حضرت سید خیرالدین محمد کرمانی ابوالمعالی قادری کرمانی
حضرت سید خیرالدین محمد کرمانی ابوالمعالی قادری کرمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سیّد خیرالدین نام، ابوالمعالی خطاب، والد کا نام سیّد رحمت اللہ بن سید فتح اللہ تھا۔ حضرت شیخ داؤد چونی وال شیر گڑھی کے حقیقی برادر زادہ اور مرید و خلیفہ تھے۔ خدمتِ مرشد میں حاضر رہ کر علومِ ظاہری و باطنی کی تکمیل کی اور تیس سال سخت ریاضت و مجاہدہ کیا۔ خرقۂ خلافت سے سرفراز ہوکر مرشد کے حکم کے مطابق لاہور آکر سکونت پذیر ہوئے۔ راستے میں جہاں کہیں بھی قیام کرتے چاہ و باغیچہ اور تالاب تعمیر کراتے۔ آپ کی یہ یادگار عمارتیں شاہ ابوالمعالی کے جھوک کے نام سے مشہور ہیں۔ لاہور میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی مقبولیت عطا فرمائی۔ ایک خلقِ کثیر آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر علم و ہدایت سے بہرور ہوئی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم کے اویسی تھے۔ آپ کی یہ مشہور کرامت ہے کہ جو شخص حلقۂ ارادت میں داخل ہوتا تھا اسی روز رات کو حضرت غوث الاعظم کے دیدار سے مشرف ہوتا تھا۔ محمد داراشکوہ صاحبِ سفینۃ الاولیاء رقم طراز ہے کہ عارفِ حق آگاہ حضرت ملاشاہ نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ ہم اپنے استاد ملا نعمت اللہ کے ہمراہ جو عالم باعمل تھے آپ کی زیارت کو گئے۔ ہم سب حاضرِ خدمت رہتے۔ ایک شخص تسبیح شاہ صاحب کے لیے لایا۔ آپ نے وہ قبول فرمالی اور اپنے سامنے رکھ دی۔ میرے دل میں گزرا اگر آپ کو کشفِ قلوب حاصل ہے تو یہ تسبیح مجھے عنایت فرمادیں۔ جب میں رخصت کے لیے کھڑا ہوا تو حضرت نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ فرمایا: اپنے حسبِ مدعا یہ تسبیح لے لو۔ اگر ہوسکے تو سو مرتبہ درود شریف پڑھ لیا کرنا۔ تمہیں اور لانے والے دونوں کو ثواب ہوگا۔
صاحبِ سفینۃ الاولیاء لکھتے ہیں: اخوند نعمت اللہ فرماتے تھے کہ ایک روز میرے دل میں خیال آیا کہ میں حضرت غوث الاعظم سے ارادت و عقیدت رکھتا ہوں۔ یقیناً وہ بھی میری اس ارادت مندی سے آگاہ ہوں گے جب کہ وہ خود فرماتے ہیں کہ اگر میں مغرب میں ہوں اور میرا مرید ننگے سر مشرق میں ہو تو میں اس کی سرپوشی کروں گا۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کسی کام کے لیے پریشان و عاجز ہوں، سر ننگا ہے۔ اسی وقت حضرت غوث الثقلین تشریف لائے۔ اور ایک سفید پگڑی مجھے عنایت فرمائی اور ارشاد کیا کہ یہ پگڑی لے لو۔ ہم تیرے اس حال سے خبردار تھے کہ تو ننگے سر کھڑا ہے۔ لہٰذا ہم نے چاہا کہ تیرا سر ڈھانپ دیں۔ صبح مجھے حضرت شاہ ابوالمعالی نے اپنے پاس بلایا اور سفید دستار مجھے عنایت کرکے فرمایا: یہ وہی دستار ہے جو رات کو حضرت غوث الاعظم نے تجھے دی ہے۔
