حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی ضیائی
حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی ضیائی (تذکرہ / سوانح)
مختصر حالات:
جمیل العلماء جمیلِ ملّت اُستاذ العلما حضرت علّامہ مولانا
جمیل احمد نعیمی ضیائی دامت برکاتھم العالیۃ
تحریر: صاحبزادہ فیض الرسول نورانی
ولادت:
حضرت علامہ جمیل احمد نعیمی دامت برکاتہم عالیہ کے بزرگوں کا آبائی علاقہ سہارن پور ہے اور سہارن پور سے آپ کے بزرگوں نے انبالہ جو کہ مشرقی پنجاب انڈیا کا شہر ہے اس کا رخ کیا اور۱۲؍ فروری ۱۹۳۶ء کو آپ کی ولادت ہوئی۔
تعلیمی تربیت:
جمیل العلماء علامہ جمیل احمد نعیمی نے چار سال کی عمر میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ور ناظرہ قرآن پاک پانی پت کے مشہور قاری استاذ القرا حضرت علامہ قاری محمد اسماعیل صاحب سے پڑھا۔ دنیوی تعلیم پرائمری تک ہندوستان میں حاصل کی۔ آپ نے انڈر میٹرک تک تعلیم حاصل کی بعض میں نا مساعد حالات کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور دنیوی تعلیم انڈر میٹرک تک ہی حاصل کی۔
دینی تعلیم میں آپ نے جن جن نامور اساتذہ کرام سے شرف تلمذ حاصل کیا ان میں حضرت علامہ مولانا محمد وارث چشتی، حضرت مولانا مسعود احمد چشتی، مولانا قاضی محمد زین العابدین نقشبندی، حضرت مولانا محمد ارشاد صاحب (جو بھارت کے شہر جاندھر کے رہنے والے تھے اور آتش کے نام سے مشہور تھے) آپ کا یہ تعلیمی سلسلہ 1942ء سے 1952ء سے لے کر 1960ء تک آپ نے تاج العلماء مولانا مفتی عمر نعیمی اشرفی سے حاصل کی۔ آج بھی حضرت اپنی ہر مجلس میں دوران گفتگو حضرت تاج العلما کا تذکرہ ضرور فرماتے ہیں۔
دستارِ فضیلت:
آرام باغ کراچی میں جون 1960ء میں حضرت جمیل العلما کو سند فراغت عطا کی گئی اور آپ کی دستارِ فضیلت کی مجلس انعقاد پذیر ہوئی۔ اس مجلس میں عالم اسلام کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی جن میں غزالی زماں رازی دوراں حضرت علامہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مشہور مصنف مترجم حضرت علامہ مولانا سیّد غلام معین الدین نعیمی، حضرت مولانا ضیا القادری بدایونی، حضرت مولانا سیّد عبدالسلام صاحب باندوی یہ مشہور شاعر ہیں۔ حضرت کے استاذ محترم تاج العلما مولانا محمد عمر نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اور اس وقت کے سفیر عراق پیر عبدالقادر نے شرکت کی۔
بیعت و خلافت:
آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت مولانا شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی کے نامور خلیفہ قطب مدینہ حضرت ضیاالدین مدنی کے دستِ حق پر بیعت ہوئے اور آپ کو آپ کے سسر محترم مولانا مسعود احمد چشتی نے بھی خلافت عطا فرمائی(رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم)۔
حج و زیارت:
