حضرت شاہ محمد غوث قادری لاہوری
حضرت شاہ محمد غوث قادری لاہوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت شاہ محمد غوث قادری لاہوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: سید محمد غوث۔ لقب: شیخ المحدثین،شارحِ بخاری، غوث الوقت۔مکمل نام: حضرت سید محمد غوث گیلانی قادری ۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیخ المحدثین حضرت شاہ محمد غوث گیلانی قادری بن ابوالبرکات سید حسن بادشاہ قادری پشاوری بن سید عبداللہ شاہ اصحابی (مکلی) بن سید محمود بن سید عبدالقادر بن سید عبدالباسط بن سید حسین بن سید احمد بن سید شرف الدین قاسم بن سید شرف الدین یحیی بن سید بار الدین حسن بن سید علاؤ الدین بن سید شمس الدین بن سید شرف الدین یحیی بن سید شہاب الدین احمد بن سید ابو صالح نصر بن سید عبدالرزاق بن غوث اعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہم اللہ عنہم اجمعین۔(تذکرہ اولیاءِ سندھ:186) حضرت شاہ محمد غوث کے والد گرامی نے دوسری شادی خاندان ِ سادات ِ کنٹر (افغانستان)غوثِ خراساں سید علی ترمذی المشہور پیر بابا کی پوتی سے کی۔یہ بی بی صاحبہ اتنی نیکوکار و پرہیزگار تھیں کہ ان کا لقب ’’رابعۂ عصر‘‘ تھا۔اسی عفیفہ کے بطن سے حضرت شیخ المحدثین پیدا ہوئے۔(تذکرہ مشائخِ سرحدجلد اول:58/خزینۃ الاصفیا قادریہ:)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت با سعادت 1091ھ مطابق1680ءکو موضع سلطان پور،پشاور میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: اپنے والد گرامی ابوالبرکات سید حسن پشاوری سےگھر میں تربیت حاصل کی۔سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔پھر علوم ِعقلیہ ونقلیہ کی تحصیل میں مصروف ہوگئے۔کابل میں اخوند مولانا محمد نعیم صاحب سےسے علوم متدوالہ تک پڑھے۔پھر احادیث پڑھنے کےلئےلاہور تشریف لےگئے۔لاہور میں مولانا جان محمد لاہوری، میاں نور محمد مدقق، حاجی یار بیگ صاحب، مولانا عبد الہادی، اور مولانا میاں محمد مراد علیہم الرحمہ سے تحصیل ِ علم کیا۔آپ اٹھارہ سال کی عمر میں تما م علوم عقلیہ ونقلیہ سے فراغت حاصل کی۔پھر آپ نے سفرِ حرمین شریفین اختیار کیا۔حج اور زیارت کےبعد علومِ حدیث میں مصروف رہے۔(مقدمہ شرح غوثیہ)۔علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے۔ کہ آپ فرماتے ہیں کہ دورانِ تعلیم میں نے والد گرامی کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے سلوک و معارف کے سبق بھی دیے جائیں۔لیکن وہ ہمیشہ یہی ارشاد فرماتے کہ پہلے علوم ِ ظاہری کی تکمیل کرلو۔اس کے بعد دیکھا جائےگا۔(تذکرہ علماء ومشائخِ سرحد جلداول:76)فی زمانہ خانقاہوں کے زوال کی بنیادی وجہ سجادوں اور خلیفوں کا علوم ِ دینیہ سے بےبہرہ ہونا ہے۔
