حضرت مولانا سید عبد السلام قادری باندوی

حضرت مولانا سید عبد السلام قادری باندوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 

ناصر الا سلام مولانا سید محمد عبدالسلام قادری باندوی بن پیر طریقت حضرت مولانا سید امانت علی شاہ قادری ۱۹۰۵ء میں باندا ( یوپی، انڈیا) میں تولد ہوئے۔

آپ کا تعلق جدی پشتی اولیاء اللہ اور علمی گھرانہ سے ہے ۔ آپ کا خاندان حضرت سیدنا امام علی رضا مشہد شریف (ایران ) کی اولاد سے ہے ۔ آپ کا خاندان مشہد منور سے اوچ شریف (بہاولپور ) آیا ( وہاں بھی خاندانی بزرگ مدفون ہیں ) وہاں سے بعض سادات شاہپور ( یوپی ، انڈیا ) آئے اور مولانا صاحب کا خاندان کراچی میں رونق افرا زہے ۔

تعلیم و تربیت :

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولانا حافظ سید علی قادری سے حاصل کی پھر ان کے حکم سے اعلیٰ تعلیم کے لئے مرکزی درسگاہ جامعہ نعیمیہ مراد آباد (یوپی انڈیا) رجوع کیا ۔ جہاں صدر الا فاضل ، مفسر ،قرآن وحید العصر ، استاد الاساتذہ حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین کمراد آبادی قدس سرہ کی سر پرستی میں درسی نصاب کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔

بیعت وخلافت :

آپ نے اپنے برادرمعظم حضرت مولانا سید محمد عبدالرب قادری ؒ سے سلسلہ علایہ قادریہ میں بیعت کی۔ والد ماجد ؒ کی ہدایت و بشارت کے مطابق پیر صاحب نے آپ کو خلافت عطافرمائی ۔

تحریک پاکستان :

آپ نے علماء اہل سنت کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس ۱۹۴۶ء میں شعبہ نشرو اشاعت کے سیکریٹری رہے۔ اور کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے پورے ہندوستان کا دورہ کیا بڑے بڑے جلسوں میں خطاب کر کے سنی کانفرنس کی کدعوت اور مسلمانوں کے لئے ایک آزاد مملکت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

مجاہد ملت علامہ عبدالحامد بدایونیؒ کی رفاقت میں مختلف صوبوں میں جاکر پاکستان کیلئے لوگوں کو قائل کرنا اور بلند عزم کے ساتھ تحریک چلانا انہیں کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔

پاکستان میں قیام :

مولانا سید عبدالسلام اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے مرکزی شہر کراچی تشریف لائے جب پاکستان میں جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی صدر مجاہد ملت حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی منتخب ہوئے اور اس کے ساتھ ناصر اسلام خطیب اہل سنت پیر طریقت مولانا سید عبدالسلام قادری نائب صدر منتخب ہوئے۔ آپ نے نائب صدر کی حیثیت سے ملک و ملت کی دینی و سیاسی خدمات انجام دیں ۔

خطابت:

 ان کے دل میں عشق رسولﷺ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو اتھا ۔ اس لئے ان کی تقریر میں چاشنی عشق اور درد تھا ۔ تقریر کے دوران لوگوں کو ر لا دیتے تھے ۔ دوسری بات یہ کہ نعت خوانی میں اپنے وقت میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ اتنی خوبصورت خوش لحن آواز تھی کہ لوگ مسحور ، مسرور اور روح پرور لمحات میں گم ہو جاتے تھے ۔ کلکتہ ، بمبئی ، مدارس ، کانپور ، سی پی برار جبلپور ، ریوا ( انڈیا ) کراچی، حیدرآباد نواب شاہ ، سکھر ، راولپنڈی ، لاہور ،ملتان ، کوئٹہ ، وغیرہ مقامات پر اپنی تقریر کالوہا منوایا۔

