حضرت شیخ اوحد الدین حامد کرمانی
حضرت شیخ اوحد الدین حامد کرمانی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ اوحد الدین حامد کرمانی علیہ الرحمۃ
آپ شیخ رکن الدین نجاسی کے مرید ہیں"اور وہ شیخ قطب الدین اجہری کے وہ شیخ ابو لنجیب سہروردی کے قدس اللہ تعالٰی ارومہم بڑے بزرگ گذرے ہیں۔شیخ محی الدین العربی کی صحبت میں رہے ہیں۔شیخ موصوف نے "کتاب فتوحات"اور دیگر اپنی تصانیف میں ان کی حکایت کی ہے۔"فتوحات" کے آٹھویں باب میں لکھتے ہیں کہ شیخ اوحد الدین کرمانی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ میں جوانی میں اپنے شیخ کی خدمت کرتا تھا۔ہم سفر میں تھے۔شیخ عماری میں بیٹھے ہوئے تھے۔کہ ان کو پیٹ کی بیماری تھی۔جب ہم ایسی جگہ پہنچے"جہاں مارستان(سانپوں کی جگہ)تھی۔میں نے درخواست کی کہ آپ اجازت دیں"تو دوا لاؤں۔جو نفع ہو۔جب شیخ نے میرا اضطراب دیکھا"تو اجازت دے دی۔میں گیا دیکھا کہ ایک شخص خیمہ میں بیٹھا ہوا ہے۔اس کے ملازم پیادہ کھڑے ہیں۔اس کے سامنے شمع جل رہی ہے۔میں اس کو نہ پہچانتا تھا"اور نہ وہ مجھے پہچانتا تھا۔جب اس نے مجھے نوکروں میں دیکھا"تو اٹھ کر میرے پاس آیا۔میرا ہاتھ پکڑا اور کہا" تمہارا مطلب کیا ہے؟میں نے شیخ کا حال اس سے بیان کیا۔اسی وقت دوا حاضر کی اور مجھ کو دےدی۔میرے ساتھ باہر نکلے۔خادم شمع ہمراہ لایا۔میں ڈرا کہ شیخ اس کو دیکھتے نہ ہوں۔وہ باہر تک آئے۔میں نے ان کو قسم دی کہ آپ واپس چلے جائیں۔وہ واپس گئے۔میں شیخ کی خدمت آیا"اور دوا لایا"جو کچھ انہوں نے تعظیم تکریم کی تھی۔اس کاذکر کیا شیخ ہنس پڑے"اور کہا" اے فرزند جب میں تمہاری بے قراری دیکھی"تو مجھ کو تجھ پر شفقت آئی۔اس لیے میں نے تم کو اجازت دے دی۔جب تم وہاں پہنچے"تو مجھے خوف معلوم ہوا کہ وہ شخص جو وہاں کا امیر ہے" تمہاری طرف توجہ نہ کرے۔پھر تم شرمندہ نہ ہو۔تب میں اپنی شکل سے علیحدہ ہو کر اس کی شکل میں آگیا"اور اس کی جگہ بیٹھ گیا۔جب تم آئے تو میں نے تمہاری عزت کی"اورجو کچھ تم نے دیکھا وہ کیا۔"رسالہ اقبالیہ"میں مذکور ہے کہ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ رحمتہ اللہ نے کہا ہے"جس روز قافلہمنٰی میں تھا۔شیخ شہاب الدین علیہ الرحمۃ کا ایک مرید وہاں پر تھا۔ہم اس کی زیارت کو گئے۔جب بیٹھے تو ہر ایک قسم کی باتیں ہونے لگیں۔ہم نے اس سے پوچھاکہ سنا جاتا ہے "شیخ شہاب الدین علیہ الرحمۃ شیخ اوحد الدین کرمانی کو بد عتی کہتے تھے"اور اپنے پاس آنے نہیں دیا۔کای یہ بات سچ ہے؟اس بوڑھے نے کہا"ہاں سچ ہے۔میں اس مجمع میں شیخ کی خدمت میں حاضر تھا۔کسی نے شیخ اوحد الدین کا ذکر کیا۔فرمایا کہ میرے سامنے اس کانام مت لو۔کیونکہ وہ بدعتی ہے"لیکن دوسرے دن بھی میں شیخ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ شیخ سے لوگوں نے کہا کہ شیخ اوحد الدین نے آپ کی بات سن کر یہ کہا کہ اگرچہ مجھ کو بدعتی کہا ہے"لیکن مجھ کو یہی فخر کافی ہے کہ میرا نام شیخ کی زبان پر گذرا ہے اور اس مطلب میں عربی کا شعر بھی ہے"وہ شعریہ ہے۔