بیعت وخلافت: علوم میں تکمیل کے بعد والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مروجہ نصاب کی تکمیل ہوگئی ہے۔راہِ حقیقت کا راہی بنائیے۔انہوں نے درخواست قبول کرتےہوئے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت فرمایا اور ذکر الہی کی تلقین کی۔چھ سال تک ذکر و فکر اور نفس کشی میں مصروف رہے۔چھ سال کے مجاہدات کے بعد خلافت عطاء فرمائی۔والد صاحب کے علاوہ جس کےبارے میں بھی معلوم ہوا ان کےپاس حاضر ہوئے۔سب سے پہلے پشاور شہر میں جناب عبد الغفور نقشبندی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔پھر اٹک میں حضرت جی صاحب یعنی شیخ یحییٰ سے ملاقات کی ۔ حضرت جی آپ سے انتہائی شفقت اور محبت سے پیش آئے ۔ ان کی صحبت میں ذکر قلبی غالب ہوا، ذکر قلبی ، حبس کا طریقہ اور بعض دیگر مقامات جو حبس کے لئے ضروری ہیں، ان کی صحبت سے حاصل ہوئے، نیز آپ نے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی اجازت بھی مرحمت فرمائی ۔ اٹک کے گرد ونواح کے فقرا کو مل کر راولپنڈی کے قریب نور پور شاہاں(موجودہ اسلام آباد) میں حضرت شاہ عبد اللطیف بری امام سےملاقات ہوئی۔سرہند شریف میں حاجی صبغۃ اللہ اور میاں عبد الاحد اور میاں فرخ شاہ سے ملاقات ہوئی۔پھر دہلی کی طرف راوانہ ہوئے،وہاں شیخ محمد چشتی اور شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی سےملاقات ہوئی۔انہوں نے اپنی کتب عنایت فرمائیں۔دہلی میں حضرت قطب الاقطاب کے مزار پر معتکف رہے۔پھر اجمیر شریف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے مزار پر حاضری دی۔پھر لاہور واپس تشریف لائے اس وقت لاہور میں شیخ عبدالغنی نامی گرامی تھے ان کےپاس حاضر ہوئے۔ رسالۂ غوثیہ میں رقم طراز ہیں، جب میں تلاشِ حق کے سلسلے میں لاہور پہنچا تو حضرت میاں میر کے مزار پر کئی راتیں گزاریں۔ ایک دن آپ ظاہر ہوئے اور میری طرف توجّہ فرمائی اور ایک شغل میں مشغول رہنے کا حکم کیا اور ارشاد فرمایا: یہ بات کسی اور سے نہ کہنا۔ میں صبح اُٹھ کر شیخ حامد قادری کی خدمت میں حاضر ہوکر طالبِ فیض ہوا۔ فرمایا: رات جو تمہیں حضرت میاں میر نے شغل عطا فرمایا ہے وہی کافی ہے(ایضا:80خزینۃ الاصفیاء قادریہ: 301)
سیرت وخصائص:الفاضل الشہیر،المحدث الاعظم، الفقیہ الافخم، بحر العلوم والفنون، عالم علوم عقلیہ ونقلیہ، عارف العلوم الالٰہیہ وتوحیدیہ،مطلعِ انوار شریعت، واقف اسرار طریقت، غواص ِ بحرِ حقیقت، شیخ التفسیر والمحدثین، سرتاج زاہدین، امام العابدین، سند الاتقیاء، امام الازکیاء،المحدث الکبیر الشاہ محمد غوث پشاوری بن ابوالبرکات سید حسن بادشاہ بن حضرت سید عبد اللہ شاہ اصحابی رحمۃ اللہ عنہم اجمعین۔آپ کے علم وفقر کی شہرت اتنی عام ہوئی کہ ہر کہ و مہ کی زبان پر آپ کی دینی تبلیغ، خدمتِ فقراء،درس اور لنگر کا تذکرہ تھا۔لوگ جوق در جوق آتے اور حسبِ حال امداد حاصل کرکے جاتے۔جو تحائفِ اور ہدایا آتے فقراء،مساکین، بیواؤں اور یتیموں پر صرف کردیتے۔مسافر وں کو زادِ راہ مہیا کرتے،اتنے اخراجات کرنے کےبا وجود آپ کے چہرہ پر کبھی ملال نہیں آیا۔اور نہ ہی کبھی کسی حکمران ِ وقت اور امیر سے کوئی امداد قبول کی۔ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں بادشاہ کی طرف سے ہزار اشرفیاں پیش کی گئیں،آپ نے یہ فرماتے ہوئے واپس کردیں کہ یہ مستحقین میں تقسیم کردیں،اور مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔
