حضرت شاہ محمد غوث لاہوری
حضرت شاہ محمد غوث لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سیّد حسن پشاوری کے فرزند ارجمند تھے۔ تعلیم و تربیت اپنے پدرِ بزرگوار کے زیرِ سایہ پائی تھی۔ سلسلۂ قادریہ میں بھی اُنھی کے مرید و خلیفہ تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی کے فاضل و عارف تھے۔ ہندوستان کی سیر و سیاحت بھی کی تھی اور اس دوران میں دیگر مشائخ کبار کی ملاقات و محبت سے بھی اخذِ فیض کیا تھا، خاص کر حافظ عبدالغفور[1] نقش بندی پشاوری، سید محمد سعید[2] المخاطب بہ میراں شاہ بھیکھیہ چشتی صابری، شیخ عصمت[3] اللہ قادری نوشاہی سے کثیر و عظیم فوائد حاصل کئے۔
رسالۂ غوثیہ کے مصنف ہیں۔ اس میں رقم طراز ہیں، جب میں تلاشِ حق کے سلسلے میں لاہور پہنچا تو حضرت میاں میر کے مزار پر کئی راتیں گزاریں۔ ایک دن آپ ظاہر ہوئے اور میری طرف توجّہ فرمائی اور ایک شغل میں مشغول رہنے کا حکم کیا اور ارشاد فرمایا: یہ بات کسی اور سے نہ کہنا۔ میں صبح اُٹھ کر شیخ حامد[4] قادری کی خدمت میں حاضر ہوکر طالبِ فیض ہوا۔ فرمایا: رات جو تمہیں حضرت میاں میر نے شغل عطا فرمایا ہے وہی کافی ہے۔ اِسی رسالے میں ان کے متعلق لکھتے ہیں: آپ ایک صاحبِ دل بُوڑھے قادری درویش مرد ہیں جو پیر علی گنج بخش ہجویری قدس سرہٗ کے مزار کے متصل رہتے ہیں۔
آپ کے ایک ہم نام بزرگ جو آپ کے مرید بھی تھے، پشاور میں رہتے تھے۔ جب نادر شاہ ایرانی نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد ہندوستان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا اور پشاور پہنچا تو اِن سے استمداد کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا: حضرت شاہ محمد غوث لاہوری کی طرف رجوع کرو۔ اُس نے آپ کو پشاور بلا بھیجا۔ آپ نے جواب لکھ بھیجا کہ ہمارے پیروں کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ بادشاہوں کے پاس جائیں اور اُن کی مدد کریں۔ اللہ ہی مدد گار کافی ہے۔ نادر شاہ یہ جواب پاکر بڑا برہم ہُوا اور کہا: اچھا لاہور پہنچ لُوں اس گستاخی کا مزہ معلوم ہوجائے گا۔ جب پشاور سے کوچ کیا تو راستے میں ایک ندی کی طغیانی نے ایسا راستہ روکا کہ اس کا عبور کرنا دشوار ہوگیا۔ کئی روز انتظار بھی کیا مگر طغیانی کسی طرح کم نہ ہُوئی بلکہ بڑھتی چلی گئی۔ آخر پریشان ہوکر شاہ محمد غوث سے دعا کی درخواست کی۔ آپ نے جواب بھیجا: یہ طغیانی تمہارے اس ارادۂ بدکار کا نتیجہ ہے ۔جو تم نے حضرت شاہ محمد غوث لاہوری کی نسبت کیا ہے۔ یہ سُن کر تائب ہُوا اور لاہور پہنچ کر عقیدت و خلوص کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہُوا اور معذرت چاہی۔
