حضرت مولانا شاہ محمد عبید اللہ کانپوری
حضرت مولانا شاہ محمد عبید اللہ کانپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
پنجاب کے باشندے تھے، اولاً حفظ قرآن کیا، بعدہٗ تحصیل علم کے لیے حضرت اُستاذ زمن مولانا شاہ حسن کانپوری قدس سرہٗ کے درس کا شہرہ سُن کر کانپور آئے، اور اخذ علوم کیا، اُستاذ زمن کی درسگاہ سے فارغ ہونے والی پہلی جماعت علماء میں آپ ممتاز تھے، تقویٰ وطہارت اور پرہیزگاری آپ کا طرۂ کمال تھا، علوم متداولہ متعارفہ میں کامل دستگاہ تھی، بزرگ اُستاذ نے اسی کے پیش نظر اپنے دونوں صاحبزادگان استاذ العلماء مولاناشاہ مشتاق احمد اور مفسر قرآن حضرت مولانا نثار احمد مفتی آگرہ کی تعلیم آپ کی سپرد کی، آپکا درس اُستاذِ نامور کامور کا نمونہ تھا، آپ کی درسگاہ اور مجالس کا فیضیافتہ پیکر تقویٰ ہونا،۔۔۔۔۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بر بن ائے تصلف مذہبی غیر مقلدین اور دیوبندیوں کے داخل مسجد ہونے پر دریاں سمیت مسجد کی دُھلائی کی آپ ہی نے ابتدا کی مسجد صوبیدار واقع اُرسلا ہسپتال کانپور، جس میں آپ امام وخطیب تھے اس کا متولی خالی دیوبندی تھا، مگر کبھی اس کو مسجد میں آنے کی جرأت نہ ہوئی، کیونکہ وہ بھی آپ کے ورع وتقویٰ سے مرعوب تھا، حضرت مولانا شاہ حاجی عبد اللطیف ستھنی قدس سرہ آپ کے بر اور طریقت تھے، اور اُنہیں سے آپ کو اجازت وخلافت بھی تھی، مگر کسی کو مرید نہیں کیا، ۶؍جمادی الاولیٰ ۱۳۴۳ھ میں وصال ہوا بساطی قبرستان کانپور کی ابدی آرام گاہ ہے،۔۔۔۔ راقم سطور کے پیرو مرشد ومربی حضرت امین شریعت، بدر الاصفیاء مولانا شاہ رفاقت حسین دامت برکاتم خصوصی طور پر آپ کے عرس میں شریک ہوتے ہیں، قل کا تبرک یہ کہہ کر تقسیم فرماتےہیں لوکھاؤ اس سے ایمان میں استحکام اور زیادتی ہوگی،۔۔۔۔۔ آپ نے تجردو تفرو میں پوری زندگی بسر فرمائی،
حضرت مولانا شاہ محمد ظفر الدین قاری رضوی مرید وخلیفہ وتلمیذ ارشد علامہ احمد رضا بریلوی مجدد مأتہ حاضرہ نےہدایہ آخرین کا آپ سے درس لیا۔