پاکستان بننے کے بعد کراچی کی مرکزی جامع مسجد نیو میمن ( بولٹن مارکیٹ) کے پہلے خطیب مقرر ہوئے ۔ کافی عرصہ کے بعد میمن مسجد کے سامنے سینما تعمیر ہونے لگا توحضرت کو معلوم ہوا آپ نے جمعہ کے خطاب میں پر جوش و ولولہ انگیز خطاب کیا فرمایا:مسجد کے سامنے سینما بنانا مسجد کا مقابلہ کرنا ہے مسجد اللہ عزوجل کا گھر ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے گھر کا مقابلہ کریں گے وہ نیست و نابو د ہو جائیں گے ‘‘۔ اس طرح مسجد کے سامنے فتنہ ختم ہو گیا ۔ اس جگہ اب لیاقت مارکیٹ موجود ہے ۔اس کا مطلب آپ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا بھر پور جذبہ رکھتے تھے اور اعلاء کلمۃالحق کہنے میں ڈرنے والے نہیں تھے بلکہ اعلانیہ حق فرما دیتے تھے ۔ اسی طرح وہابی، دیوبندی ، تبلیغی ، مودودی، قادیانی ، شیعہ ، پرویزی اور غیر مقلدوں کا شدید رد فرماتے اور ان کے باطل عقائد پر سخت گرفت فرماتے تھے ۔

خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی آپ کے فن خطابت سے بہت متاثر تھے اس لیے اکثر ااپ کے پاس حاضر ہوتے اور فن خطابت سے فیض یاب ہوتے ۔ نیو میمن مسجد کے علاوہ ملیر کینٹ کی چھاوٗنی مسجد اور کینٹ اسٹیشن کی مسجد غریب نواز میں خطابت کے امور انجام دیئے ۔

تحریک ختم نبوت :

آپ نے تحریک ختم نبوت میں علماء اہل سنت کے ساتھ بھر پور کردار ادا کیا ، قادیانیوں کو کا فر قرار دیا اور بڑے بڑے جلسوں میں ان کے عقائد باطلہ کی خوب خبر لی ، ان کے باطل عقائد و نظریات مکرو فریب شرارت و سازش کی بیخ کنی کی ۔ عوام الناس کو قادیانیت کے خلاف متحد و منظم کیا تاکہ وہ ان کی ہر سازش کونا کارہ بنائیں اور منہ توڑ جواب دیں ۔

سفر حرمین شریفین :

آپ سات بار حج بیت اللہ اور روضہ رسول مقبول کی حاضری سے بار یاب ہوئے ۔ ایک بار حج کیلئے قرعہ اندازی میں نام نہ آیا تو بے حد مغموم ہوئے اور حج آفیسر سے تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ اور فرمایا:’’میں جاکے رہوں گا ۔ کوئی مجھے روک نہیں سکتا ‘‘۔ یہ الفاظ اطمینان یقین اور بھروسہ سے کہے ۔ رات ہوئی ایک نعت قلب کی گہرائی ، درد ، الفت اور تڑپ کے ساتھ یوں لکھی :

سوتے کوئے مصطفی کو میرا دل ہوا روانہ

تو یقین ہے بلا شک کہ میرا بھی ہوگا جانا

نہ رکاوٹیں رہیں گی نہ یہ مشکلیں رہیں گی

یہ مٹے گی ایک دم میں انہیں ہوگا جب بلانا

بہرحال اچانک ہی حاجی کیمپ میں نام کا اعلان ہوایوں آپ حج کو رواں دواں ہوئے ۔ ایک مرتبہ سفر حج میں آپ کے چھوٹے صاحبزادے سید منظور الاسلام قادری بھی ساتھ تھے ۔ دوران سفر جہاز سفینہ حجاج درمیان سمندر میں تغیانی او ر طوفانی ہواوٗ ں اور موجوں کی زد میں آکر ڈوبنے لگا۔ تمام لوگ خوف و ہر اس میں مبتلا ہو گئے ۔ اس وقت آپ جہاز کے کپتان کے پاس گئے اور انہیں اطلاع دی اور جہاز کے چاروں سمت اذانیں دلائیں ۔ اور پھر جہاز کے عرشہ میں محفل میلاد پاک منعقد کی اور پوری رات محفل میں نعت خوانی ذکر رسول پاک ﷺ ہوتا رہا ۔ بعد نماز فجر صلوۃ و سلام پڑھا گیا تو ایسا محسوس ہوا کہ طوفان عاجز ہو کر خوف سے بھاگ رہا ہے اور ایک دم سمندر میںٹہراوٗ پیدا ہوا اور یوں طوفان ٹل گیا ۔

غوث اعظم سے عقیدت :

