حضرت فاضل نوجوان مولانا جمیل احمد نعیمی

حضرت فاضل نوجوان مولانا جمیل احمد نعیمی، کراچی علیہ الرحمۃ

مخدوم ملت حضت علامہ مولانا جمیل احمد نعیمی ولد جناب قادر بخش ذوالحجہ، فروری ۱۳۵۵ھ/ ۱۹۳۷ء میں انبالہ چھاؤنی مشرقی پنجاب (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد کا پیشہ تجارت ہے جبکہ بعض افرادِ خاندان ملازمت پیشہ ہیں اور بعض نے زمینداری بھی اختیار کی۔

علامہ نعیمی نے مڈل تک اُردو کی تعلیم حاصل کی۔ فارسی کی ابتدائی کتب مولانا ارشاد احمد  سے نفحۃ الیمن کے بعض اسباق مولانا قاضی زین العابدین سے اور بہار شریعت کے بعض حصے مولانا شاہ مسعود احمد دہلوی سے سبقاً سبقاً پڑھے۔

 باقی تمام کتب فنون اور  علمِ حدیث حضرت تاج العلماء مولانا محمد عمر نعیمی رحمہ اللہ سے پڑھ کر ۱۹۶۰ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔

فراغت کے بعد آپ کچھ عرصہ دارالعلوم مخزنِ عربیہ، دارالعلوم مظہریہ آرام باغ، دارالعلوم قادریہ، کراچی ہی کے ایک مسلم ہائی اسکول میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ ۱۹۵۶ء سےآ پ حضرت تاج العلماء رحمہ اللہ کے ارشاد کے مطابق سبز مسجد صرافہ میں خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ۱۹۷۴ء تک اسی مسجد میں آپ امامت بھی فرماتے رہے، لیکن بعد دارالعلوم نعیمیہ کی تعمیر و تدریس اور دیگر سماجی تبلیغی اور سیاسی مصروفیات کی بناء پر آپ امامت سے دست کش ہوگئے۔ آج کل آپ دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں علومِ عربیہ کی تدریس اور نظامت تعلیمات میں مصروف ہیں۔ آپ اس دارالعلوم کے بانی ارکان میں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ انجمن محبانِ اسلام، انجمن فدایان مصطفےٰ، انجمن غلامان مصطفےٰ اور بزم نعیمی کے آپ سرپرست ہیں۔

کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلام کے پردے  میں نجدیت اور مودودیت کے پرچار کی روک تھام کے لیے آپ نے طلباء اہل سنت کی ایک ملک گیر تنظیم انجمن طلباء اسلام کی تشکیل کی۔

الحمدللہ! آج ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انجمن طلباء اسلام کی تنظیم  ہوچکی ہے۔ اور انجمن طلباء کو گمراہی اور بدعقیدگی سے بچانے کے لیے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس تمام کامیابی کا سہرا علامہ جمیل احمد نعیمی کے سر ہے۔

۱۹۶۱ء میں آپ نے گواکا دو مہینے کا تبلیغی دورہ کیا۔ اس دورے میں آپ نے ایک سو کے لگ بھگ تقریریں کیں اور عیسائیوں کے علاوہ بعض دیگر بدعقیدہ لوگوں سے بھی تبادلۂ خیال اور مناظرے ہوئے۔ چنانچہ کئی غیر مسلم مشرف باسلام ہوئے اور بہت سے بدعقیدہ لوگ باطل عقائد سے تائب ہوئے۔

