حضرت شیخ عبدالملک عرف امان پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اسمِ گرامی: آپ کا نام عبدالملک۔ اورلقب: امان اللہ تھا۔ لیکن عام طور پر لوگ امان کے لقب سے زیادہ یاد کرتے تھے۔
تحصیلِ علم: شیخ امان اللہ پانی پتی شیخ مودود لاری کے شاگرد تھے۔ ان اور کثیر علماء سے اکتسابِ فیض کیا۔
بیعت وخلافت: آپ رحمۃ اللہ علیہ شیخ محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔اکثر سلسلوں سے تعلق رکھتے تھےا ور مسلک قادریہ میں دو واسطوں سے نعمت اللہ شاہ ولی تک پہنچتے ہیں تمام مسلکوں میں سے مسلک قادریہ آپ پر غالب تھا۔
سیرت وخصائص:حضرت شیخ عبد الملک امان اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ ایک صوفی اور توحید پرست عالم تھے اور شیخ ابن عربی کے متعبین میں سے تھے۔ جماعت صوفیا میں بُلند مرتبہ رکھتے تھے، مسئلہ توحید کی تقریر میں ماہر تھے توحید کی باتیں صاف صاف بیان کرتے اور کہتے تھے کہ آج اگر عدل و انصاف موجود ہوتا تو میں توحید کو برسرِ منبر اس طرح وضاحت سے بیان کرتا کہ اس میں کسی کو انکار کی گنجائش نہ رہتی، نیز فرمایا کرتے تھے کہ ابتداً مجھے صرف دودلیلیں یاد تھیں لیکن اب اللہ کے فضل سے سولہ دلیلیں یاد ہیں۔ شیخ امان نے علم تصوف و توحید میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں ان میں سے ایک کتاب "اثبات الاحدیث" ہے جس میں اللہ کے حاکم علی الاطلاق ہونے اور کائنات کے حقائق کو علم الیقین کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ گویا آنکھوں دیکھا ہو اور علم کے مطابق کامل ذوق کو کلمات محققین و اہل توحید کے موافق تحریر کیا ہے۔ مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب" لوائح" کی کافی مبسوط تفصیلی شرح لکھی ہے جس کے اول میں نہایت جامع اور مفید ایک مقدمہ لکھا ہے۔ تہذیب اخلاق و عادات میں بلند مقام رکھتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ درویشی میرے نزدیک دو چیزوں میں ہے، ایک خوش اخلاقی اور دوسری محبتِ اہلِ بیت۔ اور محبت کا کامل درجہ یہ ہے کہ محبوب کے متعلقین سے بھی محبت کی جائے۔ اللہ سے کمالِ محبت کی نشانی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی علامت یہ ہے کہ آپ کے اہلِ بیت سے محبت ہو۔
تصوف میں مشربِ ملامتیہ رکھتے تھے۔ آپ کی مجلس و صحبت میں دنیا کی باتیں کسی کی غیبت اور بے ہودہ گفتگو نہیں ہوتی تھی۔ اکثر اوقات اشاعتِ علوم اور ذکرِ حق میں بسر کرتے تھے اور تصوف کی کتابوں سے مانوس تھے۔ ان کے پڑھانے میں ہمیشہ مشغول رہتے تھے اور فرماتے تھے: اے اللہ! ہم کو صوفیا کے اقوال و افعال سے بہرہ ور کر۔ نیز فرمایا کرتے تھے کہ علمِ تصوف کا قول عین حال ہے اور کہتے کہ ہر ایک کو کسی خاص چیز کی رغبت ہوتی ہے اور مجھے کتبِ تصوف کی رغبت ہے۔ اگر کوئی طلب گارِ حق آپ کے پاس آتا تو اس سے فرماتے کچھ پڑھو کیونکہ ہمارا طریقہ یہی ہے اسی وجہ سے لوگوں کا ہجوم آپ کے پاس نہیں ہوتا تھا آپ کی کوئی علیحدہ خانقاہ نہیں تھی۔ طالبوں کو عِشق صورت سے منع کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس میں مبتلا ہونے سے مبتدی کا کام رک جاتا ہے، اپنی آسائش اور خواب کے لیے کوئی چیز اپنے پاس نہ رکھتے تھے، زمین پر لیٹتے تھے اور غذا تھوڑی کھاتے تھے اور ہر حالت میں فقیروں کو سلوک کی تعلیم دیتے تھے۔
تاریخِ وصال: حضرت شیخ امان اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے 12 ربیع الثانی 997ھ/بمطابق فروری 1589 ء کو آپ نے انتقال فرمایا۔
ماخذ ومراجع: اخبارالاخیار