حضرت قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی
حضرت قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
قاضی ثناء اللہ پانی پتی: شیخ جلا ل الدین کبیر اولیائے چشتی کی اولاد میں سے تھے جن کا نسب حضرت عثمان کی طرف منتہیٰ ہوتا ہے۔فقیہ،محدث،محقق،مدقق، منصف مزاج،جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور فقہ واصول میں بہ مرتبۂ اجتہاد پہنچے ہوئے تھے۔علم تفسیر وکللام اور تصوف مین ید طولیٰ حاصل تھا،صفائی ذہن وجودت طبع وقوت فکر اور سلامتی عقل زائد الوصف حاصل تھی،حدیث کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے سنا اور روایت کیا یہاں تک کہ شاہ عبد العزیز محدث آپ کو بہیقی وقت کہا کرتے تھے۔اٹھارہ سال کی عمر میں تمام علوم ظاہری سے فراغت پاکر علم طریقت کا شیخ محمد عابد سے اخذ کیا اور نہایت سرعت و شوق وصول سے تمام سلوک کو پچاس توجہ میں انجام کو پہنچایا پھر ان کے ارشاد سے میرز مظہر جانجاناں کی خدمت میں پہنچے اور ان کی زبان فیض ترجمان سے علم الہدے کے لقب سے ملقب ہوئے۔ایام تحصیل علم میں علاوہ کتب تحصیلہ کے ساڑھے تین سو اور کتابیں مطالعہ کیں۔ اکثر خواب میں شیخ جلال اپنے جد امجد اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ سے تربیت اور بشارات حاصل کیں۔مرزا صاحب آپ کے حق میں فرماتے تھے کہ میرے دل میں آپ کی بہت ہیبت ہے اور بسبب صلاح اور تقوےٰ و دیانت کے آپ مروج شریعت اور منور طریقت اور ملکی صفات ہیں فرشتے آپ کی تعظیم بجالاتے ہیں،اگرخدا نے مجھ سے قیامت کو پوچھا کہ ہماری درگاہ میں کیا تحفہ لایا ہے تو میں ثناء اللہ کو پیش کرونگا۔آپ اکثر اوقات طاعت و عبادت میں مشغول رہتے تھے،ہر روز سو رکعت نماز اور ایک منزل قرآن شریف تہجد میں وظیفہ کیا ہوا تھا۔قضاء کا منصب بھی اختیار کیا تھا اور جیسا کہ چاہئے اس کا حق ادا کیا۔آپ کے اصحاب سے پیر محمد وسید محمداور گھیٹا،آپ کی صحبت سے طریقہ سلوک میں فائز المرام ہوئے۔مدت تک آپ افاضہ کمالات ظاہر و باطن اور اشاعت علوم دینیہ اور فضل خصومات و افتائے سوالات اور حل مشکلات میں مصروف رہے،ایک کتاب مبسوط فقہ میں مع بیان ماخذ و دلائل اور مختار ائمہ اربعہ کےہر مسئلہ میں تصنیف کی اور جو کچھ آپ کے نزدیک اقوی ثابت ہوا اس کو ایک علیٰحدہ رسالہ مسمی بہ ماخذ الاقوی میں تحریر فرمایا، اصول میں بھی آپ نے مختارات تحریری کیں اور ایک بڑی تفسیر مظہری[1]نام سات جلد میں تصنیف کی اور اس میں اقوال قدمائے مفسرین اور تاویلات جدیدہ کو جو مبدء فیاض سے آپ پر وارد ہوئے جمع کیا اور کئی ایک رسائل تصوف اور تحقیق معارف حضرت مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی میں لکھے،علاوہ ان کے آپ کی کتب مولفہ جو تیس سے زیادہ ہیں مثل مالا بد منہ،تذکرۃ الموتٰی والقبور،تذکرۃ المعاد، حقیقۃ الاسلام،ارشاد الطالبین،شہاب ثاقب،رسالہ حرمتِ متعہ،رسالہ حرمتِ سرود وصیت نامہ وغیرہ تمام نافع و مفید اور مقبول خلائق ہیں۔وفات آپ کی غرہ رجب ۱۲۲۵ھ میں ہوئی اور تاریخ وفات آپ کی قرآن شریف کی آیت’’فہم مکرمون فی جنّت نعیم‘‘ سے نکلتی ہے اور لفظ جنت کا اس تاریخ میں بغیر الف کے موافق رسم خط قرآن شریف کے ماخوذ ہے۔
1۔ دہلی میں چھپ چکی ہے،اردو ترجمہ مولانا سید عبد الدائم جلالی نے کیا ہے جو تیرہ جلدوں میں چھپ گیا ہے۔
(حدائق الحنفیہ)