استحباب کا بھی خاص التزام تھا۔آپ کی مجلس اور درس کایہ فیض تھا جوشریکِ درس ہوتا وہ بھی پیکرِ صدق وصفا بن جاتا تھا۔
مولانا محموداحمد قادری فرماتے ہیں: "یہاں یہ بات قابل ِذکر ہے کہ بر بنائے تصلبِ مذہبی ،غیر مقلدین اور دیوبندیوں کےمسجدمیں داخل ہونے پر دریوں سمیت مسجد کی دُھلائی کی ابتداءآپ ہی نے فرمائی تھی۔مسجد صوبیدار واقع اُرسلا ہسپتال کانپور جس میں آپ امام وخطیب تھے۔ اس کا متولی غالی دیوبندی تھا۔ مگرکبھی اس کو مسجد میں آنے کی جرأت نہ ہوئی، کیونکہ وہ بھی آپ کے ورع وتقویٰ سے مرعوب تھا"۔یعنی آپ کا سیرت وکردار ایسابےداغ تھا کہ کسی بدمذہب کو بھی بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔آپ ہمہ وقت درس وتدریس میں مشغول رہتے تھے۔کیونکہ یہ ایسے امور ہیں جس میں مسلکِ اہلسنت کی بقاء مضمر ہے۔آپ پیری مریدی نہیں کرتے تھے۔ ساری زندگی کسی کومرید نہیں کیا۔حالانکہ آپ کوخلافت حاصل تھی۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 6/جمادی الاول1343ھ،مطابق دسمبر/1924ءکوہوا۔کانپورکےبساطی قبرستان میں مدفون ہیں۔
فائدہ: امینِ شریعت،بدرالاصفیاء حضرت شاہ رفاقت حسین علیہ الرحمہ خصوصی طور پر آپ کے عرس میں شریک ہوتے تھے۔عرس کا تبرک یہ کہہ کر تقسیم فرماتے:" لوکھاؤ اس سے ایمان میں استحکام اور زیادتی نصیب ہوگی"۔آپ نے تجردمیں زندگی بسرفرمائی۔ملک العلماءحضرت مولانا محمد ظفر الدین بہاری(صاحبِ حیاتِ اعلی ٰحضرت)نے"ہدایہ آخرین" آپ سے پڑھی تھی۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت۔
//php } ?>