قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ۔لقب:قاضی الاسلام۔بیہقی وقت،علم الہدیٰ،مفسرقرآن،فقیہ اعظم۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: قاضی محمدثناء اللہ پانی پتی بن مولانا محمدحبیب اللہ بن مولانا ہدایت اللہ بن مولانا عبدالہادی،بن سعیدالدین بن شیخ عبدالقدوس بن شیخ خلیل اللہ بن مفتی عبدالسمیع بن شیخ حسین بن خواجہ محفوظ بن خواجہ احمد بن خواجہ ابراہیم بن مخدوم خواجہ شیخ جلال الدین کبیرالاولیاء پانی پتی۔علیہم الرحمہ۔آپ کاسلسلہ نسب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتاہے۔حضرت قاضی صاحب علیہ الرحمہ فرماتےہیں: حضرت کبیرلاولیاءپانی پتی نےاپنےصاحبزادے شیخ ابراہیم کوبشارت دی تھی کہ تمھاری نسل میں ہمیشہ علماء پیداہوتےرہیں گے۔قاضی صاحب فرماتےہیں: حضرت کی بشارت کےعین مطابق اب تک یہ سلسلہ اس خاندان میں قائم ہے۔حضرت قاضی صاحب کاننھیال پانی پت کاانصارخاندان ہے۔جن کاسلسلہ نسب حضرت میزبان رسول حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتاہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت کی تاریخ خاموش ہے،البتہ قیاس وغیرہ سے1144ھ،تا1140ھ کےمابین متعین ہوتاہے۔پانی پت آپ کی جائے پیدائش ہے۔(تذکرہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی:63)
تحصیلِ علم: آپ کاخاندان علم وفضل میں مشہورتھا۔ابتدائی تعلیم اپنےگھر پرہوئی۔آپ نےسات سال کی عمر میں قرآن مجید مکمل فرمالیا۔اس کےبعد آپ نےقرآتِ عشرہ کی تحصیل وتکمیل فرمائی اس فن میں کمال ومہارت کااندازہ تفسیرمظہری کےمطالعے سےکیاجاسکتاہے۔شاید اس فن میں کوئی تفسیر "تفسیرمظہری"کامقابلہ کرسکے۔قرأتِ عشرہ کی تکمیل وتحصیل دیگراساتذہ کےعلاوہ شیخ قاری صالح المصری علیہ الرحمہ سےفرمائی۔تکمیل قرآن کےبعد قاضی صاحب نےابتدائی کتب اپنےوالدِ گرامی مولانا قاضی محمد حبیب اللہ اوربرادراکبر قاضی محمد فضل اللہ سےپڑھیں۔ان کےعلاوہ دیگرپانی کےدیگراساتذہ سےعلمی استفادہ کیا۔پانی پت کےمدارس میں تکمیل کرنےکےبعد مزیدحصولِ علم کےلئے حضرت مرزامظہرجانِ جاناں علیہ الرحمہ اورشیخ المحدثین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضرہوئے اوران دونوں نابغۂ روزگارشخصیات سےتمام علوم اوربالخصوص فن حدیث وتفسیر اورتصوف میں کمال حاصل کیا۔
بیعت وخلافت: ابتداً شیخ محمدعابدسنامی علیہ الرحمہ سےبیعت ہوئے،پھران کےوصال کےبعد شیخ مرزامظہرجان جاناں علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہ کر فیض حاصل کیا۔انہوں نے آپ کو تمام اسانیدوسلاسل کی اجازت عطاء فرمائی۔