حضرت جمیل العلما دامت برکاتہم عالیۃ کو 1963ء میں پہلی مرتبہ حج بیت اللہ شریف کی حاضری نصیب ہوئی۔ 1980ء میں دوسری مرتبہ حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کی اور گیارہ مرتبہ عمرہ کی صورتیں روضہ رسول ﷺ کی حاضری نصیب ہو چکی ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جا رہی ہے۔
تدریسی خدمات:
علامہ اسلامیہ عربیہ سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ دارلعلوم محزن عربیہ اور دارالعلوم مظہریہ آرام باغ کراچی میں تدریسی خدمات سر انجام دی۔ اس کے بعد دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں تدریسی خدمات شروع کر دیں آپ کا شمار دارالعلوم نعیمیہ کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ اس وقت دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے ٹرسٹی ہونے کے ساتھ ساتھ استاذ الحدیث اور ناظم تعلیمات کے عہدے پر فائز ہیں۔
آپ کے چند مشہور و ناموَر تلامذہ:
استاذ العلماء جمیل ملت علامہ جمیل احمد نعیمی ضیائی کے علم و فضل کی شہرت شرق و غرب تک پھیلی ہوئی ہے ہزاروں تشنگان علم و فیض آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر علم کی پیاس بجھاتے رہے ہیں۔ آپ کے ذریعے اللہ تعالٰی نے ہزاروں دلوں کے اندر جذبہ عشق رسول ﷺ موجزن کیا۔ 1960ء جو طلبہ دورہ حدیث شریف حضرت تاج العلماء مفتی محمد عمر نعیمی سے پڑھتے تھے، وہ موقوف علیہ جمیل احمد نعیمی سے پڑھتے تھے، میں اختصاراً بعض نامور تلامذہ کا تذکرہ رہا ہوں۔
۱) علامہ مولانا احمد علی سعیدی (استاذ الحدیث مدرس دارالعلوم نعیمیہ کراچی)
۲) مولانا علی عمران صدیقی (مدرس دارالعلوم نعیمیہ کراچی)
۳) مولانا مفتی سیّدنا ناصر علی قادری (ٹرسٹی دارالعلوم نعیمیہ کراچی)
۴) مولانا سیّدنا نذیر حسین شاہ (مدرس دارالعلوم نعیمیہ کراچی)
۵) مولانا حافظ نعمت اللہ (لندن)
۶) مولانا فاروق چشتی (برطانیہ)
۷) مولانا عبداللہ سلطانی (برطانیہ)
۸) مولانا افضال نورانی (لاہور)
۹)مولانا غلام ربانی (برطانیہ)
۱۱) مولانا محمد نصیر اللہ نقشبندی (برطانیہ)
۱۲) مولانا سیّد قاسم حسین ہزاروی (مانسہرہ)
۱۳) مولانا حافظ رحیم بخش (بلوچستان)
۱۴) مولانا نور نبی (شاہ پور چا کر، نواب شاہ)
۱۵) مولانا محمد علی (جامعہ قمر الالسلام سلیمانیہ کراچی)
۱۶) مولانا حافظ مقبول الرحمٰن (آزاد کشمیر)
۱۷) مولانا صاجزادہ عبدالوحید (کنورشریف مظفر آباد آزاد کشمیر)
۱۸) مولانا محمد یونس (کراچی)
۱۹) صاجزادہ سیّد مسعود علی چشتی واحدی (کراچی)
۲۰) مولانا محمد ابراہیم (کراچی)
۲۱) مولانا محمد علی صاحب نوری (ملاوی افریقہ)
۲۲) مولانا محمد ساجد مکی (نیروبی)
۲۳) مولانا خیرالدین (مدینہ شریف)
۲۴) مولانا کمال الدین (مکہ مکرمہ)
۲۵) مولانا فضل الرحمٰن (مکہ مکرمہ)
۲۶) مولانا عبداللہ نورانی (کراچی)
۲۷) مولانا محمد رضا بلوچ (مسقط)
۲۸) مولانا محمدفیصل نورانی (ہالینڈ)
۲۹) مولانا محمد فارس نورانی (ہالینڈ)
۳۰) مولانا سیّد توقیر الاسلام قادری (سرینام، امریکہ)
۳۱) مولانا حافظ عبدالرشید (سرینام، امریکہ)