تحریکِ پاکستان کے وقت اگرچہ آپ کمسن تھے، لیکن پھر بھی مسلم لیگ کے جلسوں میں شریک ہونا، پاکستان کے حق میں نعرے لگانا اور لیگی اخبارات کا مطالعہ کرنا آپ کا مشغلہ رہا۔ آپ جنوری ۱۹۷۱ء سے اگست ۱۹۷۲ء تک جمعیت علماء پاکستان صوبہ سندھ کے جنرل سیکرٹری رہے اور ۱۹۷۱ء سے مارچ ۱۹۷۴ء تک مرکزی جماعت اہل سنت کے ناظمِ اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ کل پاکستان سنی کانفرنس ملتان (۱۶، ۱۷؍اکتوبر ۱۹۷۸ء) کے پہلے اجلاس میں آپ نے صوبہ سندھ کے نمائندہ کی حیثیت سے خطاب کیا۔ تحریکِ ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ نے نمایاں کردار کا مظاہرہ کیا جس پر اخبارات کے فائل گواہ ہیں۔

اکتوبر ۱۹۷۳ء میں جبکہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا، آپ نے جمعہ کے خطبہ میں اس وقت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: جب تم وزیر خارجہ تھے، بھارتی وزیر خارجہ  سورن سنگھ کراچی آیا۔ اتفاق سے رمضان کا مہینہ تھا، اس کے سامنے شراب پیش کی گئی تو اس نے پینے سے انکار کردیا اور کہا کہ ’’میں مسلمانوں کے مقدس مہینے کا احترام کرتا ہوں‘‘۔

یہ ایک ہندو کا کردار ہے اور مسلمان کے  کردار میں فرق ہونا چاہیے۔

اس آپ آپ کے خلاف حکومت کی مخالفت میں نعرہ لگوانے کا الزام لگاکر گرفتار کیا گیا، لیکن آپ نے اظہارِ حق کی خاطر جیل کی کوٹھڑی کو بسر و چشم قبول کیا اور اکتالیس دن کی قید گزار کر رہا ہوئے۔

۱۹۶۳ء میں آپ حضرت مولانا محمد عمر نعیمی رحمہ اللہ کی معیت میں حج بیت اللہ شریف اور روضہ رسول علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی زیارت سے مشرف ہوئے اور اسی موقع پر آپ نے حضرت پیر طریقت مولانا ضیاء الدین[۱] مدنی دامت برکاتہم العالیہ کے دستِ حق پرست  پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔

[۱۔ حضرت پیر طریقت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی دامت برکاتہم العالیہ، امام اہل سنت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی  رحمہ اللہ کے خلفاء میں سے ہیں اور قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی کے سسر حضرت مولانا فضل الرحمان مدنی کے والد ہیں۔ تقریباً ستر سال سے مدینہ منورہ میں سکونت پذیر ہیں۔ ہر روز بعد نماز عشاء آپ کی رہائش گاہ پر محفل میلاد ہوتی ہے اور لنگر تقسیم ہوتا ہے۔]

۱۹۷۱ء میں آپ دوبارہ اپنی والدہ محترمہ اور اہلیہ کے ساتھ زیارت حرمین شریفین کے لیے حاضر ہوئے۔ علامہ جمیل احمد نعیمی نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود چند کتب بھی تحریر فرمائی جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔       برکات صلوٰۃ و سلام             ۲۔       افضل التوسل السید الرسل

۳۔      سبیل امام حسین               ۴۔      فضائلِ امام حسین   

۵۔       فضائل عیدالاضحیٰ             ۶۔       فضائل شعبان

۷۔      فضائل لیلۃ القدر              ۸۔      فضائل نماز

۹۔       فضائل جہاد                   ۱۰۔      اہلِ سنّت کے لیے لمحۂ فکریہ

۱۱۔      تبلیغی جماعت کی حقیقت        ۱۲۔      تذکرہ تاج العلماء

علاوہ ازیں بعض جرائد و رسائل میں آپ کے علمی و تحقیقی مضامین بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔[۱]

[۱۔ یہ تمام کوائف محبی مولانا عبدالنعم ہزاروی نے مرتب کے نام اپنے ایک مکتوب (مورخہ ۲۴جون ۱۹۷۸ء) میں تحریر فرمائے جس کے لیے راقم آپ کا ممنون ہے۔ (مرتّب)]

(تعارف علماءِ اہلسنت)


متعلقہ

تجویزوآراء