حضرت شیخ عبدالملک عرف امان پانی پتی
حضرت شیخ عبدالملک عرف امان پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا نام عبدالملک اور امان اللہ لقب تھا لیکن عام طور پر لوگ امان کے لقب سے زیادہ یاد کرتے تھے، آپ ایک صوفی اور توحید پرست عالم تھے اور شیخ ابن عربی کے متعبین میں سے تھے، جماعت صوفیا میں بُلند مرتبہ رکھتے تھے، مسئلہ توحید کی تقریر میں ماہر تھے توحید کی باتیں صاف صاف بیان کرتے اور کہتے تھے کہ آج اگر عدل و انصاف موجود ہوتا تو میں توحید کو برسرِ منبر اس طرح وضاحت سے بیان کرتا کہ اس میں کسی کو انکار کی گنجائش نہ رہتی، نیز فرمایا کرتے تھے کہ ابتداً مجھے صرف دودلیلیں یاد تھیں لیکن اب اللہ کے فضل سے سولہ دلیلیں یاد ہیں، شیخ امان نے علم تصوف و توحید میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں ان میں سے ایک کتاب ’’اثبات الاحدیث‘‘ ہے جس میں اللہ کے حاکم علی الاطلاق ہونے اور کائنات کے حقائق کو علم الیقین کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ گویا آنکھوں دیکھا ہو اور علم کے مطابق کامل ذوق کو کلمات محققین و اہل توحید کے موافق تحریر کیا ہے۔ مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب لوائح کی کافی مبسوط تفصیلی شرح لکھی ہے جس کے اول میں نہایت جامع اور مفید ایک مقدمہ لکھا ہے۔ تہذیب اخلاق و عادات میں بلند مقام رکھتے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ درویشی میرے نزدیک دو چیزوں میں ہے، ایک خوش اخلاقی اور دوسری محبت اہل بیت، اور محبت کا کامل درجہ یہ ہے کہ محبوب کے متعلقین سے بھی محبت کی جائے، اللہ سے کمال محبت کی نشانی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی علامت یہ ہے کہ آپ کے اہل بیت سے محبت ہو۔
سادات کا ادب: اگر آپ کے پڑھتے پڑھاتے آپ کی گلی سے سید زادے کھیلتے کودتے نکلتے تو آپ ہاتھ سے کتاب رکھ کر سیدھے کھڑے ہوجاتے اور جب تک سید زادے موجود رہتے آپ بیٹھتے نہ تھے۔
تصوف میں مشرب ملامتیہ رکھتے تھے، آپ کی مجلس و صحبت میں دنیا کی باتیں کسی کی غیبت اور بے ہودہ گفتگو نہیں ہوتی تھی، اکثر اوقات اشاعت علوم اور ذکر حق میں بسر کرتے تھے اور تصوف کی کتابوں سے مانوس تھے ان کے پڑھانے میں ہمیشہ مشغول رہتے تھے اور فرماتے تھے اے اللہ ہم کو صوفیا کے اقوال و افعال سے بہرہ ور کر، نیز فرمایا کرتے تھے کہ علم تصوف کا قول عین حال ہے اور کہتے کہ ہر ایک کو کسی خاص چیز کی رغبت ہوتی ہے اور مجھے کتب تصوف کی رغبت ہے، اگر کوئی طلب گار حق آپ کے پاس آتا تو اس سے فرماتے کچھ پڑھو کیونکہ ہمارا طریقہ یہی ہے اسی وجہ سے لوگوں کا ہجوم آپ کے پاس نہیں ہوتا تھا آپ کی کوئی علیحدہ خانقاہ نہیں تھی، طالبوں کو عِشق صورت سے منع کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس میں مبتلا ہونے سے مبتدی کا کام رک جاتا ہے، اپنی آسائش اور خواب و خور کے لیے کوئی چیز اپنے پاس نہ رکھتے تھے، زمین پر لیٹتے تھے اور غذا تھوڑی کھاتے تھے اور ہر حالت میں فقیروں کو سلوک کی تعلیم دیتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک درویش حاضر ہوا اور کہا کہ آسمان سے میرے لیے ہزار گائے آئے جنہیں ابھی ابھی چند مغل ہانک لے گئے ہیں بس آپ کھڑے ہوجائیے اور ان سے میری گائے دلوائیے، حاضرین نے یہ بات سن کر مذاق اڑایا لیکن آپ نے ان کو منع کیا اور فرمایا ہر درویش سے محبت کرنا چاہے بعد میں آپ نے اس درویش کے لیے کھانا منگوایا وہ کھاپی کر سوگیا اس کا پہلا جذبہ ختم ہوگیا، جب وہ درویش وہاں سے رخصت ہوگیا تو آپ نے اپنے دوستوں سے فرمایا کہ مجذوبوں کو بہت سی چیزیں دکھائی دیتی ہیں جن کا کسی طرح بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، عالم نمود میں سب کچھ موجود ہے۔ کیا تعجب ہے کہ اس نے یہ واقعہ بھی دیکھا ہو۔
