حضرت شاہ ابوالمعالی قادری
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 0960 | ذوالحجہ | 10 |
یوم وصال | 1024 | ربيع الأول | 16 |
حضرت شاہ ابوالمعالی قادری (تذکرہ / سوانح)
حضرت شاہ ابوالمعالی قادری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: سید خیر الدین محمد۔ کنیت: ابوالمعالی۔ لقب: اسد الدین۔تخلص: اشعار میں معالی کے علاوہ ’’غربتی‘‘ بھی بطورِ تخلص استعمال کرتےتھے۔لیکن شاہ ابو المعالی کے نام سے زیادہ معروف ہیں۔ سلسلہ ٔ نسب اس طرح ہے: حضرت شاہ ابوالمعالی قادری بن سید رحمت اللہ بن سید فتح اللہ۔ علیہم الرحمہ۔ شیخ المشائخ حضرت داؤدکرمانی آپ کے حقیقی چچا تھے۔آپ ان کے داماد اور خلیفۂ اعظم تھے۔ بزرگوں کا وطن ’’کرمان‘‘ تھا۔ خاندانی تعلق ساداتِ کرمان سےہے۔ سلسلہ ٔ نسب اٹھائیس واسطوں سے حضرت امام محمد تقیپر منتہی ہوتاہے۔ (تذکرہ صوفیائے پنجاب: 79/تذکرہ اولیائے پاک وہند: 225)
تاریخِ ولادت:آپ کی ولادت باسعادت بروز پیر، 10/ ذالحجہ 960ھ مطابق 16/نومبر1553ء کو’’شیر گڑھ‘‘تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ پنجاب پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: حضرت شاہ ابوالمعالی لاہوری ایک علمی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتےتھے۔ جو صدیوں سے علم وفضل میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کے والدِ محترم سید رحمت اللہ ایک عالمِ متبحر و عارف باللہ تھے۔ آپ کی تعلیم وتربیت والدِ گرامی کے زیرِسایہ ہوئی۔ تمام علوم ِ منقولات ومعقولات انہیں سے حاصل کیے۔اس وقت کے تمام مروجہ علوم کے ماہر ِ کامل اور عربی وفارسی ادب کے بہترین ادیب تھے۔
بیعت و خلافت: علوم ِ ظاہری کی تکمیل کے بعد سلسلہ عالیہ قادریہ حضرت شاہ ابو المعالی نے اپنے چچاشیخ داؤد کرمانی شیر گڑھی کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔تیس سال کے مجاہدات و ریاضات کے بعد خلافت عطاء فرمائی۔(تذکرہ صوفیائے پنجاب: 79)
سیرت وخصائص: صاحبِ اسرار و معارفِ یزدانی،شہبازِ لامکانی،حضرت شاہ ابوالمعالی قادری لاہوری۔آپ اپنے وقت کے شیخِ کامل اور عالمِ اکمل تھے۔آپ کی ذات وا لا صفات سے دینِ اسلام اور سلسلہ عالیہ قادریہ کو بہت فروغ حاصل ہوا۔خرقۂ خلافت کےبعد شیخ کی طرف سے لاہورمیں رشد وہدایت پر مامور کیے گئے۔چنانچہ شیر گڑھ سے لاہور تک جہاں قیام فرمایا وہاں سرائے،کنواں،تالاب اور باغ لگواتے گئے۔آج بھی راستے میں ایسے مقامات و سرائے اور مکانات و بستیاں موجود ہیں جو آپ کے نام سے ہیں۔جب آپ لاہور میں تشریف لائے تو مخلوقِ خدا جوق در جوق حلقۂ ارادت میں داخل ہونے لگی، اور آپ نے بڑی قبولیت حاصل کی۔آپ کی بڑی کرامت یہ تھی کہ جو شخص آپ سے بیعت ہوتا اس کو اسی رات محبوبِ سبحانی حضرت غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کا دیدار نصیب ہوتا۔