حضرت شاہ ابوالمعالی کی ولادت بروز دو شنبہ ۱۰؍ذی الحجہ ۹۶۰ھ ہے۔ ۱۶؍ربیع الاول ۱۰۲۴ھ کو بعہدِ جہانگیر وفات پائی۔ روضہ لاہور بیرون موچی دروازہ زیارت گاہِ خلق ہے۔ دونوں عیدوں کے دن خلقِ کثیر آپ کے روضہ پر آتی ہے۔
آپ صاحبِ تصانیف تھے۔ تحفہ قادریہ حضرت غوث الاعظم کے مناقب میں آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ حلیہ مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیوان اشعار بھی آپ کی قابلِ قدر تصانیف ہیں۔ اپنا مقبرہ اپنی زندگی ہی میں بنوانا شروع کیا تھا کہ ۱۰۲۴ھ میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ باقی حصہ آپ کے فرزند ابی بکر نے مکمل کیا۔
بو المعالی خیرِ دینِ احمدی
خیر دین مولیٰ است تولیدش عیاں
۹۶۰ھ
آنکھہ شد پُرنور زو روئے زمین
رحلتش فرما معلی خیر دین
۹۶۰ھ
حضرت شاہ ابوالمعالی(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شاہ ابوالمعالی زبدۃ العارفین ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کاسلسلہ نسب اٹھائیس واسطوں سےحضرت موسیٰ المرقعہ بن حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام پرمنتہی ہوتاہے۔
آپ کےآباؤاجدادسادات کرمان سےتھے۔آپ کےداداکےداداسیدفیض اللہ اپنےلڑکےسید مبارک کرمانی کوہمراہ لےکرکرمان سے۷۹۲ھ میں ہندوستان آئے،اوچہ میں قیام فرمایا۔۱؎ اوچہ سے سکونت ترک کرکےداؤدجل میں جو ملتان کےقریب ہے،اقامت گزیں ہوئے۔
واقعہ:
آپ کےوالدسیدرحمت اللہ داؤدجال سےسکونت ترک کرکےسنگھرہ میں رونق افروزہوئے، پھر سنگھرہ سےشیرگڑھ میں آکرسکونت اختیارکی۔
ولادت:
آپ کی ولادت باسعادت شیرگڑھ میں ۱۰ذوالحجہ ۹۱۰ھ کو واقع ہوئی،یہ بھی کہاجاتاہےکہ ۱۰ ذوالحجہ ۹۲۰ھ کوپیداہوئے۔۲؎
نام:
آپ کانام المعالی ہے،آپ شاہ ابوالمعالی کےنام سےمشہورہیں۔
القاب:
آپ کےالقاب"اسدالدین"اورشاہ خیرالدین"ہیں۔
تعلیم وتربیت:
آپ کی تعلیم وتربیت آپ کےوالد کےسایہ عاطفت میں ہوئی۔آپ کےوالد نےعلوم ظاہری آپ کو پڑھائے۔علوم ظاہری سےجلدہی فارغ ہوئے۔
تلاش حق:
آپ کوعلوم باطنی حاصل کرنےکاشوق ہوا۔آپ کواویسی طریقےپرغوث الاعظم محی الدین حضرت سید عبدالقادرجیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے عشق پیداہوا،شہرکوچھوڑ کرجنگل کی راہ لی،کئی سال تک جنگلوں میں پھرتےرہے۔
کایاپلٹ:
آپ ۹۸۰ھ میں دہلی پہنچے،دہلی کےقیام کےدوران ایک روزآپ کی ایک مجذوب سےسرائےمیں ملاقات ہوئی۔وہ مجذوب آپ کی طرف دیکھ کر مسکرایااوریہ الفاظ زبان پرلایا۔
"عالمیاں امروزبرائےکسب سلوک طریقت و حصول دولت بردرباب شیخ داؤدی روندایشاں آں چناں نعمت درون خانہ گزاشتہ بیرون می روند"۔