بعض اوقات آپ کی فرض نمازیں بھی قضا ہوجاتی تھیں کیونکہ آپ اکثر ذکر میں مشغول و منہمک رہتے تھے اور چونکہ علم و حال صداقت و کمال ان کی خاص صفات تھیں اس لیے ان کی طرف کوئی بُرا خیال نہیں کیا جاسکتا، ساری رات بیدار رہتے اور اسی بیداری میں کئی دفعہ اُٹھ کر وضو کرتے پھر وجد کی حالت میں نعرے لگاتے، باقی حقیقت حال اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔
ایک بار شیخ امان کو اس حالت میں دیکھا گیا کہ وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور سورۂ فاتحہ میں ایاک نعبدوایاک نستعین پوری طرح نہ پڑھ سکتے بلکہ اس کو بار بار دہراتے یہاں تک کہ بے ہوش ہوکر گرپڑتے، نماز پڑھتے وقت آپ کا رنگ متغیر ہوجاتا اور قیام کی طاقت نہ رہتی، واللہ اعلم
آپ شیخ محمد حسن کے مرید اور شیخ مودود لاری کے شاگرد تھے، اکثر سلسلوں سے تعلق رکھتے تھےا ور مسلک قادریہ میں دو واسطوں سے نعمت اللہ شاہ ولی تک پہنچتے ہیں تمام مسلکوں میں سے مسلک قادریہ آپ پر غالب تھا۔
شیخ امان اپنے دوستوں سے ملنے دہلی آیا کرتے تھے آخری مرتبہ جب دہلی سے جانے لگے تو اپنے دوستوں سے کہا کہ اس مرتبہ لمبا سفر کرنا ہے اس پر آپ کے مخصوص دوست شیخ زکریا اجودھنی نے کہا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ سفر میں رہیں گے آپ نے جواب میں فرمایا کہ اگر ظاہری سفر ہوتا تو آپ ساتھ ہوتے لیکن یہ دوسرا سفر ہے اس لیے میں آپ کو اللہ کی حفاظت میں دے کر جا رہاہوں پھر بعد میں گھر جاکر آپ نے ہر چیز کو دیکھا اور ان سے رخصت ہوئے، قرآن شریف کو کھول کر دیکھا اور فرمایا اے کتاب کریم میں نے تجھ سے استفادہ کرکے بے حد فائدے اُٹھائے، اسی طرح کمرہ اور کمرے کی ہر چیز کووداع کہا اسی حالت میں آپ کو بخار چڑھ گیا تو آپ نے فرمایا بہت سا پانی گرم کرو اور نئے لوٹے لے آؤ تاکہ عمر بھر کے وسوسے دور ہوجائیں۔
گیارہ ربیع الثانی کو غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کا عرس کیا اور کہا کہ غوث پاک سے پہلے قدم اٹھانا درست نہیں چنانچہ اس دن عرس کے لیے جو کھانا پکوایا تھا تقسیم کردیا۔
بارہ ربیع الثانی کو آپ پر سکرات موت کا غلبہ ہوا تو آپ نے اسی حالت میں کہا مشائخینِ طریقت کھڑے ہیں اور فتویٰ توحید طلب کر رہے ہیں چنانچہ کلمات توحید آپ کی زبان پر جاری تھے۔ بارہ ربیع الثانی 997ھ کو آپ نے انتقال فرمایا۔
آپ کے شاگرد و معتقد بکثرت ہیں جن میں سے شیخ تاج الدین بن زکریا اجودھنی بھی آپ کے شاگرد تھے جو کہ حسن خلق اور معرفت کتب توحید و تصوف میں آپ کے برابر تھے، اور دوسرے شیخ رکن الدین صاحب ذوق تھے، گفتگوئے توحید اور وجدانیات میں ممتاز تھے، پہلے آپ ہی استفادہ کرتے رہے اور بعد میں شیخ سلیم سیکری کے پاس پہنچے، نیز شیخ حسین چشتی جوکہ خطاطی جودت طبع، شعر گوئی، ذوق و حال میں امتیازی شان رکھتے تھے ان کا یہ شعر اب تک زندۂ جاوید ہے۔
چنیں کہ برپر طاؤس قیس رامیلے است
مگر درد اثرے پائے ناقہ لیلیٰ است
اور ایک شیخ مولانا حسین نقشی ہیں جو کہ خطاطی میں ماہر اور مہر بنانے میں بے نظیر تھے، آپ بڑے بابرکت، سخی، بیداردل، خوش وقت، خوش خلق، ولی خصلت پاکیزہ دل اور اپنے دوستوں کی بڑی خاطر و مدارات کیا کرتے تھے، آپ شیخ بہلول کے مرید تھے لیکن شیخ امان کی خدمت اور محبت و صحبت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔
(اخبار الاخیار)