ماساع نی ذکرک لی بمساءۃ بل سر لی انی خطرت ببالک
یعنی جو تم نے مجھ کو برائی سے یاد کیا ہے"تو یہ مجھے ناگوار نہیں گذرتا۔بلکہ میں خوش ہوا"اس سے کہ تمہارے دل میں میرا گذر ہوا۔شیخ شہاب الدین علیہ الرحمۃ نے ان کے خلق کی تعریف فرمائی۔شیخ شہاب الدین نے جو ان کو بدعتی کہا ہے،تو ممکن ہے ان کی مراد ہو کہ وہ حقیقت کے شہود میں مظاہر صوری کے طوسل کرتے تھے،اور جہاںمطلق کو مقیدات کی صورت میں مشاہدہ کیا کرتے تھے۔جیسا کہ گذر چکا ہے کہ شیخ شمس الدین تبریزی علیہ الرحمۃ نے ان سے پوچھا کہ تم کس کام میں لگے ہو۔تو کہا،چاند کو پانی کی عشت میں دیکھتا ہوں۔پس شیخ شمس الدین نے کہا کہ تمہاری پیٹھ پر تھوڑا نہیں،تو کیوں آسمان پر نہیں دیکھتے،اور مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ سے لوگوں نے کہا کہ وہ شاہد پرست ہیں،لیکن پاکباز ہیں،مولانا نے فرمایا کہ کاش کرتا اور گذرجاتا ،اور ان کی رباعی بھی اسی مطلب پر دلایت ہے۔رباعی
نراں مے نگریم بچشم سرورصورت زیرا کہ زمعنی است اثر درصورت
ایں عالم صورتست و مادر صوریم معنی نتواں دید مگر در صورت
ایک تاریخ میں مذکور ہے کہ جب آپ سماع میں گرم ہوا کرتے تو لڑکوں نوجوانوں کے پیراہین پھاڑ ڈالتے اور اپنا سینہ ان کے سینہ پر رکھتے۔جب بغداد میں پہنچے تو خلیفہ وقت کا ایک لڑکا بڑا خوبصورت تھا۔یہ بات سنی اور کہا کہ وہ بدعتی اور کافر ہے اگر میری مجلس میں اس قسم کی حرکت کرے تو اس کو مار ڈالوں۔جب سماع گرم ہوا تو شیخ نےکرامت سے یہ بات معلوم کرلی اور کہا ۔رباعی
سہل است مرابرسر خنجر بودن دریائے مرادودست بے سر بودن
تو آمدء ہ کافرے رابکشی غازی چو توئی رواست کافر بودن
خلیفہ کے بیٹے نے اپنا سر شیخ کے پاؤں پر رکھ دیااور مرید ہو گیا۔ایک بڑے عارف علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اہل توحید و تحقیق کے نزدیک یہ بات ہے کہ کامل مکمل وہ شخص ہوتا ہے کہ حق سبحانہ کا مطلق جمال مظاہر موجودات حسی میں آنکھ سے مشاہدہ کرے۔جس طرح کہ مظاہر روحانی میں دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔یشاھدون بالبصیرۃ الجمال المطلق المعنوی بما یعاینون بالبصر الحس المقید الصوری یعنی یہ لوگ بصیرت سے جمال مطلق معنوی کو جس پرکہ آنکھ سے حس مقید صوری کو دیکھ لیتے ہیں۔