سیرت وخصائص: قاضی الاسلام،مفسرقرآن،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،جامع شریعت وطریقت،فقیہ الاعظم،بیہقیِ عصر،صاحبِ علم الہدیٰ،امام العلماء،شیخ الاتقیاء،صاحبِ معارف اسرارربانی حضرت قاضی محمدثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنےوقت کےایک عظیم مفسرومحدث اورفقیہ ِ کامل تھے۔تمام علوم وفنون میں کمال مہارت حاصل تھی۔پانی پت میں قاضی اسلام کےمنصب پرفائزتھے۔خاتم المحدثین شیخ المحققین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ آپ کےتبحر علمی ،اورفنِ حدیث میں مہارت کےپیشِ نظر آپ کو"بیہقیِ وقت"اور امام الاولیاء رئیس الاتقیاء حضرت مرزاجانِ جاناں علیہ الرحمہ نےآپ کو"علم الہدیٰ"کاخطاب عطاء فرمایا۔آپ کی تربیت میں سب سےزیادہ حصہ حضرت مرزاجانِ جاناں علیہ الرحمہ کاہے۔ان کی تربیت نےآپ کو"مجمع البحرین"بنادیا۔
جب حضرت نےآپ کوسلوک کی تمام منازل طےکرادیں توفرمایاتم شیخ محمداعظم بچھراؤنی خلیفہ اعظم شیخ محمد افضل سیالکوٹی کی خدمت میں جاؤ،جوکمالات مجھ سےحاصل کیےہیں ان کےآئینہ باطن پرپیش کرو،کیونکہ وہ انتہائی متقی اورصاحبِ کشف بزرگ تھے۔جب ا ن کی خدمت میں پہنچےتوانہوں نےفرمایا:"اس شخص کی شان بہت عظیم ہے،اوراس پرکسی اورکوقیاس نہیں کیاجاسکتا"۔(ایضاً)۔اس عبارت سےاندازہ لگایاجاسکتاہےکہ حضرت قاضی صاحب علیہ الرحمہ کس قدرروحانی مراتب کےحامل تھے۔یہی وجہ ہے حضرت مرزاجان جاناں علیہ الرحمہ فرمایاکرتےتھے: "قیامت کےدن بارگاہِ خداوندی میں اپنےنامۂ اعمال میں حضرت قاضی صاحب کوپیش کردونگا"۔حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ ایک ثقہ اورمتدین عالمِ دین تھے۔آپ اقلیمِ علم کےتاجدارتھے۔آپ کی ساری زندگی دینِ اسلام کی خدمت،درس وتدریس و عظ ونصیحت میں گزاری ۔
مولانا فقیرمحمدجہلمی فرماتےہیں:حضرت قاضی ثناءاللہ صاحب شیخ جلا ل الدین کبیر الاولیاء چشتی کی اولاد میں سے تھے جن کا نسب حضرت عثمان غنی کی طرف منتہیٰ ہوتا ہے۔فقیہ،محدث،محقق،مدقق، منصف مزاج،جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور فقہ واصول میں مرتبۂ اجتہادپر پہنچے ہوئے تھے۔علم تفسیر وکلام اور تصوف میں ید طولیٰ حاصل تھا،صفائی ذہن وجودت طبع وقوت فکر اور سلامتی عقل زائد الوصف حاصل تھی،اکثر خواب میں شیخ جلال اپنے جد امجد اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ سے تربیت اور بشارات حاصل کیں۔مرزا صاحب(مظہرجانِ جاناں) آپ کے حق میں فرماتے تھے کہ میرے دل میں آپ کی بہت ہیبت ہے اور بسبب صلاح اور تقویٰ و دیانت کے آپ مروج شریعت اور منور طریقت اور ملکی صفات ہیں فرشتے آپ کی تعظیم بجالاتے ہیں،اگرخدا نے مجھ سے قیامت کو پوچھا کہ ہماری درگاہ میں کیا تحفہ لایا ہے تو میں ثناء اللہ کو پیش کرونگا۔آپ اکثر اوقات طاعت و عبادت میں مشغول رہتے تھے،ہر روز سو رکعت نماز اور ایک منزل قرآن شریف تہجد میں وظیفہ کیا ہوا تھا۔قضاء کا منصب بھی اختیار کیا تھا اور جیسا کہ چاہئے اس کا حق ادا کیا۔(حدائق الحنفیہ:484)
