حضرت شاہ حمزہ عینی قادری مارہروی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: سید شاہ حمزہ عینی قادری مارہروی۔ لقب: اسد العارفین، قطب الکاملین۔
تخلص: عینی۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: حضرت شاہ حمزہ مارہروی بن سید شاہ آل محمدبن صاحب البرکات سید شاہ برکت اللہ مارہروی بن سید شاہ اویس بلگرامی بن سید شاہ عبد الجلیل بلگرامی بن سید میر عبدالواحد بلگرامی۔الیٰ آخرہ۔()
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 14؍ ربیع الثانی 1131ھ مطابق مارچ؍1719ء کو مارہرہ مطہرہ (ہند) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نےاپنے والدِ گرامی کی خدمت میں جملہ علوم ِ ظاہری و باطنی کی تکمیل کی۔والد گرامی کےعلاوہ شمس العلماء حضرت مولانا محمد باقر سے مختلف علوم و فنون کی تحصیل فرمائی، فنِ طب حکیم عطاء اللہ صاحب مرحوم،اور شیخ ڈھڈھالاہوری سے بھی متعدد درسیات کتب حاصل فرمائی۔ (تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:351)
بیعت و خلافت: اپنے والد گرامی حضرت سید شاہ آلِ محمد سے بیعت ہوئے،اور منازلِ سلوک طے کرنےکےبعد خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔
سیرت و خصائص: اسد العارفین، قطب الکاملین،حجۃ الواصلین،سند الصالحین،مجمع البحرین،نجیب الطریقین، حضرت سید شاہ حمزہ مارہروی۔ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کےپینتیسویں امام اور شیخِ طریقت ہیں۔آپ علم و فضل میں یکتا، مایہ ناز مصنف،عدیم النظیر صوفی،اور باکرامت اولیاء اللہ میں سے تھے۔آپ نہایت ہی ذہین و فطین تھے۔گیارہ سال کی مدت میں اپنے جدِ امجد حضرت سید شاہ برکت اللہ کی تربیت میں رہ کر فیوض و برکات حاصل کیے۔حضرت شاہ برکت اللہ نےاپنی کلاہ مبارک آپ کےسرپر چار سال کی عمر ہی میں رکھ دیا تھا۔اسی طرح آپ کو مطالعے کا خاص ذوق تھا۔بالخصوص حضرت شیخ ِاکبر کی کتب سے تو خصوصی شغف تھا۔خاص خدام کو ان کادرس دیتے۔آپ کی جلالتِ شانِ آپ کی تصنیفات و تالیفات خصوصاً ’’فص الکلمات‘‘ سے بآسانی مل سکتا ہے۔اس کتاب کی شان نرالی ہے۔دیگر تمام کتب سے بےنیاز کردیتی ہے۔
اللہ ﷻ نے آپ کو خصوصی کمالات عطاء فرمائے تھے۔جو ایک شخصیت میں بہت کم موجود ہوتے ہیں۔جب مسائل پر گفتگو فرماتے، تو معلوم ہوتا فقیہ العصر ہیں، اور کبھی ایک شیخ عارف ہیں کہ ہزاروں بندگان ِ خدا آپ سے فیض یاب ہورہےہیں۔کبھی ایک مسیحا طبیب ہیں کہ صدہا مریض شفاءیاب ہورہے ہیں۔کبھی ایک کریم دریا دل سخی کہ سائلوں کی تلاش میں مستغرق ہیں، کبھی ایک مدبر شجاع کہ بڑے بڑے عقلاء و سیاستدان امورِ مشکلہ میں حضور والا سے تدابیر پوچھ رہے ہیں۔بادشاہ و وزراء درِ دولت پر حاضر ہیں، اور امورِ سلطنت حل فرمارہے ہیں۔پھر ہرشان میں وحدت و عینیت ہویدا تھی ۔حضرت کی ذات شریف دنیا و دین، فقر وشہنشاہی،شریعت و طریقت ، معرفت و حقیقت کی جامع تھی۔دس سال کی عمر شریف سے نمازِ تہجد شروع فرمائی تو وصال شریف تک کبھی قضاء نہ ہوئی۔اشاعتِ اسلام اور اصلاحِ مسلمین آپ کاخاص وصف تھا۔آپ کی زندگی اسلام اور مسلمین کےلئے وقف تھی۔ہمہ وقت عبادت و ریاضت میں مصروف نظر آتے،یا وعظ وتلقین،یا امورِ مسلمین میں۔
مولا علی کی زیارت: آپنہایت ہی منکسرالمزاج اور با اخلاق شخصیت کےحامل تھے۔تکبر،تصنع،ریاء،عالی نسب و منصب کا شائبہ تک کبھی نہیں گزرا۔آپ فرماتے ہیں: ’’ایک روز فقیر کو خیال آیاکہ نسبتِ ظنی سے سیادت ساداتِ بلگرام مشہور و مسلم ہے،لیکن یقین و وثوق نہیں، جیسے ہی یہ خیال آیا کہ فوراً دیکھتا ہوں کہ حضور مولی المسلمین، امیر المؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم تشریف فرماہیں،اور دونوں بازو چوکھٹ سنگی کےجو خانقاہ برکاتیہ میں نصب ہے ،تھامے کھڑے ہیں،اور ارشاد فرماتے ہیں کہ’’تم ہمارے بیٹے ہو،اور پیارے بیٹے ہو‘‘۔(ایضا: 352)