درو وتدریس: 1120ھ میں پشاور شہر میں خانقاہ عالیہ قادریہ سید حسن صاحب پر باقاعدہ سلسلہ تدریس شروع کردیا۔درسِ قرآن،درسِ حدیث، اور طریقہ مبارکہ کے ارشادات خود فرماتے۔آپ کے درسِ مبارک میں اکابر علماء کی اولادیں اور مشائخِ کرام کے صاحبزادگان آکر علوم سے بہرہ ور ہوتے۔حدیث شریف کا درس اتنا وسیع تھا کہ پنجاب سرحد کے علاوہ کابل،ہرات، اور غزنی کے طلباء جوق در جوق آکر شامل ہوتے،نیز طلباء کی رہائش، لباس اور طعام کا بندوبست خودفرماتے۔اسی طرح مریدین کی تربیت پر خصوصی توجہ تھی۔آپ کی خانقاہ میں تزکیہ ٔ نفس اور تہذیب ِ اخلاق کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ آپ1148ھ تک پشاور میں رہے اور پھر لاہور تشریف لےگئے۔چاربرس تک لاہور میں بھی اسی طرح تبلیغِ دین اور اشاعتِ سلسلہ میں منہمک رہے۔ چالیس سال آپ نے تدریس فرمائی،بلکہ تدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف میں بھی مشغول رہے۔آپ نے مختلف علوم وفنون پر چار سو کتب تحریر فرمائیں۔ان میں سے اکثر گردشِ زمانہ کی نذر ہوگئیں۔
فضل وکمال: آپ کے ہم نام بزرگ جو کہ آپ کےمرید بھی تھے۔جب محمد شاہ نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد ہندوستان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا اور پشاور پہنچا تو اِن سے استمداد کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا: حضرت شاہ محمد غوث لاہوری کی طرف رجوع کرو۔ اُس نے آپ کو پشاور بلا بھیجا۔ آپ نے جواب لکھ بھیجا کہ ہمارے پیروں کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ بادشاہوں کے پاس جائیں اور اُن کی مدد کریں۔ اللہ ہی مدد گار کافی ہے۔ نادر شاہ یہ جواب پاکر بڑا برہم ہُوا اور کہا: اچھا لاہور پہنچ لُوں اس گستاخی کا مزہ معلوم ہوجائے گا۔ جب پشاور سے کوچ کیا تو راستے میں ایک ندی کی طغیانی نے ایسا راستہ روکا کہ اس کا عبور کرنا دشوار ہوگیا۔ کئی روز انتظار بھی کیا مگر طغیانی کسی طرح کم نہ ہُوئی بلکہ بڑھتی چلی گئی۔ آخر پریشان ہوکر شاہ محمد غوث سےدعا کی درخواست کی۔آپ نے جواب بھیجا:یہ طغیانی تمہارے اس ارادۂ بدکانتیجہ ہے۔ جو تم نے حضرت شاہ محمدغوث کی نسبت کیا ہے۔ یہ سُن کر تائب ہُوا اور لاہور پہنچ کر عقیدت و خلوص کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہُوا اور معذرت چاہی۔
