حضرت مولانا شاہ مخلص الرحمن چاٹگامی
حضرت مولانا شاہ مخلص الرحمن چاٹگامی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا شاہ مخلص الرحمن چاٹگامی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی:حضرت مولانا سید شاہ مخلص الرحمن۔لقب:جہانگیرشاہ،شیخ العارفین،بانیِ سلسلہ جہانگیریہ۔سلسلۂ نسب:مولانا شاہ مخلص الرحمن بن مولانا سید غلام علی علیہما الرحمہ۔مولاناسیدغلام علیسادات وعلاقائی شرفاء میں سےتھے۔سلسلہ ٔ معاش وکالت،اور زمینداری سےتھا۔آپ کےجد اعلیٰ سرزمین عرب سےوارد ہندوستان ہوئے۔ملازمت شاہی کےسلسلہ میں کافی عرصےتک دہلی میں رہے۔جب سلاطین دیلی نےفتوحات کارخ بنگال کی طرف موڑا اور مسلمانوں کےلشکرکےہاتھوں یہاں اسلام کاجھنڈانصب ہوا، تو اس لشکر کےساتھ ساداتِ بنی فاطمہ کےدوبزرگ بھی تھے۔وہ چاٹگام میں ہی میں آباد ہوگئے۔بےشمار غیرمسلم اقوام ان کےہاتھوں مشرف بااسلام ہوئیں۔اللہ تعالیٰ نےان کی نسل میں ایسی برکت رکھی کہ بستیاں آبادہوگئیں،یہ دونوں بزرگ آج بھی بڑےمیاں اور چھوٹے میاں کےنام سےمعروف ِ زمانہ ہیں۔(سیرتِ فخرالعارفین جلد اول:4)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروز پیر1229ھ مطابق 1814ءکوموضع ’’مرزاکھیل شریف‘‘ ضلع چاٹگام موجودہ بنگلہ دیش میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں والد کےزیرِسایہ ہوئی۔عربی وفارسی کی تکمیل کرنےکےبعد مزید حصول علم کےلیےکلکتہ کےاسلامی مراکز میں داخلہ لیااوربقیہ کتب کی تکمیل وہیں ہوئی۔
بیعت وخلافت: علوم ِظاہری کی تکمیل کےبعد آپ کا طبعی میلان علوم باطنیہ کی طرف بڑھااور سینےمیں محبت الہی کاجوش مارنےلگی۔توآپ کسی شیخ کامل کی تلاش میں کلکتہ سےلکھنؤ میں مولانا برہان الدین فرنگی محلی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا ایک جید عالم دین ہونےکےساتھ عارف ِ کامل بھی تھے۔مولانابڑی محبت سےپیش آئے،اوراچھی طرح مہمان نوازی کرنےکےبعد فرمایاکہ آپ کاحصہ میرےپاس نہیں ہے۔آپ یہاں سےبھاگل پور میں حضرت سید امدادعلی شاہکی خدمت میں چلےجائیں،جب مولانا کلکتہ سےلکھنؤکےلیےروانہ ہوئے، تومولانا فرنگی محلی نےحزب البحر پڑھنےپڑھانےکی اجازت عنایت فرمائی۔بھاگل پورمیں پہنچ کرحضرت سید امداد علی شاہسےدستِ بیعت ہوئے،سلوک کی منازل طےکرنےلگے۔اسی دوران اپنےدادا مرشد حضرت خواجہ محمد مہدی شاہ چشتی قادریکی خدمت میں بھی سلوک کی منازل طےفرمائیں۔جب واپس بھاگل پور پہنچےتومرشد نےدستار خلافت عطاء فرماکرصاحبِ ارشاد ومجاز فرماکر طریقت میں آپ کو’’جہانگیر شاہ‘‘کا لقب عطاء فرمایا،اور واپس اپنےوطن کی طرف روانہ کردیا۔(سیرت فخرالعارفین جلد اول)
سیرت وخصائص: قدوۃ السالکین، برہان العارفین، دلیل الواصلین، شیخ العارفین حضرت علامہ مولانا سید مخلص الرحمن چشتی قادری جہانگیری چاٹگامی۔آپسلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ جہانگیریہ کےبانی ہیں۔ایک جید عالم دین اور عارف ِ کامل تھے۔آپنےچاٹگام میں ایک عالی شان درس گاہ قائم فرمائی جہاں دوردراز سےتشنگان ِعلم علومِ مصطفیٰﷺسےسیراب ہوتےتھے۔اسی طرح ایک خانقاہ قائم فرمائی جہاں مئے وحدت کےجام پلائے جاتےتھے۔آپ کی ذاتِ مبارکہ سےاہل سنت کوبہت فروغ حاصل ہوا۔آپچونکہ عالم وعارف تھےاس لیےوقت کےبڑےبڑےعلماء مسائل پوچھنےکےلئےآپ کی خدمت میں حاضر ہوتےتھے۔حافظہ اس قدر قوی تھا کہ ایک کتاب کااگر سرسری مطالعہ کرلیاتو ازبرہوجاتی تھی۔جہاں آپ اپنےوقت کےایک بہترین مدرس تھےوہاں ایک بہترین مناظر بھی تھے۔