آپ کو سر کار غوث اعظم ، قطب ربانی ، محبوب سبحانی ، مرشد حقانی ، شیخ محی الدین ابو محمد سید عبدالقادر جیلا نی قدس سرہ الاقدس سے نہایت عقیدت تھی ۔ آپ نے تین چا ربار بغداد شریف جاکر درگاہ غوثیہ قادریہ میں حاضری دی۔ ۱۳۸۲ھ؍۱۹۶۲ء میں سفر اختیار کیا۔ ا س کی روئد اد خود رقم فرماتے ہیں :’’ممالک اسلامیہ یعنی بحرین ، الخبر ، ریاض سے ہوتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا ، کراچی سے بحرین بحری جہاز سے ۱۱۰روپیہ مع خوراک ، بحرین ، سے بذریعہ ٹیکسی مکہ پہنچا ۔ حج ادا کیا اس کے بعد مدینہ طیبہ دربار و دربار مدنی تاجدار ﷺ میں والہانہ حاضری دی ۔ سبز گنبد دیکھ کر دل بھر آیا بموجب اشعار ذیل کیفیت ہوئی ۔

دل یہ کہکتا ہے مچل کر سبز گنبد دیکھ کر

ہوتا میں قربان تڑپ کر سبز گنبد دیکھ کر

یاالہی ایسی ساعت بھی میسر ہو کبھی

جان رہ جائے نکل کر سبز گنبد دیکھ کر

مستحق ہوں گے سفاعت کے قیامت میں ضرور

زائران قبر اطہر سبز گنبد دیکھ کر

مدینہ طیبہ سے تبوک ہوتا ہوا اعمان پہنچا ۔ عمان سے بیت المقدس حاضر ہوا ۔ سبحان اللہ !قبلہ اول معراجی دولہا نے شب معراج جہاں انبیاء کی امامت کی ، جہاں سے عرش معلی کو گئے ۔ یہاں اہم مقامات کی زیارت کر کے عمان پہنچے وہا ں سے دمشق حاضر ہوا ۔ ملک شام کو بھی اللہ نے بڑا شرف بخشا ہے یہاں بھی اہم مقامات کی زیارت کی خصوصا محمد صالح صاحب کہ جن کا پاوٗ ں سات سو برس سے مزار شریف کے باہر نکلا ہوا ہے جس کی زیارت سے مشرف ہو کر فیوض روحانی حاصل ہو گیا ۔ دمشق سے حلب بس سے ، حلب سے ریل میں بغداد شریف پہنچے ۔ ( عراق کی تمام اہم زیارات مقدسہ کی حاضری دی )۔ بغداد میں دوبارہ حاضری کی فقیر کو سعادت حاصل ہوئی ۔ ۱۳۸۰ھ کی حاضری میں حضور پاک نے جیسا کرم اور دستگیر ی فرمائی وہ ’’سفر نامہ بغداد ‘‘ میں لکھ چکا ہوں ۔ بہر حال عطا یائے غوثیہ سے مالا مال ہو کر فائز المرام ہو کر جو منقبت سر کار غوث اعظم میں لکھی تھی مندرجہ ذیل ہے:

تمہارا ہے سہارا غوث اعظم

میں بردہ ہوں تمہارا غوث اعظم

اغثنی یا غیاث المتقین

مدد کیجئے خدارا غوث اعظم

مدد کے واسطے آتے ہو فورا

تمھیں جس نے پکارا غوث اعظم

ابھی غم ہوں مرے کا فور دم میں

اگر کر دو اشارا غوث اعظم

خدا شاہد مری بگڑی بنا کر

تمہیں نے ہے سنوارا غوث اعظم

ہزاروں چھوڑ کر صرف ایک میں نے

لیا ہے در تمہارا غوث اعظم

’’سلام‘‘ قادری کی لاج رکھ لو

پھرے کیوں مارا مارا غوث اعظم

(دربارغوث اعظم بشمولہ کلام غوث الانام مطبوعہ ۱۳۸۱ھ کراچی)

تصنیف و تالیف :

آپ نے حالات کے پیش نظر بہت ساری کتابیں ، رسائل و کتا بچے تحریر فرمائے ان میں سے بعض کے اسماء در ج ذیل ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنے والد گرامی قدر کے نام سے منسوب ایک تنظیم ’’انجمن امانت الاسلام کراچی ‘‘ قائم فرمائی جس کے تحت مختلف موضوعات پر اپنی اور دیگر علماء کی کتابیں و کتا بچے بھی شائع کئے ۔