استغناء: جب آپ کے والدِ محترم کا انتقال ہوا تو اس کے فوراً بعد بادشاہ ہندوستاں اورنگ زیب عالمگیر نے آپ کے نام مزار شریف کے گرد چالیس جریب زمین کی سند لکھ کر بھیج دی ، مگر آپ نے قطعی جواب دے دیا کہ ’’ میں فقیر آدمی ہوں ، اللہ کا دروازہ مجھے کافی ہے وہی میرا کارساز ہے ، وہی میرا مولیٰ ہے اور وہ بہت اچھا آقا ہے ‘‘۔(تذکرہ علماء ومشائخِ سرحد جلد اول83:)۔اب بھی یہ سند نیشنل میوزیم کراچی میں موجود ہے۔
حضرت مولانا مفتی غلام سرور لاہوری صاحبِ خزینۃ الاصفیا ء اپنا ایک چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں: کہ رنجیت سنگھ کے پوتے نونہال سنگھ نے جو لاہور میں برسرِ حکومت تھا ایک انگریز مشیر کی تجویز سے لاہور شہر کے ارد گرد دُور دُور تک درخت اور عمارات گراکر میدان بنانے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ اس تجویز کے تحت بہت سے درخت اور عمارتیں منہدم کی گئیں۔ جب حضرت شاہ محمد غوث کے مزار کی عمارتوں اور درختوں کے گرانے کی باری آئی اور کچھ بیرونی درخت اور عمارتیں گرائی جاچکیں اور اندرونی چاردیواری کی نوبت آئی تو نونہال سنگھ کا باپ کھڑک سنگھ مرگیا اور بیٹا باپ کی لاش کو جلا کر واپس آیا اور قلعہ میں داخل ہُوا تو قلعۂ لاہور کی دیوار سے ایک پتّھر گِر کر اس کے سر پر آپڑا جس کے صدمے سے وُہ بھی وہیں ہلاک ہوگیا۔ یہ واقعہ 1840ء میں رونما ہوا اور اس کی وُہ تمام تجاویز دھری کی دھری رہ گئیں۔(خزینۃ الاصفیاء قادریہ:300)
تصنیفات: 1۔شرح غوثیہ: آپ نے بخاری شریف کی شرح لکھی جو شرح غوثیہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ شرح علم حدیث میں ایک بحر نا پیدا کنار ہے ۔ حدیث شریف کے متعلق جتنے علوم ہیں وہ سب اس شرح میں آپ نے حل فرمائے ہیں۔ اس شرح میں علاوہ دیگر متعلقہ علوم کے بخاری شریف کے اسما ء الرجال کو مکمل بیان کیا ہے ۔ فقہ حنفی کی تطبیق نہایت ہی احسن طریقہ پر کی ہے۔2۔رسالہ اصول حدیث:یہ حدیث کے اقسام پر عربی میں آپ نے لکھا ہے ۔3۔رسالہ دربیان کسب سلوک و بیان طریقت و حقیقت (فارسی قلمی)یہ تصوف پر لکھا ہے ۔ یہ رسالہ مکمل و اکمل مرشد ہے 4۔ رسالہ ذکر جہر:اس رسالہ میں قرآن مجید ، احادیث شریف ، کتب فقہ اور کتب علما ء کرام سے مدلل طریقہ سے ذکر جہر کا ثبوت دیا ہے اور نہایت ہی احسن وجوہ بیان فرمائے ہیں ۔ یہ رسالہ عربی میں قلمی ہے۔5۔ ترجمہ قصیدہ غوثیہ شریف (فارسی): قصیدہ شریف کی عام فہم اور صوفیانہ شرح ہے ۔ صرف اور نحو کے مشکل مقامات کو نہایت آسان طریقہ پر حل فرمایا ہے ۔6۔اسرار التوحید(عربی) : قلمی یہ کتاب توحید کے موضوع پر ہے ۔منطق ، فلسفہ اور الہٰیات کی کتابوں پر آپ نے شروحات لکھیں، اورقرآنِ مجید پر ایک حاشیہ بھی تحریرفرمایا تھا۔
تاریخِ وصال: آپ کی وفات 17 ربیع الاول 1152ھ میں ہوئی ۔ بیرون دہلی دروازہ لاہور آپ کا مزار واقع ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ علماء و مشائخِ سرحد۔شرح غوثیہ۔تذکرہ اولیاء سندھ۔خزینۃ الاصفیاء قادریہ۔