آپ نےبہترین عقائد واعمال پربہترین کتب تصنیف فرمائی ہیں۔تمام کتب میں جومقام "تفسیرمظہری"کوملاوہ اپنی مثال آپ ہے۔اس تفسیرکوعرب وعجم میں اورتمام مکاتب فکر میں مقبولیتِ عامہ حاصل ہوئی۔آپ نےاس میں شریعت وطریقت دونوں کوجمع کردیاہے۔دوسرےمکتبۂ فکرکےمدارس بورڈکےاندران کی فقہی مسائل پرمشتمل کتاب"مالابدمنہ"شامل نصاب ہے۔اس سےمعلوم ہواکہ وہ آپ کی شخصیت کےمعترف ہیں۔کاش!اگروہ تفسیر مظہری کےاندرجوتعلیمات بیان کی گئیں ہیں،ان کوتسلیم کرلیتےتوآج امت میں اختلاف ختم ہوجاتے۔صرف تفسیرِ مظہری سےایک اقتباس نقل کرتاہوں۔قارئینِ کرام،حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ کےنظریات وتعلیمات سے خوداندازہ لگالیں گےکہ ہمارےاکابرین کےنظریات وعقائدکیاتھے۔
سورت البقرہ آیت نمبر151 میں "یُعلِمُّ" فعل کاتکرارکیوں آیاہے؟کی تفسیربیان کرتےہوئے ارشادفرماتےہیں:"تکرار الفعل یدل علی ان ھذا التعلیم من جنس آخرولعل المرادبہ العلم اللدنی الماخوذمن بطون القرآن ومن مشکاۃ صدرالنبیﷺ الذی لاسبیل الی درکہ الا الاِنعکاس۔الٰی آخرہ۔ترجمہ:یعلم فعل کاتکرار اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تعلیم پہلی تعلیم کتاب و حکمت سے الگ نوعیت کی ہے۔ اور شاید اس سے مراد علم لدُنّی ہے جو قرآن کے باطن اور نبی مکرم ﷺکے منور و روشن سینہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اور اس کے حصول کا ذریعہ یہ مروجہ تعلیم و تعلّم نہیں(یعنی یہ تعلیم کسی ادارےمیں نہیں پڑھائی جاتی،اورنہ ہی اس کی کوئی کتب ونصاب ہیں) بلکہ انعکاس ہے یعنی آفتاب قرآن کی کِرنیں اور ماہتابِ نبوت کی شعاعیں دل کے آئینہ پر منعکس ہوتی ہیں۔ اولیائے کاملین جو انوار نبوت کے صحیح وارث ہوتے ہیں وہ بھی اپنے مریدیان باصفا پر اسی قسم کے علوم و معارف کا القاءاور فیضان فرماتے ہیں۔
فاذکرونی اذکرکم۔سورۃ البقرہ ،152،کی تفسیرمیں فرماتےہیں:ترجمہ: جب ان معارف کے حاصل ہونے کا طریقہ صرف القاء اور انعکاس ہے، اور ذکر الٰہی اور مراقبہ سے ہی دل میں یہ استعداد پیدا ہوتی ہے کہ وہ حضور ﷺکے پُر نور سینہ سے بلا واسطہ یا بالواسطہ فیضان و القاء قبول کرسکے اس لیے حکم دیا کہ میرا ذکر کیا کرو۔ کثرت ذکر سے ہی تم اس مقام فائز کیےجاؤ گے(یعنی سینۂ مصطفیٰﷺ بلاواسطہ فیض حاصل کرسکوگے) جہاں انوار و تجلیات کی بےمحابا بارش ہوتی ہے اور دوری کے حجاب یکسر اُلٹ دیئےجاتے ہیں۔(تفسیرِ مظہری ج،1،تحت الآیۃ)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال یکم رجب المرجب1225ھ،مطابق 2/اگست 1810ءکوہوا۔آپ کامزارپرانوارپانی پت انڈیامیں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: حدائق الحنفیہ ۔تذکرہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی۔تفسیرِ مظہری۔