حضرت علامہ مفتی محمد بخش تونسوی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
آپ 4 نومبر 1941ء کو ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف کے گاؤں "بہار والی "میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد علامہ مولانا محمد علی علیہ الرحمہ اور دادا حضرت علامہ مفتی حافظ احمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اپنے وقت کے بہت بڑے علماء اور صوفیا ءمیں ہوتا تھا۔ آپ کے دو صاحبزادے بھی عالم دین ہیں۔ اس لحاظ سے آپ کا خاندان اسلامی اور علمی حلقوں میں بڑا معروف اور مشہور ہے۔
علامہ محمد بخش تونسوی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم علامہ محمد علی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی اور اس کے بعد آپ تونسہ شریف چلے گئے جہاں آپ نے" جامعہ محمودیہ"میں داخلہ لیااور درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے مزید تعلیم کے لیے "جامعہ نعیمیہ لاہور" کا رخ کیا اور جامعہ نعیمیہ سے تخصص فی الفقہ یعنی مفتی کورس کی تکمیل کی اور با قاعدہ سند حاصل کی۔ علامہ تونسوی دینی اور دنیاوی علوم سے آراستہ تھے۔ آپ نے میٹرک سے لے کر اے ایم اے عربی اور ہومیو پیتھک ڈاکٹریٹ کی ڈگری تک تمام امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ آپ نے تین مضامین میں ایم اے کیا، 1994 میں آپ نے ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا، 1966ء میں ایم اے اسلامک کلچر جب کہ 1998ء میں ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ گرامی میں اپنے وقت کے جلیل القدر اور مایہ ناز علماء کرام شامل ہیں۔ آپ نے جن اساتذہ سے دینی، دنیاوی اور روحانی علم حاصل کی ان میں
۱۔ حضرت علامہ مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ
۲۔ حضرت علامہ مولانا پیر مفتی محمد حسن سواگ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
۳۔ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
۴۔ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مشتاق باہور رحمۃ اللہ علیہ
۵۔ حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ
دنیاوی علوم سے فراغت کے بعد آپ نے علوم باطنی کی طرف توجہ کی اور والد محترم کی اجازت اور دعاؤں کے ساتھ آپ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم، استاذ العلماء، ولی کامل عارف باللہ حضرت پیرمحمد حسن سواگ نقشبندی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ پھر آپ مرشد کریم اور والد گرامی کی اجازت کے ساتھ جھنگ میں حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے علامہ مفتی محمد مشتاق سے عملیات کی حاصل کی اور پھر کراچی تشریف لے آئے۔
علامہ محمد بخش تونسوی کو اللہ تعالیٰ نے زبردست ذہانت اور غیر معمولی قوت حافظہ سے نوازا تھا۔ آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اکثر پوری پوری رات مطالعہ میں گزارتے تھے۔ آپ کو دینی علوم و فنون پر بھی عبور حاصل تھا۔ آپ نے کئی بد مذہب مولویوں سے مناظرے کیے۔ ایک اندازے کے مطابق آپ نے تقریباً 33 مناظرے کیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے رسولﷺ کی نظر کرم کے صدقے و طفیل ہر مناظرے میں آپ کو شاندار فتح عطا ہوئی۔ علامہ محمد بخش تونسوی کی ذاتی لائبریری تھی جس میں تقریباً 30 ہزار چھوٹی بڑی اسلامی، تاریخیں، ادبی کتابیں موجود ہیں۔
علامہ محمد بخش تونسوی کا ایک قابل فخر کارنامہ اشاعت اسلام ہے۔ آپ نے اپنے وعظ و تقریر اور خطبات سے کوئی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا حتی کہ غیر مسلموں نے بھی آپ کے وعظ و تقریر سے اسلام کی حقانیت کو جانے اور اسلام قبول کیا۔ آپ کے ہاتھ پر تقریباً 10 (دس) افراد نے اسلام قبول کیا جن میں سکھ، ہندو، عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
علامہ محمد بخش تونسوی نے جب "جامع مسجد مسلم ٹاؤن" میں امامت و خطابت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو آپ نے اس وقت علاقے میں" قرآن و میلاد کمیٹی" کی بنیاد ڈالی جس کے تحت ہر سال ماہِ ربیع الاول اور ربیع الثانی میں مختلف گھروں میں تقریباً ہر روز باقاعدہ محافل و میلاد و گیارہویں شریف کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ نیز ہر اتوار کو جامع مسجد مسلم ٹاؤن کے نمازیوں کے گھروں پر بعد نمازِ فجر قرآن خوانی کا انعقاد بھی کیا جاتا تھا۔
علامہ محمد بخش تونسوی نے نارتھ کراچی میں قائد اہل سنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ کی سرپرستی میں مدرسہ جامعہ غوثیہ نورانیہ کی بنیاد رکھی، جس میں قرآن مجید اور علوم عربیہ کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ اس ادارے سے سینکڑوں افراد نے ناظرۂ قرآن اور حفظ پاک کی تعلیم حاصل کی جب کہ بے شمار طلباء نے درس نظامی کی تعلیم بھی حاصل کی۔
علامہ تونسوی کی تمام عمر مساجد، مدارس، مکاتب اور محافل کے ساتھ گزری۔ آپ نے بے شمار مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیے جن میں جامع مسجد ڈیرہ اسماعیل خان، جامع مسجد ملیر کینٹ، جامع مسجد علامہ اقبال اور جامع مسجد مسلم ٹاؤن قابل ذکر ہیں۔
علامہ تونسوی نے 1983ء میں حج اکبر کی سعادت حاصل کی اور 1984ء میں مسلسل کئی سالوں تک ہر سال آپ عمرے کی سعادت حاصل کرتے رہے۔ علامہ تونسوی نے وعظ و خطبات کے ساتھ ساتھ تحریری میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں، آپ نے پانچ رسائل تحریری کیے جن کے نام درج ذیل ہیں۔
۱۔ جشن عید میلاد النبیﷺ
۲۔ تراویح 20 رکعت سنت ہے
۳۔ مسائل قربانی و طریقہ نمازِ عیدین
۴۔ رمضان المبارک
۵۔ ردِّ رفع الیدین
علامہ محمد بخش تونسوی کا 3/محرم الحرام 1432ھ مطابق 10 دسمبر 2010ء جمعۃ المبارک کو وصال ہوا۔ آپ کی نمازِ جنازہ جامع مسجد مسلم ٹاؤن کے قریب روڈ پر ادا کی گئی، جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی، آپ کی نمازِ جنازہ میں علماء کرام، مشائخ عظام، عمایدین شہر، سیاسی و مذہبی قائدین، حکومت و انتظامیہ کے اعلیٰ افسران نے بھی تعداد میں شرکت کی۔ آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رضوی نے فرمائی۔ علامہ محمد بخش تونسوی کا مزار مبارک جامع مسجد مسلم ٹاؤن کے احاطہ میں ہے۔(بحوالہ : ”روشن دریچے”ص408-406)
آپ کے مشن آپ کے صاحبزادے علامہ مولانا اصغر بخش تونسوی شہیدی بہت احسن انداز سے پھیلارہے ہیں۔آپ کے رفقاء خاص میں سے بزرگ عالمِ دین حضرت علامہ مولانا عبدالرشید تونسوی معینی زید مجدہ نارتھ کراچی میں آپ کے مشن کوزندہ کیے ہوئے ہیں،اور کثیر مخلوق ِ خدا کو اپنے علمی وروحانی فیض سے مستفید فرمارہے ہیں۔