مناظرہ: ایک مرتبہ مولوی کرامت اللہ جون پوری(جون پوری صاحب کی تصانیف کودیکھ کراندازہ ہوتاہےکہ آپ عقائدمیں تذبذب کاشکارتھے۔کسی کتاب میں معمولاتِ اہل سنت کی تاکید،اور دوسری کتاب میں مخالفت،بعض مرتبہ ایک ہی کتاب میں یہ مَناظر ملتےہیں، مثلاً آپ کی ایک کتاب ’’مراد المریدین‘‘ہے اس کےصفحہ نمبر8پرمیلادشریف کی تاکید ہے،اسی طرح صفحہ نمبر9پرآپﷺکوحاضر ناظرلکھاہے، 12 پرآپﷺکونور، اورآپ کےنورسےکائنات کی تخلیق ہوئی تحریرکیاہے۔ یہ عقائدتو وہابیوں میں شرک وکفرہیں،تونسوی)چاٹگام میں آئے،انھوں نےایصال ثواب،اور بزرگان دین کےاعراس وفاتحہ کےمسائل میں معمولات اہل سنت کےخلاف تقریر بازی شروع کردی،شہر میں ان باتوں کاچرچاپھیلا،مسلمانوں میں اضطراب پیداہونےلگا۔مولوی ابوالحسن کی درخواست پر آپ شہر تشریف لےگئے، اور’’قدم مبارک‘‘والی مسجد میں قیام فرمایا۔یہ خبر پورےشہر میں پھیل گئی، عوام کی کثیر تعداد’’لال ڈیگی‘‘کےسامنےبڑےمیدان میں جمع ہوگئے،اسی جگہ مناظرہ طےپایا۔انگریزحکام نےانتظاماً پولیس تعینات کردی، انتظامیہ کےاہم افرادجلسہ گاہ میں موجود رہے۔مولوی کرامت علی نےگاڑی بھر کرکتابیں پہلےسےہی جلسہ گاہ میں پہنچادیں،اور کتابوں کاڈھیرلگادیا۔جسےدیکھ کربعض افراد نےحضرت شاہ مخلص الرحمنسےپوچھ لیا کہ حضرت مدمقابل مولوی صاحب تو کتابوں کاڈھیر لایا ہے، اور آپ کی کتابیں کہاں ہیں؟ آپ نےفرمایا مولوی صاحب کاعلم کتابوں میں اور ہماراعلم سینےمیں ہے۔ یہ گفتگو ہورہی تھی کہ مولوی کرامت علی صاحب بھی گاڑی میں آگئے، اورگاڑی جلسہ گاہ میں کےدروازےپر رکی، مگر وہ گاڑی سےاترےنہیں،لوگوں سےپوچھا کہ جن سےمناظرہ ہونےوالاہے، وہ کون ہیں، اور کہاں ہیں؟ لوگوں نےحضرت شیخ العارفین کی طرف اشارہ کیا۔مولوی کرامت علی نےآپ کودیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے، اور گاڑی میں بیٹھے ہی بیٹھےکہا گاڑی واپس کی جائے۔یہ حضرت کارعب وہیبت تھا کہ ایسے خائف ہوئے کہ جلسہ گاہ میں قدم نہ رکھ سکے۔(سیرت فخرالعارفین جلداول:7)
آپ کی شخصیت کارعب ودبدبہ اس قدرتھاکہ مخالف مناظرکتابیں چھوڑکرفرارمیں عافیت سمجھتا۔آپ نےبدنامِ زمانہ کتاب’’تقویۃ الایمان‘‘ کےردمیں ’’شرح الصدور‘‘تحریرفرمائی اور مولوی اسماعیل قتیل کاردبلیغ کیا۔یہ حقیقت ہےاسلامیانِ ہندمیں فرقہ واریت کی یہ سب سےپہلی اینٹ تھی،جس کےبعدمسلمان فرقہ واریت کی دلدل میں پھنستےگئے۔
آپیادگاراسلاف تھے۔آپ کوددیکھ کراکابرین اولیاء کی زندگی کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔آپ نے فرائض واجبات،سنن،مستحبات،نوافل کی ادائیگی میں کبھی سستی نہیں کی۔آپاکثردعافرماتےتھےکہ اےاللہ ایسی تونگری سےبچاناجوغفلت میں ڈال دے،اور ایسی غریبی سےبچانا جوتیر ی یاد سےغافل کردے۔آپ ہمیشہ سُستی وکاہلی کواپنےقریب نہیں آنےدیتےتھے۔فرماتےتھے کہ غفلت وسستی شریفوں کاشعار نہیں ہے۔شرافت ونجابت کی بقاء محنت وچُستی میں ہے۔سنتِ مصطفیٰﷺکاخاص اہتمام تھا۔پوری زندگی میں آپ سےکسی نےقہقہہ کی آواز نہیں سنی۔قدم ہمیشہ جماکر چلتےگویا کہ آپ کاچلنابھی ذکرفکرسےخالی نہیں ہوتاتھا۔
