مولانا سید ایوب علی رضوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: سید ایوب علی رضوی۔ لقب: عاشقِ اعلیٰ حضرت،مخدومِ ملت،فدائے رضویت۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: مولانا سید ایوب علی رضوی بن سید شجاعت علی بن سید تراب علی بن سید ببر علی (علیہم الرحمہ)۔
تاریخِ ولادت: آپ علیہ الرحمہ 1295ھ،مطابق 1875ء کو "بریلی شریف"(انڈیا) میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم بریلی میں حاصل کی،مڈل تک اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فارسی کےقواعد سیکھے ، کچھ عرصہ اسلامیہ سکول بریلی میں پڑھاتے رہے ، پھر جب اعلیٰ حضر ت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی قدس سرہ سے بیعت کا شرف حاصل ہو ا تو اپنے آپ کو بارگاہ رضویت کے لئے وقف کر دیا ۔لکھائی کا جو کام آ پ کے سپر دکیا جاتا اسے احسن اہتمام سے انجام دیتے ، رمضان شریف میں سحری اور افطاری کے نقشے مرتب فرماتے ، دیگر علوم کے علاوہ "ریاضی"میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے خوب خوب استفادہ کیا۔ آپ کی ریاضی میں مہارت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر ضیاء الدین مرحوم جوکہ "یورپ" کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے،اور ریاضی میں ڈاکٹریٹ کیاتھا۔ جب ایک مسئلے کے حل کےلئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے،تومولانا سید ایوب علی رضوی علیہ الرحمہ ڈاکٹر ضیاء الدین ، وائس چانسلر مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ کے بریلی شریف حاضر ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"کہ کسور اعشاریہ متوالیہ کی قوت کا تذکرہ آیا ،ڈاکٹر صاحب نے بھی وہی فرمایا کہ تیسری قوت تک ہے ، اس پر حضور (اعلیٰ حضرت قدس سرہ ) نے میرے (مولانا سید ایوب علی رضوی ) اور میرے برادرقناعت علی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میرے یہ دو بچے بیٹھے ہیں ،انہیں جس قوت کا آپ سوال دے دیں یہ حل کر دیں گے ، ڈاکٹر صاحب متحیر ہو کر ہم دونوں کو دیکھنے لگے"۔
بیعت وخلافت: آپ علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت کے دستِ اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت واجازت سے مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: خادمِ اعلیٰ حضرت،مخدومِ اہلِ سنت،فدائے رضویت،حامیِ سنیت،دافعِ وہابیت ونجدیت،عالمِ کتاب وسنت حضرت علامہ مولانا سید ایوب علی رضوی رحمۃ اللہ علیہ۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے تقویٰ وپرہیزگاری،اوردینِ اسلام کی خدمت سے متاثرہوکر اپنے آپ کو"وقف بارگاہِ رضویت"کردیاتھا۔اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت کی صحبت کااثرتھا کہ آپ بھی بہت متقی وپرہیزگارتھے۔
سید صاحب کر بلائے معلی، بغداد شریف ، نجف اشرف اور بصرہ میں بزرگان دین کے مزارات پر حاضری سے مشرف ہوئے ۔ تین فعہ حج و زیارت کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے ۔اڑھائی سال تک مدینہ طیبہ میں قیام پذیر رہے ۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے وصال کے دو سال بعد بریلی شریف میں رضوی کتب خانہ قائم کیا اور اعلیٰ حضرت کے متعدد رسائل شائع کئے ۔ امام احمد رضا قدس سرہ کے وصال کے بعد ان کے سوانح حیات مرتب کرنے کی تحریک آپ ہی نے شروع کی تھی ۔" حیات اعلیٰ حضرت "مؤ لفہ ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری قدس سرہ کے اکثر و بیشتر واقعات آپ ہی کی روایت پر مبنی ہیں ۔ مولانا ظفر الدین بہاری لکھتے ہیں :"ہم رضویوں کو جناب حاجی مولوی سید ایوب علی صاحب رضوی بریلوی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس کی طرف سب سے پہلے توجہ فرمائی اور برادران طریقت کو توجہ دلائی ۔ ان کی تحریک سے بعض احباب نے کچھ حالات ان کے پاس لکھ بھیجے اور زیادہ حصہ خود سید صاحب مو صوف نے لکھا ۔ جب ان کو میرے حیات اعلیٰ حضرت لکھنے کی خبر ہوئی تو جوکچھ موادان کےپاس تھا ، سب مجھے عنایت فرمادیا "۔
مولانا سید ایوب علی رضوی ،اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے فیض صحبت سے حد درجہ متاثر تھے ، تقویٰ و پرہیز گاری میں اپنی مثال آ پ تھے، معاملات اس قدر محتاط تھے کہ جب تک ایک ایک پیسے کا حساب نہ چکا دیتے ، مطمئن نہ ہوتے۔ 1370ھ1950ء میں پاکستان آکر لاہور میں قیام پذیر ہو گئے ۔ یہاں بھی "رضوی کتب خانہ" قائم کر کے متعد در سائل شائع کئے ۔
قدرت نے آپ کو شعر وسخن کاپاکیزہ ذوق عطاکیا تھا۔حمدونعت اورمنقبت ایسے محبوب موضوعات پرعام فہم اور دلنشیں انداز میں اظہار خیال کیا کرتے تھے ۔مجموعۂ کلام" باغ فردوس" کے نام سے ہے۔ اس کے علاوہ "شقاوۃ النجدیہ علیٰ دیار القدسیۃ العربیہ "اور "رفیق زائرین " حجاج اور زائرین کے لئے ہدایت کا مجموعہ وغیرہ رسائل بھی آپ نے تحریرفرمائے۔
تاریخِ وصال: بروزجمعۃ الوداع 26/رمضان المبار 1390ھ،مطابق 26/نومبر 1970ء کو آپ کاوصال ہوا۔آپ کی تدفین "قبرستان میانی صاحب" لاہور میں ہوئی۔
ماخذمراجع: تذکرہ اکابرِ اہلسنت۔