۳۲) مولانا غلام مصطفیٰ بیگ (آسٹریلیا)
۳۳) مولانا امروزدین (کینیڈا)
۳۴) مولانا گل شیر (آسٹریلیا)
۳۵) مولانا حیدر علی (ماریشش)
۳۶) مولانا کریم اللہ (ماریشش)
۳۷) مولانا محمد فیصل (افریقہ)
۳۸) مولانا محمد ناصر (افریقہ)
۳۹) مولانا عبدالمتین نعیمی (ضلع باغ، آزاد کشمیر)
۴۰) مولانا سیّد محمد علی (کراچی)
۴۱) مولانا منوّر احمد نورانی (کراچی)
۴۲) مولانا حماد رضا (خانقاہ اشرفیہ، کراچی)
۴۳) مولانا حکیم محمد اشرف جیلانی (مظفر آباد)
۴۴) مولانا عابد حسین نورانی (مظفر گڑھ)
۴۵) مولانا محمد امین اکرمی (تھر پارکر)
۴۶) مولانا محمد سلطان نعیمی (تھر پارکر)
۴۷) مولانا خضر الاسلام نقشبندی (کراچی)
۴۸) صاجزادہ نور العارفین نقشبندی (لندن)
۴۹) ڈاکٹر محمد عارف خان ساقی (کراچی)
۵۰) مولانا محمد ناصر خان چشتی (تونسہ شریف)
(۵۱) مولانا سیّد محمد صدّیق نعیمی نورانی (امام و خطیب جامعہ مسجد نظامیّہ، ناظم آباد نمبر 1، کراچی)
بحمد اللہ تعالیٰ راقم الحروف صاجزادہ فیض الرسول نورانی نے بھی اپنے ہم سفر احباب مولانا حافظ معین الدین نورانی، مولانا عبدالعزیز اور مولانا حافظ سیف اللہ ظہوری کے ہمراہ بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
بنگلہ دیش نا منظور تحریک میں آپ کا کردار:
1971ء میں جب مملکت خداداد پاکستان کو ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی وجہ سے دولخت ہونا پڑا، اس وقت بنگلہ دیش نا منظور کے عنوان سے تقاریر ہوئی ان میں علامہ جمیل احمد نعیمی نے اپنی تقاریر کے ذریعے حکمرانوں کی روش کی بھر پور مذمت کی۔
جہاد کشمیر میں لازوال کردار:
جب علمائے دیوبند نے اپنی ماضی کی تاریخ کو دہراتے ہوئے تحریک پاکستان کی مخالفت کے بعد قوم کو ایک اور فرسودہ نعرہ دیا کہ کشمیر میں جہاد نہیں فساد ہو رہا ہے اور یہ زمین کے ٹکڑے کی جنگ ہے تو علمائے اہلِ سنّت نے ان کے اس بے سردپا نعرے کا بھر پور توڑ کیا اور جہادِ کشمیر میں لازوال کردار ادا کیا۔ غازی کشمیر مفسر قرآن حضرت علامہ سیّد محمد ابو الحسنات قادری قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز، حضرت ضیائے ملت کشتہ عشقِ مصطفیٰ جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ کے والد بزگوار حضرت پیر محمد شاہ قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز اور قائد اہلِ سنّت امام الشاہ احمد نورانی صدیقی نے مسلمانانِ کشمیر کی ہر فورم پر بھر پور نمائندگی کی اور مظلوم کشمیریوں کی ترجمانی کا مالی اور اخلاقی لحاظ سے حق ادا کر دیا۔