جود و سخا: آپ جود و سخا،بخشش و عطاء میں یگانہ روزگار تھے۔اپنے والد ماجد کےعرس شریف میں مہمانوں کی خاطر داری کی ایک ایسی مثال قائم کی کہ اپنے وقت کا شہنشاہ بھی ایسی پرتکلف دعوت شاید ہی کرسکے۔عرس مبارک میں مہمانوں کےلئے سو سےزیادہ انواع کےکھانوں سےمہمانوں کی تواضع فرماتے،اور پھر اس میں تخفیف کردی تھی،پھر بھی مہمانوں کو پچیس اقسام کےکھانے ہرسال برابر تقسیم ہوتےتھے۔اس میں شاہ و گدا کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔
شانِ بے نیازی: حضرت قطب الکاملین سید شاہ حمزہ کی ذات اپنے اسلاف کی آئینہ دار تھی، اور بڑے بڑے امراء و سلاطین ِ وقت اپنے خدام و فوج کےساتھ آپ کی خدمت میں مارہرہ شریف حاضر ہوتے،کئی دن خانقاہ میں قیام کرتے،اور انواع و اقسام کے کھانوں سےان لوگوں کی مہمان نوازی کی جاتی۔مگر حضرت کبھی بھی ان لوگوں کو باریابی کی اجازت نہیں دیتے تھے،اور آپ کےمعمولات میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا تھا۔
زیارتِ سرکارِ دوعالمﷺ: ایک باکمال درویش نے آپ کی خدمت مبارکہ میں ایک درود شریف نذر کیا۔ حضرت نے اسے پسند فرما کر رکھ لیا۔ اِسی شب میں حضور ِاقدس ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔آپﷺنےفرمایا : ’’صاحبزادے اٹھو !اور درود شریف پڑھو ‘‘۔آپ بیدار ہوئے،غسل فرمایا، عطر لگایا،بخور وغیرہ روشن کئے اور اس درود شریف کا ورد شروع کردیا ۔ابھی درود شریف ختم بھی نہ کیا تھاکہ زیارتِ سرور کونین ﷺسے مشرف ہوئے اور آپ نے سر کی آنکھوں سے نبی کریمﷺکا دیدار کیا۔ آپ تعظیماً کھڑے ہوگئے اور درود شریف کے بقیہ اعداد پورے کئے۔ درودشریف تمام ہونے تک آقا ئے دوعالم ﷺ آپ کے پاس تشریف فرما رہے ۔مذکورہ درویش کا نام مولانا محمد مکرم مرید شاہ پشاوری ہےجو 1174ھ کو احمد شاہ درانی کےساتھ ہندوستان آئے تھے۔ (ایضا: 353)
علمی و تصنیفی خدمات: آپکو مطالعے کاخاص ذوق تھا،اور جوکتابیں مطالعہ فرماتے اول سےآخر تک دیکھتے،اور پسندیدہ فوائد اس کےاول یا آخریا اس پر حاشیہ تحریرفرمادیتے۔آپ کےکتب خانہ میں مختلف علوم و فنون کی کتب جمع تھیں۔جن کی تعداد سولہ ہزار کےقریب تھی۔نادر و نایاب کتب کی کتابت خود کرتے،یاکسی کاتب سےکرواکر کتب خانہ میں داخل کردیتے۔اسی طرح اللہ جل شانہ نے آپ کو ذوقِ شاعری بھی عمدہ عطاء فرمایا تھا۔آپ کےاکثر اشعار فارسی اور اردومیں ملتے ہیں۔مشہورزمانہ منقبت ’’ غوث اعظم بمن بے سرو ساماں مددے۔۔۔قبلۂ دیں مددے کعبۂ ایماں مددے ‘‘یہ منقبت آپ کی ہے۔ آپ کو تصنیف و تالیف سے خاص شغف تھا۔1کاشف الاستار۔ 2فص الکلمات۔یہ کتاب تمام علوم و فنون کی جامع ہے۔3مثنوی اتفاقیہ۔4قصیدہ گوہربار۔5 رسالہ عقائد۔وہابیوں نےایک کتاب’’خزینۃ الاولیاء‘‘ گھڑ کرآپ کی طرف منسوب کردی۔اس سے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔یہ کتاب آپ کی ہرگز نہیں ہے۔(فتاویٰ رضویہ؛جلد 29،ص، 68)
اولاد و خلفاء: آپ کی پانچ اولادیں ہوئیں۔شاہ آل احمد اچھے میاں، شاہ برکات ستھرے میاں، شاہ آل حسین سچے میاں، سید علی ان کاوصال بچپن میں ہی ہوگیا تھا،اور ایک صاحبزادی تھی۔۔آپ کےخلفاءِ کرام کی تعداداکتیس ہے۔اکثر خلفاءِ کرام سے سلسلہ جاری ہے۔
تاریخِ وصال: 14؍ محرم الحرام 1198ھ مطابق10؍دسمبر1783ء، بروز بدھ، بعد نماز مغرب واصل باللہ ہوئے۔
//php } ?>