شیخ سید عباس بن علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ
محدث حجاز کے چھوٹے بھائی شاگرد و معاون خاص، خوش الحان۔ اپنے والد گرامی نیز مکہ مکرمہ کے دیگر اکابر علماء کرام سے اخذ ِ علوم کیا۔ علاوہ ازیں مفتی اعظم ہند مولانا مصطفٰی رضا خان بریلوی و مولانا ضیاء الدین مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ قادریہ وغیرہ شرعی علوم میں اجازت و خلافت پائی۔ حجاز مقدس میں نعت خوانی و نعتیہ محافل کی علامت ، خوب صورت آواز کے باعث محدث حجاز نے آپ کو "بلبل حِجاز" کا خطاب دیا۔ مشہور و مقبول شعراء کی لا تعداد نعتیں اور علماء و اولیاء کے مناقب حفظ تھیں۔ دلۃ البرکۃ گروپ جدہ کی ملکیت ARTنامی ٹیلے ویژن چینل پر آپ کی پڑھی گئی نعت نشر ہوتی رہتی ہے ،جیسا کہ 1421 ھ کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے نعت دس ربیع الاول کو نشر کی گئی۔ مختلف عرب ممالک بالخصوص مصر، یمن سوڈان نیز انڈ و نیشیا و ہندوستان میں نعت کے فروغ میں خدمات انجام دیں۔
مکہ مکرمہ میں نکاح خوانی کے سرکاری مجاز قدیم ثقافت بالخصوص حجازی ثقافت کے شیدائی، شیخ الدلائل و البردۃ۔ قاہرہ مصر میں واقع صوفیاءکرام کی عالم گیر تنظیم "المشیخۃ المعامۃ للطرق الصوفیہ" نے آپ کو دلائل الخیرات ، قصیدہ بردہ مولود برزنجی وغیرہ پڑھنے اور ان کی مجالس منعقد کرنے کی سند جاری کی۔ ادھر لیبا میں صوفیاءکی اعلیٰ تنظیم " المجلس العامہ للتصوف الاسلامی"نے علم تصوف نیز لوگوں کے دلوں میں محبت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اُجاگر کرنے اور نعت کے فروغ میں خدمات کے اعتراف میں سند پیش کی ، دونوں اسنادکا عکس "المحفوظ المروی"میں ہے۔ آپ کی دلائل الخیرات اور متداول مولو دناموں میں سے بعض کی اسانید روایت ، سید نبیل بن ہاشم حسینی شافعی مکی نے مرتب کر کے" عقود الزبر جدو المآس فی اسانید السید عباس" کا نام دیا، جو "المحفوظ المروی"کے آخر میں شامل ہے۔
سید عباس مالکی نے مکہ مکرمہ و اہل حِجاز کی ثقافت و رہن سہن پر ایک کتاب " ھٰکذا کانو" تالیف کی نیز محدث حجاز کی تحریک و خواہش پر والد گرامی کے بارے میں دیگر اہل علم کی اخبارات و رسائل میں شائع شدہ نظم و نثر پر مشتمل تحریروں کو یک جا کیا، مزیدوں برآں خود سید علوی مالکی کی مختلف موضوعات پر منظومات اور ریڈیو کی چند تقاریر جمع کیں، پھر یہ سارا مواد 2003 کو 406 صفحات پر کتابی صورت میں"صفحات مشرقۃ من حیاۃ الامام السید الشریف علوی بن عباس المالکی الحسنی"کے نام سے شائع کرایا۔ آپ کے چار فرزندان،سید عاصم ،سید علوی، سید عمرو سید سعید ہیں۔
محدث اعظم حجاز نے 1398ھ / 1978ء کو ہندوستا ن کے جنوبی صوبہ کیرلہ یا مالا بار کے شہر کالی کٹ سے چودہ کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھا، پھر عمر بھر سر پرستی کی یہ "مرکز سنی اسلامی ثقافت" کہلاتاہے، اور تعلیم دیگر سماجی خدمات میں فعال ہے۔ مقامی عالم مولانا ابو بکر احمد قادری شافعی اس کے روحِ رواں ہیں، اور ان دنوں سات ہزار طلباء و تقریباً دو ہزار طالبات مرکز میں زیرِ تعلیم ہیں۔
محرم 1426ھ / فروری 2005 کو اس کا ستائیسواں سالانہ جشن دستار فضیلت منعقد ہوا۔ جس میں محدث حرمین شریفین کے بھائی شیخ سید عباس بن علوی مالکی مہمان خصوصی تھے۔اس میں ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور عرب دنیا کے اکابر علماء و مشائخ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔جن میں مکہ مکرمہ سے آئے ہوئے علامہ سید عبد اللہ فراج شریف ، شیخ سید عبد اللہ محمد فد عق ڈاکٹر شیخ عمر عبد اللہ کامل، ام القریٰ یونی ورسٹی کےسابق پروفیسر و ملک شام کے عالم و مفسر شیخ محمد علی صابونی ،کویت کے قاری شیخ احمد سنان اور ڈاکٹر شیخ ابراہیم رفاعی، متحدہ عرب امارات کے صدر کے مشیر شیخ سید علی ہاشمی،مراکش کے شیخ ماء العینین ، مصر کے شیخ اسامہ سید ازہری، دار المصطفٰی تریم یمن کے شیخ سید علی زین العابدین جفری اہم نام ہیں ۔چھبیس فروری کو اجتماع کی مرکزی تقریب منعقد ہوئی، جس میں شیخ سید عباس مالکی و دیگر اکابرین نے خطاب فرمایا،ا س موقع پر تقریباً دس لاکھ افراد موجود تھے ۔ اور چھ سو چالیس فراغ پانے والے طلباء کی دستار بندی کی گئی۔
ایک اردو تذکرہ نگار نے نام کی یکسانیت کی بناء پر شیخ سید عباس بن علوی مالکی کی بجائے ان کے ان کے دادا شیخ سید عباس بن عبد العزیز مالکی رحمۃ اللہ علیہ کو مفتئ اعظم ہند مولانا مصطفٰی رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ قرار دے دیا ۔جو درست نہیں۔ حق یہ ہے کہ مالکی گھرانہ کی فقط دو شخصیات ، خود محدث حجاز اور ان کے بھائی شیخ سید عباس مالکی نے مفتئ اعظم ہند سے اجازت و خلافت پائی تھی۔
اس عظیم سنی عالمِ دین کاوصال 25/جمادی الاخری 1436ھ مطابق 14/اپریل 2015ءکومکۃ المکرمہ میں ہوا۔ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی قبرمبارک کےپاس تدفین ہوئی۔
ماخذ و مراجع:محدث اعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت۔