علمی خدمات: آپعربی وفارسی ادب کےبلند پایہ ماہر تھے۔آپ نے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کےلئے صوفیانہ طرز کی کتب تحریر فرمائیں۔جن کا مقصد لوگوں کو دین کی طرف بلانا اور حقائق سے روشناس کراناتھا۔آپ کی خانقاہ شریف ایک علمی درسگاہ تھی جہاں قال اللہ، و قال رسول اللہ کی صدائیں ہر وقت بلند رہتی تھیں۔آپ ذوقِ شعری بھی رکھتے تھے۔زیادہ تر اشعار سید الانبیاء ﷺ اور سید الاولیاء کی شان میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے امام المحققین حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلویکو مشکوٰۃ کی شرح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا اس کو جلد پورا کرو۔پھر اسی خط میں لکھا کہ’’انشاء اللہ کتابے شود کہ اہلِ عالَم ہمہ از آں مستفید شوند‘‘۔پھر مشورہ دیا کہ شرح میں جا بجا اشعار درج کیے جائیں۔ تاکہ طرزِ بیاں دل چسپ اور اثر انگیز ہو۔
فضل و کمال:آپ صاحبِ کشف وکرامات تھے، حضرت غوث الاعظمکےسچےعاشق،اور اپنےپیرومرشدسے والہانہ عقیدت تھی۔بلکہ آپ فنافی الشیخ کےدرجےپرفائزتھے۔ صاحبِ سفینۃ الاولیاء رقم طراز ہے کہ عارفِ حق آگاہ حضرت ملاشاہ نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ ہم اپنے استاد مُلا نعمت اللہ کے ہمراہ جو عالمِ باعمل تھے آپ کی زیارت کےلئے گئے۔ ہم سب حاضرِ خدمت تھے، کہ ایک شخص تسبیح آپ کےلئے لایا۔ آپ نے وہ قبول فرمالی اور اپنے سامنے رکھ دی۔ میرے دل میں گزرا اگر آپ کو کشفِ قلوب حاصل ہے تو یہ تسبیح مجھے عنایت فرمادیں۔ جب میں رخصت کے لیے کھڑا ہوا تو حضرت نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ فرمایا: اپنے حسبِ مدّعا یہ تسبیح لے لو۔ اگر ہوسکے تو سو مرتبہ درود شریف پڑھ لیا کرنا۔ تمہیں اور لانے والے دونوں کو ثواب ہوگا۔
اسی طرح صاحبِ سفینۃ الاولیاء لکھتے ہیں: مولانا اخوند نعمت اللہ فرماتے تھے کہ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ میں حضرت غوث الاعظم سے ارادت و عقیدت رکھتا ہوں۔ یقیناً وہ بھی میری اس ارادت مندی سے آگاہ ہوں گے جب کہ وہ خود فرماتے ہیں کہ اگر میں مغرب میں ہوں اور میرا مرید ننگے سر مشرق میں ہو تو میں اس کی سرپوشی کروں گا۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کسی کام کے لیے پریشان و عاجز ہوں، سر ننگا ہے۔ اسی وقت حضرت غوث الثقلین تشریف لائے۔ اور ایک سفید پگڑی مجھے عنایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ پگڑی لے لو۔ ہم تیرے اس حال سے خبردار تھے کہ تو ننگے سر کھڑا ہے۔ لہٰذا ہم نے چاہا کہ تیرا سر ڈھانپ دیں۔ صبح مجھے حضرت شاہ ابوالمعالی نے اپنے پاس بلایا اور سفید دستار مجھے عنایت کرکے فرمایا: یہ وہی دستار ہے جو رات کو حضرت غوث الاعظم نے تجھے دی ہے۔(سفینۃ الاولیاء:245)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی عقیدت: حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی آپ سے بے حد عقیدت رکھتےتھے۔شیخ محقق نے آپ کا ذکرِ خیر جابجا فرمایا ہے۔حضرت شیخ محقق نے فتوح الغیب کی شرح آپ کے اصرار پر لکھی۔اس کے خاتمے پر حضرت شاہ ابوالمعالی کاتذکرہ اس طرح فرمایا ہے: ’’اسد الدین شاہ ابوالمعالی کہ شیر بیشۂ جلالت، وسرہنگ ِ دیوانِ قدرت، واز والہان ِ آگاہ، و عاشقانِ درگاہِ قادریہ است‘‘۔ اسی طرح اخبار الاخیار میں حضرت شیخ داؤد کرمانیکےتذکرے میں آپ کا ذکرِ خیر کیا ہے۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی آپ کی روحانی سطوت کے اس درجہ معترف تھے کہ اپنے خانگی معاملات ان سے بیان فرماتے،اور ان سے راہنمائی لیتے،اور دعاؤں کی التجا کرتے۔