ترجمہ:آج لوگ سلوک طریقت وحصول دولت کےواسطےباباشیخ داؤدکےدرپرجاتے ہیں اوریہ ایسی نعمت کوگھرمیں چھوڑکرباہرجاتےہیں۔
بیعت وخلافت:
یہ الفاظ آپ کےلئےکافی تھے،یہ اشارہ پاکرآپ دہلی سے شیرگڑھ روانہ ہوئے،شیرگڑھ پہنچ کر آپ حضرت شیخ داؤد کی خدمت میں حاضرہوئے۔حضرت شیخ داؤدآپ کودیکھتےہی آپ سے مخاطب ہوئے۔
"معالی!پیش بیا۔بارےبگوآں مجذوب راچوں دیدی چہ گفتی وچہ شنیدی"۔
ترجمہ:(معالی آگےآؤ،پھربیان کروکہ جب اس مجذوب کو دیکھاکیاکہااورکیاسنا)۔
آپ نےساراواقعہ حضرت داؤدکےگوش گزارکیا۔
حضرت شیخ داؤدنےآپ سے فرمایا۔
"ہمیشہ میرےپاس رہو،تاکہ تم کووہ حاصل ہو،جودوسری جگہ ساری عمرمیں بھی حاصل نہ ہو "۔
آپ حضرت شیخ داؤدکےمریداورممتازخلیفہ ہیں۔
پیرومرشدکی حقیقت:
ایک دن کا واقعہ ہےکہ آپ حیران،پریشان اوررنجیدہ تھے۔آپ کوغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے دیدارکےشوق نےبےچین کررکھاتھا۔آپ کےپیرومرشد حضرت شیخ داؤد کوبذریعہ کشف آپ کی حالت کی اطلاع ہوئی۔آپ کوتسلی دیتےہوئےآپ کےپیر ومرشدنےفرمایا۔
"معالی!امروزیافرداترابجانب جناب مقدس معلیٰ حاضری می کنم منتظر ساعدووقت باش"۔
"آج یاکل میں تجھ کومقدس معلیٰ کی جانب حاضرکرتاہوں،اس گھڑی کاانتظارکرو"۔
آپ اس نیک ساعت کانہایت بےچینی سےانتظارکرنےلگے۔ایک رات جب کہ آپ کچھ سوتے اورکچھ جاگتےتھے،آپ نےدیکھاکہ آپ کےپیرومرشدتشریف لائےہیں،وہ آپ کاہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑکرحضرت غوث الاعظم کی محفل میں حاضرہوئےہیں۔حضرت غوث الاعظم کے سیدھے طرف ابوالمعالی عراق بیٹھےہیں،آپ کےپیرومرشدوہاں پہنچ کرحضرت غوث الاعظم کےبائیں طرف بیٹھے۔
آپ کےدل میں یہ خطرہ گزراکہ کیاابوالمعالی عراقی جوحضرت غوث الاعظم کےسیدھی طرف بیٹھے ہیں،آپ کےپیرومرشدسےرتبےمیں زیادہ ہیں۔آپ کےدل میں اس خطرےکاآناتھاکہ حضرت غوث الاعظم نےآپ کی طرف دیکھااورعربی میں فرمایا،جس کاترجمہ حسب ذیل ہے۔
"اےابوالمعالی!تیراشیخ میرادل ہےاوردل بجانب چپ ہی ہوتاہے"۔
لاہورمیں سکونت:
آپ ۱۱۱۰ھ میں اپنےپیردستگیرکےوصال کےبعدلاہورمیں آکررہنےلگےاورمخلوق کو رشدو ہدایت فرمانےلگے۔
وفات:
آپ ۱۶ربیع الاول۱۰۲۴ھ کوواصل بحق ہوئے،۳؎آپ کامزارلاہورمیں فیوض وبرکات کا سرچشمہ ہے۔
سیرت:
آپ صاحب کشف وکرامات تھے،حضرت غوث الاعظم کےسچےعاشق تھے،اپنےپیرومرشدسے والہانہ عشق تھااوراپنےپیرومرشدکی عنایات و الطاف وکرم کااس طرح اعتراف کرتے ہیں
بہ تخت فقرنشینم جوحاصل گشت مقصودم |
سلیمانی کنم کزجان غلام شیخ داؤدم |
آپ فنافی الشیخ کےدرجےپرفائزتھے۔
علمی ذوق:
آپ ایک خدارسیدہ بزرگ ہونےکےعلاوہ ایک عالم بھی تھے۔آپ نےکئی کتابیں لکھی ہیں۔آپ کی مشہورتصانیف حسب ذیل ہیں۔
تحفتہ القادری،باغ ارم،زعفرانِ زار،رسالہ مونس جاں۔
شعروشاعری:
