مولانا سید عبدالسلام قادری باندوی
مولانا سید عبدالسلام قادری باندوی (تذکرہ / سوانح)
مولاناسید عبدالسلام قادری باندوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: مولانا سید عبدالسلام باندوی۔لقب: ناصرا لاسلام،قائد تحریک پاکستان۔والد کااسم گرامی: پیر طریقت حضرت مولانا سید امانت علی شاہ قادری۔آپ کا تعلق اولیاء اللہ اور علمی گھرانہ سے ہے ۔ آپ کا خاندان حضرت سیدنا امام علی رضاکی اولاد سے ہے ۔ آپ کا خاندان مشہد منور سے اوچ شریف (بہاولپور ) آیا ( وہاں بھی خاندانی بزرگ مدفون ہیں ) وہاں سے بعض سادات شاہ پور (یوپی، انڈیا ) آئے اور مولانا صاحب کا خاندان اس وقت کراچی میں رونق افروزہے ۔ (انوار علمائے اہل سنت سندھ:479)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1323ھ مطابق 1905ء کو ضلع ’’باندا‘‘(یوپی،انڈیا) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولانا حافظ سید امانت شاہ علی قادری سے حاصل کی پھر ان کے حکم سے اعلیٰ تعلیم کے لئے مرکزی درسگاہ جامعہ نعیمیہ مراد آباد (یوپی انڈیا) رجوع کیا ۔ جہاں صدر الا فاضل،مفسرِقرآن وحید العصر،استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کی سر پرستی میں درسی نصاب کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت وخلافت :آپ نے اپنے برادرمعظم حضرت مولانا سید محمد عبدالرب قادری سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت کی۔ والد ماجد کی ہدایت و بشارت کے مطابق پیر صاحب نے آپ کو خلافت عطافرمائی ۔
سیرت وخصائص: ناصر الاسلام،حامی اسلام،ماحیِ بدعات،خطیب اہل سنت،قائد تحریک ِ پاکستان ،عالم ربانی،عارف اسرار رحمانی حضرت علامہ مولانا سید عبدالسلام قادری باندوی۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کےجید عالم دین اور عارف باللہ تھے۔خاندانی طور پر دین سے وابستگی تھی۔والد گرامی اور برادر مکرم شیخِ طریقت تھے۔پھر صدرالافاضل بدر المماثل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کی تعلیم وتربیت نےسونے پہ سہاگہ والا کام کیا۔حضرت صدرا لافاضل ایک نابغۂ روزگار اور عبقری شخصیت کےحامل ،اور اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔جو ان کےپاس پہنچا وہ صاحب ِ کمال ہوگیا۔پھر اس نے ایک جہان کو اپنے کردار وعلم سے منور کیا۔
تحریک پاکستان : آپ نے علماء اہل سنت کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس 1946ء میں شعبہ نشرو اشاعت کے سیکرٹری رہے۔ اور کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے پورے ہندوستان کا دورہ کیا بڑے بڑے جلسوں میں خطاب کر کے سنی کانفرنس کی دعوت اور مسلمانوں کے لئے ایک آزاد مملکت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ مجاہد ملت،اکابر تحریک پاکستان،فاتحِ سرحد حضرت علامہ مولانا عبدالحامد بدایونی کی رفاقت میں مختلف صوبوں میں جاکر پاکستان کیلئے لوگوں کو قائل کرنا اور بلند عزم کے ساتھ تحریک چلانا انہیں کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔ (ایضا:479)
پاکستان میں قیام : مولانا سید عبدالسلام اگست 1947ء کو پاکستان کے مرکزی شہر کراچی تشریف لائے جب پاکستان میں جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی صدر مجاہد ملت حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی منتخب ہوئے اور اس کے ساتھ ناصرالاسلام خطیب اہل سنت پیر طریقت مولانا سید عبدالسلام قادری نائب صدر منتخب ہوئے۔ آپ نے نائب صدر کی حیثیت سے ملک و ملت کی دینی و سیاسی خدمات انجام دیں ۔