ایک مکتوب میں حضرت شاہ ابوالمعالی سے اس طرح امداد کی التجاء کرتےہیں: ’’بالجملہ اندوہ و تنگ دلی از حد گزشتہ،وقتِ امداد و اعانت است،فریاد رسی می بایدکرد،ورائے آغاثہ کبریٰ کہ منتہیٰ بجناب حضرت غوث الاعظم است می باید پوشید، وذرع داؤدی در برکرد۔الیٰ آخرہ‘‘۔ایک خط میں آپ کی صحبتِ کیمیا اثر کےمتعلق اپنے تاثر کو اس طرح ظاہر کرتے ہوئے لکھتےہیں:’’ذوقِ صحبتِ ایشاں، درنگِ حال ایشاں کہ در ظاہر و باطن فقیر نشستہ است بتقریر بیان گنجائش ندارد‘‘۔ شیخ محقق کو جو آپ سے عقیدت و محبت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ لاہور میں حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے، تو وہاں سے واپس ہونے کو ان کا جی نہیں چاہتاتھا۔شاہ صاحب سے والہانہ عقیدت ومحبت کےتاثر کو ایک جگہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’گرفتار ما بہ ایں شہر لاہور کہ وطن گزاشتہ ایں جا می باشیم،سبب آں ایں است کہ کسے ہست کہ گرفتار اویم‘‘۔(تذکرہ صوفیائے پنجاب: 84)
تصانیف: آپ ایک خدارسیدہ بزرگ ہونےکےعلاوہ ایک عالم بھی تھے۔آپ نےکئی کتابیں لکھی ہیں۔1۔تحفۃ القادریہ۔جس میں حضرت غوث الثقلین کے مناقب وکرامات کو جمع کیاہے۔2۔حلیہ۔سرورِ عالمﷺکا حلیہ مبارک بیان کیا ہے۔اس کا ایک اقتباس ملاحظہ پیشِ خدمت ہے۔ ’’ھو اسمر بیاض اللون و واسع الجبھۃ وازج الحاحبین واقلج الاسنان واسود العینین وملیح واقنا انف وازج الحواجب وطویل الیدین وثمام القد ومجتمع اللحیۃ ورفیق الانامل وضیق الغماد ولیس فی بدنہ شعر الا لخط الصدر الی الثرۃ وصورتہ احسن الصور وحسنہ حسن القمر ونورہ نور الشمس وکلامہ کلام روح القدس وقالہ قال الشریعۃ وحالہٗ حال الحقیقۃ وعلمہٗ علم الیقین ولسانہٗ لسان الذاکر وقلبہٗ عین المعرفۃ وذاتہٗ ذات انوار الحق ودینہ اکرام الادیان ملتہ اشرف الملل وخلقہ احسن الاخلاق وعملہٗ امر اللہ ونعلہ عبادۃ اللہ وجسمہٗ خیر الاجسام واسمہٗ خیرالانام صلی اللہ علیہ واٰلہٖ واصحابہ اجمعین۔
ترجمہ: حضور اکرم ﷺکا رنگ گندمی سرخ یا سفید ملا ہوا تھا۔ فراخ پیشانی، باریک ابرو، کشادہ دندان، سیاہ چشم، حیا دار ملیح نظر والی بلند ناک، بھرے ہوئے لمبے بازو، سر و قد (یعنی سیدھا جیسے مناسب ہوتا ہے)اور گنجان ریش مبارک، باریک بال، تنگ دہان تھا۔ آپ کے بدن مبارک پر بال نہیں تھے مگر سینۂ اقدس کے خط سے ناف تک اور آپ کی نازنین صورت تمام صورتوں سے احسن ہے، آپ کا حسن چاند کے حسن سے بڑھکر اور آپ کا نور، نورِ خورشید سے افضل۔ آپ کا کلام روح القدس کا کلام اور آپ کی گفتگو رازِ شریعت اور آپ کا حال حقیقت کی صورت ہے۔ آپ کا علم، علمِ یقین اور آپ کی زبان خدا کا ذکر کرنے والی زبان ہے۔ آپ کادل معرفت کا چشمہ، آپ کی ذات انوارِ حق کا کرشمہ، آپ کا دین تمام دنیا کے مذہبوں سے بلند اور آپ کی ملّت تمام ملّتوں سے برگزیدہ ہے۔ آپ کا خلقِ عظیم اخلاقِ حسنہ کا نچوڑ، آپ کا عمل خدا کا حکم، آپ کا کام اللہ کی عبادت، آپ کا جسم مخلوق میں خیروسعادت اور آپ کا اسمِ گرامی ’’خیرالانام‘‘ ہے صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابہٖ اجمعین۔3۔باغِ ارم۔4۔زعفرانِ زار۔5۔رسالہ مونسِ جاں۔
آپ کی ایک مشہوررباعی حسب ذیل ہے:
یارب بحقِ جمالِ عبدالقادر |
یارب بحقِ کمالِ عبدالقادر |
برحال ابوالمعالی زاروضعیف |
رحمےکن ودہ وصالِ عبدالقادر |
تاریخِ وصال: 16/ربیع الاول 1024ھ مطابق مئی/1615ء کو واصل باللہ ہوئے۔آپ کا مزار لاہور میں مرجعِ خلائق ہے۔