حضرت مولانا مفتی غلام سرور صاحبِ خزینۃ الاصفیا ء اپنا ایک چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کے پوتے نونہال سنگھ نے جو لاہور میں برسرِ حکومت تھا ایک انگریز مشیر کی تجویز سے لاہور شہر کے ارد گرد دُور دُور تک درخت اور عمارات گراکر میدان بنانے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ اس تجویز کے تحت بہت سے درخت اور عمارتیں منہدم کی گئیں۔ جب حضرت شاہ محمد غوث کے مزار کی عمارتوں اور درختوں کے گرانے کی باری آئی اور کچھ بیرونی درخت اور عمارتیں گرائی جاچکیں اور اندرونی چاردیواری کی نوبت آئی تو نونہال سنگھ کا باپ کھڑک سنگھ مرگیا اور بیٹا باپ کی لاش کو جلا کر واپس آیا اور قلعہ میں داخل ہُوا تو قلعۂ لاہور کی دیوار سے ایک پتّھر گِر کر اس کے سر پر آپڑا جس کے صدمے سے وُہ وہیں ہلاک ہوگیا۔ یہ واقعہ ۱۸۴۰ء میں رونما ہوا اور اس کی وُہ تمام تجاویز دھری کی دھری رہ گئیں۔ آپ محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں پشاور سے لاہور آکر اقامت گزیں ہوئے تھے۔ آپ کے والدِ ماجد سیّد حسن پشاوری المتوفیٰ ۱۱۱۵ھ کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ آپ نے بقولِ مولّفِ تشریف الشرفا ۱۱۵۲ھ میں وفات پائی۔ مزار بیرون اکبری دروازہ زیارت گاہِ خلق ہے۔
چوں محمد غوث رفت از دارِ فنا |
سالِ وصلِ آں ولیِ متقی! |
[1]۔ حافظِ قرآن و صاحبِ علم و عمل تھے۔ زہدو ورع و عبادت و ریاضت میں ممتاز تھے۔ تمام رات حبسِ دم سے مراقبہ و مجاہدہ کرتے تھے۔ بڑے مستغنی المزاج تھے۔ داد و دہش اور جودوسخا میں لاثانی تھے۔ مساکین اور مسافروں کی بڑی خدمت کرتے تھے۔ دستر خوان بڑا وسیع تھا۔ مطبخ ہر وقت گرم رہتا تھا۔ ظاہری مال و دولت نہ رکھتے تھے۔ کبھ کسی امیر و سلطان کے ہاں نہیں گئے نہ کسی کا نذرانہ قبول کیا، تمام کام دستِ غیب سے چلتے تھے۔ ۱۱۱۶ھ میں وفات پائی۔ مزار پشاور میں ہے۔
[2]۔ سیّد محمد سعید نام، والد کا نام سیّد محمد یوسف تھا۔ میراں شاہ بھیکھ خطاب۔ حضرت شاہ ابوالمعالی چشتی صابری کے نامور مرید و خلیفہ تھے۔ جامع علوم و فنون تھے۔ اپنے فضل و کمال کے باعث مشائخ متاخرین میں ممتاز الوقت تھے۔ آپ کے حلقۂ ارادت سے بڑے بڑے باکمال تربیت پاکر نکلے ہیں۔ شاعر بھی تھے۔ فارسی اشعار اور ہندی دوہے بکثرت کہے ہیں۔ رنگِ کلام عارفانہ ہے۔ ۱۱۳۱ھ میں وفات پائی۔ آپ کا مفصل ذکر بزرگانِ سلسلۂ چشتیہ میں آئیگا۔ ان شااللہ
[3]۔ آپ کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
[4]۔ آپ حضرت شیخ محمد میرالمعروف بہ میاں میر کے ہمعصر اور فیض یافتہ تھے اور آپ سے ایک سال قبل ۱۰۴۴ھ میں وفات پا چکے تھے۔ ان کا مزار حضرت میاں میر قدس سرہٗ کے مزار سے متصل ہے۔ یہ حامد قادری جن سے آپ نے زندگی میں ملاقات کی ہے کوئی اور اس نام کے بزرگ ہوں گے۔
[5]۔ حضرت شاہ محمد غوث کے مستند حالات کے لیے تذکرہ علماء مشائخ سرحد، تذکرہ مشائخ قادریہ حسنیہ اور تذکرہ سیّد عبداللہ شاہ ٹھٹھوی از تصانیف حضرت مولانا سیّد محمد امیر شاہ پشاوری دیکھنے ضروری ہیں۔ پیام شاہجہانپوری نے ان کے حالات میں ایک مستقل کتاب ’’تذکرہ شاہ محمد غوث‘‘ تصنیف کی ہے۔