خطابت: ان کے دل میں عشق رسولﷺکوٹ کوٹ کر بھرا ہو اتھا ۔ اس لئے ان کی تقریر میں چاشنیِ عشق اور درد تھا ۔ تقریر کے دوران لوگوں کو ر لا دیتے تھے ۔ دوسری بات یہ کہ نعت خوانی میں اپنے وقت میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ اتنی خوبصورت خوش لحن آواز تھی کہ لوگ مسحور،مسروراورروح پرورلمحات میں گم ہوجاتےتھے۔کلکتہ،ممبئی،مدراس،کانپور،یوپی،جبلپور،کراچی،حیدرآباد،نواب شاہ،سکھر،راولپنڈی، لاہور ،ملتان ، کوئٹہ ، وغیرہ مقامات پر اپنی تقریر کالوہا منوایا۔
پاکستان بننے کے بعد کراچی کی مرکزی جامع مسجد نیو میمن ( بولٹن مارکیٹ) کے پہلے خطیب مقرر ہوئے ۔ آپ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا بھر پور جذبہ رکھتے تھے اور اعلاء کلمۃالحق کہنے میں ڈرنے والے نہیں تھے بلکہ اعلانیہ حق فرما دیتے تھے ۔ اسی طرح وہابی،دیوبندی،تبلیغی،مودودی قادیانی،شیعہ،پرویزی اور غیر مقلدوں کا شدید رد فرماتے اور ان کے باطل عقائد پر سخت گرفت فرماتے تھے ۔ خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی آپ کے فن خطابت سے بہت متاثر تھے اس لیے اکثر آپ کے پاس حاضر ہوتے اور فن خطابت سے فیض یاب ہوتے ۔ نیو میمن مسجد کے علاوہ ملیر کینٹ کی چھاوٗنی مسجد اور کینٹ اسٹیشن کی مسجد غریب نواز میں خطابت کے امور انجام دیئے ۔ (ایضا:480)
تحریک ختم نبوت :آپ نے تحریک ختم نبوت میں علماء اہل سنت کے ساتھ بھر پور کردار ادا کیا ، قادیانیوں کو کا فر قرار دیا اور بڑے بڑے جلسوں میں ان کے عقائد باطلہ کی خوب خبر لی ، ان کے باطل عقائد و نظریات مکرو فریب شرارت و سازش کی بیخ کنی کی ۔ عوام الناس کو قادیانیت کے خلاف متحد و منظم کیا تاکہ وہ ان کی ہر سازش کونا کارہ بنائیں اور منہ توڑ جواب دیں ۔
سفر حرمین شریفین :آپ سات بار حج بیت اللہ اور روضہ رسول مقبول کی حاضری سے بار یاب ہوئے ۔ ایک بار حج کیلئے قرعہ اندازی میں نام نہ آیا تو بے حد مغموم ہوئے اور حج آفیسر سے تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ اور فرمایا:’’میں جاکے رہوں گا ۔ کوئی مجھے روک نہیں سکتا ‘‘۔ یہ الفاظ اطمینان یقین اور بھروسہ سے کہے ۔ رات ہوئی ایک نعت قلب کی گہرائی ، درد ، الفت اور تڑپ کے ساتھ لکھی ۔بہرحال اچانک ہی حاجی کیمپ میں نام کا اعلان ہو،ایوں آپ حج کو رواں دواں ہوئے ۔ ایک مرتبہ سفر حج میں آپ کے چھوٹے صاحبزادے سید منظور الاسلام قادری بھی ساتھ تھے ۔ دوران سفر سفینہ حجاج درمیان سمندر میں طغیانی او ر طوفانی ہواؤں اور موجوں کی زد میں آکر ڈوبنے لگا۔ تمام لوگ خوف و ہر اس میں مبتلا ہو گئے ۔ اس وقت آپ جہاز کے کپتان کے پاس گئے اور انہیں اطمینان دلایا اور جہاز کے چاروں سمت اذانیں دلائیں ۔ اور پھر جہاز کے عرشہ (چھت)میں محفل میلاد پاک منعقد کی اور پوری رات محفل میں نعت خوانی ذکر رسول پاک ﷺ ہوتا رہا ۔ بعد نماز فجر صلوۃ و سلام پڑھا گیا تو ایسا محسوس ہوا کہ طوفان عاجز ہو کر خوف سے بھاگ رہا ہے اور ایک دم سمندر میں ٹھراؤ پیدا ہوا اور یوں طوفان ٹل گیا ۔ آپنےسفرحرمین کےعلاوہ عراق،شام،فلسطین،بحرین وغیرہ کاسفر کیا۔متعدد انبیاء کرام واولیاء عظام ومشائخ کےمزارات ِ مقدسہ کی زیارات سے مشرف ہوئے۔
تاریخِ وصال: آپ 5/شوال المکرم 1387ھ مطابق 5/جنوری 1968ءکوشام چار بجےواصل باللہ ہوئے۔ عین وصال کے روز دوپہر میں آپ کے خلیفہ صوفی نفاست حسن صاحب آئے تو آپ نے برجستہ فرمایا ’’میں آج جارہا ہوں‘‘ اور وصیتیں فرمائیں ۔ صوفی صاحب چلے گئے۔اسی دن انتقال ہوگیا۔آپ کامزار شریف پاپوش نگر قبرستان ناظم آباد کراچی میں واقع ہے۔
ماخذ ومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