1965ء میں جہاد کشمیر کے حوالے سے مجاہدین کی جو مالی اعانت علامہ جمیل احمد نعیمی نے کی ان کے اس کردار کو تاریخ میں سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ ستمبر 1965ء میں جب پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہوئی تو علامہ جمیل احمد نعیمی اور مفتی غلام قادر کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مجاہدِ ملت مولانا عبدالحامد قادری بدایونی علیہ الرحمہ کی قیادت میں چونڈہ اور کشمیر کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ اس وقت دس ہزار روپے نقد اور کشمیر سردار محمد ابراہیم خان کے حوالے کی اور خورد و نوش کا جو سامان آپ کراچی سے وہاں لے کر گئے تھے، مظفر آباد کی مرکزی جامع مسجد سلطانی میں اپنے ہاتھوں سے تقسیم کیا۔ آپ نے نہ صرف سامان تقسیم کیا بلکہ کشمیر کے فلک بوس پہاڑوں کا پیدل سفر کر کے آپ اپنے وعظ اور تبلیغ کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جذبہ جہاد پیدا کرتے رہے۔ تاریخ کشمیر میں علمائے اہلِ سنّت کا کردار آج بھی درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
جمعیت علمائے پاکستان کی تشکیلِ نو:
1970ء میں جب جمعیت علمائے پاکستان کے تمام گروپس ختم کر کے جمعیت علمائے پاکستان کی تشکیل نو کی گئی تو اس کے متفقہ صدر شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی منتخب کئے گئے اور اس کے ناظم اعلیٰ علامہ سیّد محمود احمد رضوی منتخب کئے گئے، اس کے مرکزی عہدے داروں میں علامہ جمیل احمد نعیمی جمعیت علمائے پاکستان کے صوبائی صدر اور جماعت اہلِ سنّت کے ناظم اعلیٰ رہے۔
1987ء کے بعد مرکزی نائب صدر منتخب کئے گئے اور 1995 تک رہے۔ قائد اہلِ سنّت اما الشاہ احمد نورانی نے علامہ جمیل احمد نعیمی کی سیاسی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 1970ء میں صوبائی اور 1988ء میں قومی اسمبلی کا ٹکٹ عنایت فرمایا۔ نیز آپ جمعیت علمائے پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ شوریٰ کے ممبر ہیں اور اس وقت جمعیت علمائے پاکستان کی مرکزی سپریم کونسل کے چیئرمین ہیں۔
(ماخوذ از ’’حیاتِ جمیل مع افکارِ جمیل‘‘، مؤلّفۂ صاحبزادہ فیض الرسول نورانی)
جمیل العلماء جمیلِ ملّت اُستاذ العلما
حضرت علّامہ مولانا جمیل احمد نعیمی ضیائی دامت برکاتھم العالیۃ
ایک نظر میں
حافظ معین الدین نورانی
تاریخ پیدائش: 1936
ابتدائی تعلیم: قرآن عظیم اور مڈل تک تعلیم کا عرصہ 1942 سے 1952
ہجرت: 1947 سے دہلی سے لاہور
کراچی آمد: 1949 سے مستقل کراچی قیام
تعلیم: 1952 سے 1960 تک درس نظامی کی تکمیل
* 1953 میں تحریک ختمِ نبوت میں زمانہ طالب علمی میں حصہ لیا
* 1956 سے سبز مسجد صرافہ بازار میں خطابت کا آغاز
* 1960 میں علماء کے جم غفیر میں دستار فضیلت
* 1960 میں جامعہ نعیمیہ مراد آباد تشریف لے گئے
* 1961 میں دیو دمن اور گواہ کا تین ماہ کا تبلیغی دورہ
* 1962 میں انجمن محبان اسلام کی تشکیل
* 1963 میں غلاف کعبہ لے کر مکہ مکرمہ حاضر ہوئے اور حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کی۔
* 1963 میں غلاف کعبہ لے کر مکہ مکرمہ حاضر ہوئے اور حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کی۔
* 1963 میں قائد اہلِ سنّت امام الشاہ احمد نورانی کی شادی میں شرکت
* 1965 میں جہاد کشمیر میں لازوال کردار