آپ کا اسم گرامی عبد الملک تھا خطاب امان اللہ تھا شیخ محمد حسن قدس سرہ کے مرید تھے آپ کے والد حسن طاہر راجی حامد شاہ کے مرید ہیں ظاہر علوم میں آپ نے مود و دلاری کی شاگردی کی خاندان چشتیہ کے علاوہ آپ کو دوسرے سلسلوں سے بھی نسبت حاصل تھی مشرب قلندریہ میں دو واسطوں سے حضرت شاہ نعمت اللہ کرمانی سے نسبت ہے شاہ لخت اللہ صوفی علماء میں ممتاز ہیں اور حضرت محی الدین ابن عربی کے تابعین میں سے ہیں آپ اپنی تقریروں میں مسئلہ توحید پر بڑی پر معنی گفتگو کیا کرتے تھے اور اس موضوع پر آپ کو پوری مہارت حاصل تھی آپ نے توحید پر کئی کتابیں لکھیں ہیں اس سلسلہ میں اثبات الاحدیت بڑی مشہور کتاب ہے اسی طرح آپ نے حضرت جامی کی سوانح پر بڑی مبسوط شرح لکھی تھی فرمایا کرتے تھے اگر مجھے حالات اجازت دیتے تو میں مسئلہ توحید کو برسر منبر بیان کرتا۔ فرمایا کرتے تھے ابتدائے حال میں میرے پاس مسئلہ توحید پر دو دلیلیں تھیں مگر اب اللہ کے فضل سے سولہ دلیلیں ہیں فرمایا کرتے ہمارے سامنے درویشی دو چیزوں سے حاصل ہوتی ہے ایک تہذیب اخلاق دوسری خدمت اہل بیت فرمایا کرتے کمال محبت یہ ہے کہ محبوب کے متعلقین سے تجاوز نہ کرے کمالات محبت میں یہ چیز ضروری کہ محبت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر قائم رہے اور حضور سے محبت اور اتباع کی علامت یہ ہے کہ آپ کی اولاد اور اہل بیت سے محبت رکھے اور انہیں دل و جان سے عزیز رکھے۔
اخبار لاخیار میں لکھا ہے کہ آپ کو اہل بیت سے اتنی محبت اور احترام تھا ک آپ پڑھاتے ہوتے تو کوئی سیّد زادہ کھیلتا کھیلتا آپ کے سامنے آجاتا تو آپ کتاب اٹھائے اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک وہ سیّدزادہ وہاں سے خود ہی واپس نہ چلا جاتا۔
شیخ امان اللہ نماز میں ایاک نعبدو ایاک نستعین پڑھتے تو کئی بار تکرار کرتے حتیٰ کہ کئی بار بے خود ہوکر گر پڑتے تھے اور اس طرح مدہوش ہوتے کہ قیام کی ہمت نہ رہتی اور اس طرح آپ کی کئی نمازیں فوت ہوجایا کرتی تھیں۔
موت سے چند دن قبل آپ نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں ایک سفر پر جا رہا ہوں شیخ زکریا اجودہنی آپ کے خاص مرید تھے عرض کی حضور ہم دوستوں میں سے کون کون خادم آپ کے سفر میں ہمر کاب ہوں گے آپ نے فرمایا اگر سفر زمینی ہوتا تو بعض احباب ساتھ ہوتے مگر یہ سفر تو مجھے تنہا ہی کرنا پڑے گا اس کے بعد آپ اٹھے اپنے گھر گئے تمام اشیاء کو ایک ایک کرکے تقسیم کیا کتابوں کو کھولتے اور انہیں کہتے میں نے تم سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اسی طرح حجرہ اور خلوت کدہ میں داخل ہوکر ان کے دَرو دیوار کو الوداع کہا کچھ دنوں بعد آپ کو بخار ہوگیا فرمایا کچھ لکڑیاں لے آؤ اور برتن اور کوزے تازہ منگوالیے آج ساری عمر کے وسوسے ختم ہوجائیں گے اس دن ربیع الثانی گیارہ تاریخ تھی آپ نے حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا سالانہ عرس کیا تبرکات تقسیم کیےپختہ طعام لوگوں کو کھلایا اب ربیع الثانی کی بارہویں تاریخ آگئی آپ پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگے فرمانے لگے مشائخ طریقت تشریف فرما ہیں مجھ سے توحید کا فتویٰ طلب کر رہے ہیں چند کلمات توحید یہ بیان فرمائے بارہ ربیع الثانی ۹۵۷ھ کو وصال فرمادیا۔
حضرت امان اللہ پانی پتی کے بڑے مرید تھے ان میں شیخ تاج دین زکریا اجودہنی اور شیخ رکن الدین اجود ہنی آپ کے خاص خلفا میں سے تھے شیخ سیف الدین جو حضرت شیخ عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد مکرم تھے آپ کے خلیفہ تھے۔
رحلتش ظاہرست سید شبت
۹۵۷ھ
ہم بخواں خاص حق امان اللہ
۹۵۷ھ
دالیٔ فضل گو ترحیلش
۹۵۷ھ
شیخ والی و شیخ والا جاہ
۹۵۷ھس