آپ ایک خوش گوشاعربھی تھے۔آپ کاتخلص"غربتی"ہےکہیں آپ نے"مسلمے"اورکہیں "معالی"تخلص بھی استعمال کیاہے۔
آپ صاحب دیوان تھے،ایک مشہورغزل کےچنداشعارحسب ذیل ہیں
تشندلب گویان سوئےبحرعرفاں می روم |
سرزدہ چوں سیل اشک خودبافغاں می روم |
حاجی بغدادگیلانم زشوق خضرتش |
گہ سوئےبغدادوگاہےسوئےگیلاں می روم |
ہم عرب شدہم عجم صید تواے ترک عجم |
براسیرخویش رحمے کن کہ حیراں می روم |
غربتی سروقد خضرت مبارک پےکجااست |
تاشودرہبرکہ سوئےآب حیراں می روم |
آپ کی ایک مشہوررباعی حسب ذیل ہے
یارب بحق جمال عبدالقادر |
یارب بحق کمال عبدالقادر |
برحال ابوالمعالی زاروضعیف |
رحمےکن ودہ وصال عبدالقادر |
تعلیمات:
آپ کی بعض تعلیمات حسب ذیل ہیں۔
محبت کا تعلق:
آپ اس خیال سےمتفق نہیں کہ مرنےکےبعدعشق ومحبت کاتعلق بےکارہے،آپ کےنزدیک ہر حالت نفس کی مخالفت نیک فال ہے۔جس طرح کہ کوٹھےپرزاغ کی آوازمہمان کےآنے کی بشارت ہے،اسی طرح نفس کاپکارنامرادپوری ہونےکی دلیل ہے۔
اقوال:
۔ جب میں دل وجان سےمحبوب کاعاشق زار ہوں اورجناب کی بھی کمال مہربانی میرےشامل حال ہے تو پھرمجھےکسی غیرکی کیاحاجت ہے۔
۔ یاالٰہی!مجھےاپنےپیرکی محبت کی توفیق عطافرما،تاکہ میرامقصود حاصل ہو۔
کشف و کرامات:
ایک مرتبہ ملاشاہ ایک عالم وعامل ملانعمت اللہ کےہمراہ آپ کی خدمت میں حاضرہوئے،آپ وہاں بیٹھےہوئےتھےکہ ایک شخص آپ کی خدمت میں آیااورآپ کو تسبیح نذرکی،وہ تسبیح دیکھ کران کے دل میں خیال پیداہواکہ یہ آپ کی کرامت ہوگی،اگرآپ ان کی خواہش سے بذریعہ کشف مطلع ہوں اوروہ تسبیح ان کوعطاکریں۔
وہ جب آپ سے رخصت ہونےلگےتوآپ نےوہ تسبیح ان کو دی اورتاکیدفرمائی کہ ہرروز(۱۰۰)سو بارصلوٰۃ(درودشریف)پڑھاکریں۔۴؎
ملانعمت اللہ کوایک دن یہ خیال آیاکہ ان کو اعتقاد اورمحبت غوث الاعظم محی الدین حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سےہے،اس کی خبرغوث الاعظم کوبھی ہوگی یانہیں۔
اسی رات کو ملانعمت اللہ نےخواب میں دیکھاکہ وہ کسی کام میں درماندہ ہیں اورننگےسرہیں۔
حضرت غوث الاعظم وہاں تشریف لائےاورسفیددستاران کو مرحمت فرمائی اور ان سے فرمایاکہ۔۵؎
"ملانعمت!ماورچنیں جاہاازشماخبرداریم"۔
"ملانعمت!ہم ایسی جگہ(حالت میں)تمہارےحال سے خبردارہیں"۔
دوسرے دن آپ نےان کو بلایا،جب وہ آپ کی خدمت میں حاضرہوئے،آپ نےان کوسفید دستار عطاءکی اورفرمایاکہ یہ وہی دستارہے۔
حواشی
۱؎مقامات داؤدیہ،روضتہ النوادر
۲؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)صفحہ۱۹۶
۳؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)صفحہ۱۹۶
۴؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)صفحہ۱۹۶
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)
۵؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)صفحہ ۱۹۵