آپصاحبِ کشف وکرامات تھے۔بالخصوص لاعلاج مریض آپ کی دعاسےشفاء یاب ہوجایاکرتےتھے۔ آپ کاکشف ایسےہوتاتھاجیسےایک انسان دیکھ کربیان کرتاہے۔آپنےاپنی موت کادن وقت سب کچھ بیان کردیاتھا۔ایک دن فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کےحبیبﷺکاوصال ِ ظاہری پیر کےدن ہوا۔لہذا ہماراوصال بھی اتباع ِ حبیبﷺ میں پیرکےدن ہوگا۔یہی وجہ ہےکہ آپ نےوصال ِ باکمال سےقبل اپنےسفر ِ آخرت کےتمام انتظامات اور اس کااخراجات کابندوبست پہلےسےہی کردیاتھا۔کچھ دن قبل فرمایا ہمارا وقت قریب ہےمیری قبر خانقاہ کےساتھ والےتالاب کےشمالی گوشےمیں بنانا تاکہ آنےجانےوالوں کی خبر گیری کرتارہوں۔میرےبیٹے عبدالحی کی تعلیم ابھی نامکمل ہے،ان کوتعلیم مکمل کرنےدینا۔(کاش ! یہی فکرآج کےسجادگان کونصیب ہوتی، اب توحالات ایسےابترہیں کہ پیرصاحب کافرزند پیدا ہوتےہی ’’ولی عہد‘‘ بن جاتاہے،یہ ایک نئی اصطلاح نئی رائج ہوئی ہے۔اس کےلیےنہ علم کی ضرورت، اورنہ ہی عمل کی، پھرایسے’’مادرزاد‘‘اپنی جہالت پر پردہ ڈالنےکےلئےاپنی مجالس میں علم اور علماء کامذاق اڑاتےہیں۔اس وقت بڑی بڑی خانقاہوں کامشاہدہ کریں،جہاں ایک وقت میں قال اللہ،اور قال رسول اللہ کی صدائیں آتی تھیں،آج ان محلوں سےکتےبھونکنےکی آوازیں آتی ہیں،کمال ہےان عقیدت مندوں کے ایمان پر جوسب کچھ دین کے نام پرہوتا دیکھ کرپِیرکےپَیراور ہاتھ چوم رہے ہوتے ہیں، اورنذرانہ دےکران کی عیاشیوں کےسامان فراہم کررہےہوتےہیں۔اکابرین اولیاء اللہ تو اہل کواپنی مسند پربٹھاتےتھے،اس میں موروثی سلسلےکاتصور بھی نہیں ہے۔تونسویؔ غفرلہ)
آپنےایک دن فرمایاچھوٹےمیاں(صاحبزادہ عبدالحی)آج کل لکھنؤمیں مولانا فرنگی محل کےپاس تعلیم حاصل کررہےہیں، ہمارےوصال کےبعدہماراسجادہ،قلمدان،گدی شریف،عصاء،اورکتابیں وغیرہ ان کودےدینا،اوران سےکہ دیناکہ ہمارےمریدین کی خبرگیری کرتےرہیں۔ (مولاناکےاورصاحبزادےبھی موجودتھے،اگراپنےبیٹےکوہی سجادہ نشین منتخب کرنامقصودتھاتو انہیں کرلیتے،لیکن وہ اس معیارپرپورےنہیں اترتےتھے،یہی وجہ ہےکہ مولانا عبدالحی نےاہل سنت اور سلسلہ عالیہ کی ایسی خدمت فرمائی کہ جس کی مثال مشکل ہے)۔
وصال سےایک دن قبل اتوار کادن گزارکررات بھراپناحجرہ بندکرکےعبادت وریاضت میں مشغول رہے،صبح کاوقت ہواتوتازہ وضو کرکےتمام احباب کےہمراہ باجماعت نمازادافرمائی۔اس کےبعد ذکروفکر میں مشغول رہے،پھرفرمایا کیاسورج نکل آیاہے،مریدین نےعرض کی جوحضورتھوڑی دیر پہلےہی ظاہر ہواہے۔یہ سن کرانگشتِ شہادت آسمان کی جانب بلند کی اور لبوں پر حرکت وجنبش محسوس ہوئی کہ جیسے کچھ پڑھ رہےہوں،اسی حالت میں آپ کاوصال باکمال ہوگیا۔مولانا سید عبدالحی چاٹگامیآپ کےجانشین وفرزندتھے۔
تاریخِ وصال:بروزپیر،12/ذیقعد1302ھ،مطابق 24/اگست1885ءکوواصل بحق ہوئے۔آپ کامزراپرانوارموضع ’’قصبہ دیانگ‘‘ضلع چاٹگام بنگلہ دیش میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ ومراجع:تذکرہ علمائےاہل سنت۔سیرت فخر العارفین۔انسائکلوپیڈیا اولیائے کرام جلد5۔