حضرت شمس الائمہ عبدالعزیز حلوائی بخاری

حضرت شمس الائمہ عبدالعزیز حلوائی بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

عبد العزیزاحمد بن نصر صالح بخاری: شمس الائمہ لقب تھا،چونکہ آپ حلوا بیچا کرتے تھے اس لیے حلوائی کی نسبت سے معروف تھے۔بعض نے کہا کہ آپ کو حلوائی کہنا چاہئے کیونکہ آپ قصبۂ حلوان کے باشندہ تھے۔بہر حال اپنے زمانہ کے امام کبیر فاضل بے نثیر فقیہ محدث ثقہ تھے،حدیث اور اہل حدیث کی بری توقیر کیا کرتے تھے۔ابن کمال پاشا نے آپ کو مجتہدین فی المسائل میں شمار کیا ہے۔فقہ آپ نے حسین ابی علی نسفی شاگردی ابی بکر محمد بن فضل تلمیذ عبداللہ سبذ مونیس ے حاصل کی اور حدیث کو ابی شعیب صالح بن محمد بن صالح بن شعیب اور مجازی اور ابی سہل احمد بن محمد بن مکی الانماطی اور ابا اسحٰق رازی اور اسمٰعیل بن محمد زاہد اور عبداللہ بن محمد کلا باذی اور عبداللہ بن حسین کتاب اور حافظ محمد بن احمد غنجا رو غیرہ سے سنا اور روایت کیا اور امام طحطاوی کی شرح معانی الآثار کو ابی بکر محمد بن عمر بن حمدان سے روایت کیا اور آپ سے شمسل لائمہ بکر زنجری اور محمد بن علی والد شمس الائمہ بکر زنجری اور شمس الائمہ محمد سرخسی اور ابی بکرمحمد بن حسین اور فخر الاسلام علی بن محمد بن حسین بزدوی اور ان کے بھائی صدر الاسلام ابو الیسر محمد بن محمد اور قاضی جمال الدین ابو نصر احمد بن عبد الرحمٰن وغیرہ نے تفقہ اور روایت کیا،حافظ الحدیث ابو محمد عبد العزیز بن محمد نخشبی اپنی معجم شیوخ میں آپ کو اپنے شیوخ میں بیان کر کے کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے آپ کی تمام امالی سنی ہیں۔آپ ہمیشہ فقہاء کو حلوا کھلایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ دعا کروہمیں خدا لڑکا عطا کرے،پس خدا نے آپ کو بسبب بخشش اور اعتقاد اور تضرع کے جیسا کہ آپ چاہتے تھے ویسا لڑکا عطا کیا۔

آپ کی تصانیف میں سے کتاب مبسوط اور نوادر مشہور و معروف ہیں۔ اخیر عمر میں آپ بخدا سے شہر کش میں تشریف لے گئے اور وہیں ماہ شعبان ۴۴۸؁ھ یا ۴۵۸؁ھ میں وفات پائی اور آپ کی نعش کو بخارا میں لاکر قبرستان کلا باذ میں دفن کردیا گیا جواب زیارت گاہ و خاص ہے،سال وفات آپ کا ’’صدر مسند‘‘ ہے۔

(حدائق الحنفیہ)

تجویزوآراء