٭     ترجمہ انیس الجلیس ۔ از: امام جلال الدین سیوطی طبع دوئم ضیاء الدین پبلیکشنز کراچی ۱۹۸۸ء

٭     کلام غوث الانام (فارسی ) شان غوث اعظم دستگیر مطبوعہ انجمن امانت الاسلام کراچی ۱۳۸۱ھ

٭     فیوض امانت گلشن معانی معرفت              مطبوعہ انجمن امانت الاسلام کراچی ۱۳۶۱ھ

٭     میلاد سلام تذکرہ خیر الانام          مطبوعہ انجمن امانت الاسلام کراچی ۱۳۷۴ھ

٭     معین الحجاج والزائرین                     مطبوعہ انجمن امانت الاسلام کراچی ۱۳۸۵ھ ؍۱۹۶۵ء

٭     میلاد انیس الخواتین                        مطبوعہ انجمن امانت الاسلام کراچی

٭     دیوان سلام قادری                       مطبوعہ انجمن امانت الاسلام کراچی ۱۳۸۰ھ

٭     عمادالدین                               مطبوعہ انجمن امانت الاسلام کراچی ۱۹۴۵ء

٭     مرقع شہادت۔ از : ضیاء القادری طبع اول ۱۳۶۰ھ ، طبع دوم انجمن امانت الاسلام کراچی ۱۹۵۱ء

٭     آئینہ صداقت ۔ پیام و سلام ۔ فضائل و احکام جہاد ۱۹۵۱ء ۔ خلد خیال سلام ۔ غم نامہ درد دل وغیرہ

شادی و اولاد :

آپ کی شادی اپنے خاندان میں سیدہ ام نوری سے ہوئی جن کے بطن سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تولد ہوئیں ۔

۱۔      مولانا سید نور الاسلام قادری              

۲۔      سید منظور الا سلام قادری

وصال :

 حضرت مولانا سید عبدالسلام قادری عارضہ قلب میں تین سال سے متبلا تھے ۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ بات نہ کریں صرف آرام فرمائیں لیکن دل تو تھا عشق مصطفی ﷺ میں سر شار اس لئے یہ عاشق اپنے محبوب کے ذکر محفل میلاد اور نعت خوانی سے کب رکنے والے تھے۔

عین وصال کے روز دوپہر میں آپ کے خلیفہ صوفی نفاست حسن صاحب آئے تو آپ نے برجستہ فرمایا ’’میں آج جارہا ہوں‘‘ اور وصیتیں فرمائیں ۔ صوفی صاحب چلے گئے ۔ اسی دن بروز ہفتہ ۶ ، جنوری ۱۹۶۸ء بمطابق ۱۳۸۷ھ شام ۴ بجے ۶۳سال کی عمر میں انتقال فر ما گئے ۔

دوسرے روز تقریبا ۲۴ گھنٹہ بعد تدفین ہوئی ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ’’ سو رہے ہیں ‘‘۔ آپ کی مزار شریف پاپوش نگر قبرستان ناظم آبادی کراچی میں واقع ہے۔ (حوالہ جات کے علاوہ موا دمحترم مولانا پیر سید نور الاسلام قادری صاحب نے محترم مولانا حافظ محمد عبدالکریم قادری رضوی کے زریعہ عنایت فرمایا جن کی عمر اس وقت اسی (۸۰) برس ہے)

حضرت صابر براری نے قطعہ تاریخ وصال کہا :

دارفانی سے ہوئے وہ راہی ارض بقا

مدح گوئے اہل بیت و واعظ شیریں کلام

تھا مبارک اہل سنت کے لئے ان کا وجود

اتباع سرور کونین تھا ان کا پیام

’’ناصر الاسلام‘‘ کا پایا تھا حضرت نے لقب

عالمان دین حق کرتے تھے ان کا احترام

یاد آتے ہی رہیں گے ان کے الطاف و کرم

فیض و شفقت سے نوازا آپ نے سب کو مدام

ہاتف غیبی نے صابر سال رحلت یہ کہا

آہ مرد نیک واعظ مولوی عبدالسلام

۱۹۶۸ء

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

تجویزوآراء