شمس الائمہ عبد العزیز حلوائی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:عبد العزیز ۔کنیت:ابومحمد۔لقب:شمس الائمہ حلوائی۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:شمس الائمہ عبد العزیز حلوائی بن احمد نصر بن صالح حلوائی بخاری۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔(الاعلام،للزرکلی:13)
حلوائی نسبت: آپ مٹھائی وحلوہ کا کاروبار کرتےتھے۔اس لئے حلوائی کہلاتے ہیں۔بعض علماء نے فرمایا کہ آپ کا تعلق قصبۂ "حلوان" سےتھا۔اس لئے علاقے کی نسبت سے حلوائی یا حلوانی کہلاتے ہیں۔اس سےمعلوم ہوا کہ علماء کو تجارت کرنا چاہئے،اور خوددار ہوکر یکسوئی کےساتھ دین متین اور ملک و ملت کی خدمت میں مصروف ِ عمل ہوکر کرداراداکرنا چاہئے۔(ایضاً:13)
تحصیل علم: ابن کمال پاشا نے آپ کو مجتہدین فی المسائل میں شمار کیا ہے۔فقہ آپ نے حسین ابی علی نسفی شاگرد ابی بکر محمد بن فضل تلمیذ عبداللہ مونیس سے حاصل کی اور حدیث کو ابی شعیب صالح بن محمد بن صالح بن شعیب اور ابی سہل احمد بن محمد بن مکی الانماطی اور ابو اسحٰق رازی اور اسمٰعیل بن محمد زاہد اور عبداللہ بن محمد کلا باذی اور عبداللہ بن حسین کتاب اور حافظ محمد بن احمد غنجاروغیرہ سے سنا اورروایت کیا اور امام طحطاوی کی شرح معانی الآثار ابی بکر محمد بن عمر بن حمدان سے روایت کیا۔علم میں ذوق شوق اور محنت کی بدولت امام الاحناف ،اورعظیم فقیہ بن گئے۔(حدائق الحنفیہ:221/سیر اعلام النبلاء،ذکر شمس الائمہ)
سیرت وخصائص: شمس الائمہ،امام الحنفیہ،فقیہ،محدث،متکلم،مدرس ،صاحبِ تصانیف مفیدہ،امام الکبیر ،فاضل ِجلیل،حضرت شمس الائمہ عبد العزیز حلوائی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ پانچویں صدی ہجری کےفقہاء حنفیہ کےسرتاج ہیں۔ابنِ کمال پاشا نے آپ کو مجتہدین فی المسائل میں شمار کیا ہے۔بخارا میں اپنے وقت کےامام الاحناف تھے۔
ان کے والد بہت مفلس اورتنگدست تھے اور مٹھائی بنا کر بیچا کرتے تھے ان کی عادت تھی کہ اکثر وبیشتر فقہاءکرام کومٹھائیاں وغیرہ بھیجتے رہتے تھے اوران سے عرض کرتے کہ بس میرے بیٹے کیلئے دعا فرمایا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو علم دین کی دولت عطاکرے۔ ان کی سخاوت،حسنِ عقید ت اورگریہ وزاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے بیٹےشمس الائمہ نے علم کے اعلیٰ مدارج کو طے کیا اوروہ اپنے وقت کے مایہ ناز عالم ثابت ہوئے جو شمس الائمہ حلوائی،اورامام الاحناف کہلائے۔ان کے شاگردوں میں شمس الائمہ سرخسی،فخرالاسلام بزدوی اور ان کےبھائی صدر الاسلام کا نام آتا ہے۔ (حدائق الحنفیہ:221)۔(اس سےمعلوم ہوا کہ جو شخص یہ تمنا رکھتا ہو کہ اس کا بیٹاعالم دین بنے تو اسے چاہئے کہ اہل علم حضرات کی قدر کرے۔ان کی برکت سےاللہ جل شانہ علم کی دولت عطاء فرمائے گا)۔آپ کی تصانیف میں المبسوط،نوادر فی الفروع،فتاویٰ فی الفروع،اور شرح ادب القاضی، امام ابو یوسف مشہور ہیں۔
تاریخِ وصال: آپ اخیر عمر میں بخارا سے شہر کش تشریف لےگئے،اور وہیں 13/شعبان المعظم 448ھ،مطابق ماہ اکتوبر/1056ء کوہوا۔آپ کی نعش کو وہاں سےبخارا میں منتقل کیا اور یہیں دفن ہوئے۔آپ کی قبر بخارا میں زیارت گاہِ خاص وعام ہے۔
ماخذومراجع: الاعلام۔حدائق الحنفیہ۔سیر اعلام النبلاء۔