* 1965 میں پہلی مرتبہ شرعی تقاضوں کے عین مطابق جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس کی بنیاد رکھی۔
* 1966 میں جماعت اہلِ سنّت کی تشکیل کے موقع پر ناظم نشر و اشاعت کی ذمہ داریاں
* 1968 میں انجمن محبان اسلام کی کوکھ سے انجمن طلبائے اسلام نے جنم لیا۔
* 1969 میں مجلس عمل اہلِ سنّت کی تشکیل علامہ نعیمی سیکریٹری جنرل نامزد
* 1970 میں جمیعت علمائے پاکستان کے عہدے دار منتخب ہوئے۔
* 1970 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سنی کانفرنس اور سنی کانفرنس نشتر پارک کراچی میں ناظم نشرد اشاعت کی حیثیت سے خطاب
* 1971 میں بنگلہ دیش نا منظور تحریک میں سنہری کردار
* 1970 میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ
* 1971 سے 1972 تک جماعت اہلِ سنّت سندھ کے ناظم اعلیٰ رہے
* 1971 میں (مرکزی ناظم اعلیٰ جماعت اہلِ سنّت پاکستان) منتخب ہوئے
* 1973 میں ایام اسیری علامہ نعیمی کو جیل بھیج دیا گیا۔
* 1977 میں تحریک نظام مصطفیٰ ﷺ میں حصہ لیا۔
* 1978 میں سنی کانفرنس ملتان میں ناظم اعلیٰ جماعت اہلِ سنّت کی حیثیت سے شریک ہوئے
* 1981 میں سری لنکا کا تبلیغی دورہ
* 1982 ایران کا مطالعاتی دورہ
* 1983 جمیعت علمائے پاکستان صوبۂ سندھ کے صدر منتخب ہوئے۔
* 1984 میں انگلستان کا تبلیغی دورہ
* 1984 میں ملیر کراچی میں MQM کے غنڈوں کا قاتلانہ حملہ
* 1985 میں انجمن طلبا اسلام کی دعوت پر مظفر آباد آزاد کشمیر کے سالانہ کنونشن سے خطاب
* 1987 میں بغداد کا دورہ
* 1987 میں جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی نائب صدر منتخب
* 1988 میں قومی اسمبلی کی نشست پر امیدواری کی حیثیت سے حصہ
* 1988 میں رمضان المبارک میں مسجدِ غوثیہ میں MQM کے غنڈوؤں کا ایک اور قاتلانہ حملہ
* 1974 سے ۲۰۰۴ تک تنظیما لمدارس اہلِ سنّت پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ اور شوریٰ اور شعبہ امتحانات کے ممبر رہے۔
* 1997 میں ورلڈ اسلامک مشن کے ٹرسٹی مقرر ہوئے۔
* 1999 میں متحدہ عرب امارات کا تبلیغی دورہ
* 2000 میں دنیائے اہلِ سنّت کے عظیم قائدین امام الشاہ احمد نورانی، مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی اور مفکر اسلام سیّد شاہ فرید الحق سے حلف لیا۔
* 2001 دنیائے اہلِ سنّت کے عظیم مرکز منظر الاسلام بریلی کا دورہ
* 2001 مرکزی جماعت اہلِ سنّت کی سپریم کونسل کے رکن منتخب ہوئے
* 2006 میں صاجزادہ شاہ محمد انس نورانی صدیقی کو آپ کے فیصلے کی روشنی میں جے یو پی کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔
* 1975 سے 2008 تک دارالعلوم نعیمیہ میں استاذ الحدیث کے منصب پر فائز ہیں۔ نیز اس وقت علامہ نعیمی مرکزی جماعت اہلِ سنّت کی سپریم کونسل کے ممبر ہونے کے ساتھ جمیعت علمائے پاکستان کے اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کے رکن بھی ہیں۔ (ماخوذ از ’’حیاتِ جمیل مع افکارِ جمیل‘‘، مؤلّفۂ صاحبزادہ فیض الرسول نورانی)