حق سبحانہ کا جمال و کمال دو اعتبار رکھتا ہے۔ایک تو طلاق کا وہ کہ وہ جمال والے کی حقیقت ہے،من حیث ہےہی(یعنی جس حیثیت سے ہے کہ وہ ہے)عارف اس جمال مطلق کو فنافی اللہ سبحانہ میں مشاہدہ کرسکتا ہے۔دوسرا مقید ہے اور وہ تنزل کے حکم سے حاصل ہوتا ہے۔مظاہر حیہ یا روحانیہ میں پس اگر حسن دیکھتا ہے،تو ایسا دیکھتا ہے اور اس جما ل کو مراتب کونیہ میں اتر کر خدا کا جمال جانتا ہے ،اور غیر عارف کی جب ایسی نظر نہیں ہوتی،تو اس کو چاہیے کہ معشوق کو نہ دیکھے۔تاکہ حیرت کے گڑھے میں نہ پڑا رہے،اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض اہل طریق سے وہ لوگ ہیں کہ مظاہر اور خوبصورت چیزوں سے مقید ہیں،اور جب سالک عدم ترقی کے درپے ہوتا ہےتو حجاب میں رہتا ہے۔چنانچہ بعض بزرگوں قدس اللہ اسرارہم نے اس سے بھی پناہ مانگی ہےاور فرمایا ہے۔نعوذ باللہ من التنکر بعد التعریف ومن الحجاب یعد التجلی یعنی ہم اللہ سے پناہ مانگتے ہیں۔اجنبی ہونے سے بعد پہچان کے اور حجاب سے بعد تجلی کے،اور اس حرکت حسی کا تعلق اس سالک کی نسبت حسی کی ظاہر صورت سے کہ جس کی صفت سے موصوف ہے،نہیں بڑھتا۔اگرچہ شہود اور کشف مقید اس کو حاصل ہو ،اور اگر اس تعلق حسی میلان صورت سے منقطع ہوجائے،تو دوسری صورت کے ساتھ جو حسن سے آراستہ ہو ،تعلق ہوجاتا ہے اور ہمیشہ کشاکش میں رہتا ہے۔صورت سے تعلق و میلان کا ہونا ،حرمان ٖفتنہ رسوائی کے دروازہ کے کھلنے کا باعث ہوتا ہے۔خدا کو ہم اور تمام صالحین کو اس کی برائی سے بچائے۔حسن ظن بلکہ سچا اعتقاد بڑے بزرگوں کو ایک جماعت کے ساتھ جیسے غزالی ،شیخ اوحد الدین کرمانی ، شیخ فخر الدین عراقی قدس اللہ اسرار ہم کو جو مظاہری صوری حسی کے جمال میں مشغول رہے ہیں۔یہ ہے کہ لوگ وہاں جمال مطلق حق سبحانہ کامشاہدہ کیا کرتے تھے،اور حسی صورتوں میں مقید نہ تھے،اور اگر وہ بعض اکابر کو ان کی نسبت انکار ہوا ہےتو اس سے تو ان کا یہ مقصود ہوگا کہ مجحوب لوگ اس کو اپنا دستور نہ بنالیں اور اپنے حال کا قیاس ان پر نہ کریں۔ہمیشہ طبیعت کی رسوائی اور سب سے نیچے درجہ میں نہ پڑے رہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم باسرار ہم۔شیخ اوحد الدین کی لطیف نظمیں ہیں۔"مثنوی"وغیرہ "مصباح الارواح"کے آخر میں لکھتے ہیں۔نظم۔
تاحبنبش وست ہست مادام سایہ متحرک است ناکام
چوں سایہ زدست یافت ما یہپس نیست خود اندر اصل سایہ
چیزے کہ وجود او بخود نیست ہتیش نہاون ازخردنیست
ہست است ولیک ہست مطلق نزدیک حکیم نیست جز حق
ہستی کہ تجق قوام دارو اونیست ولیک نام دارو
برنقشخوداستفتنہ نقاش کس نیست دریں میان تو خوش باش
خودگفت حقیقت وخود درشنیددان روئے کہخود نمود خوودید
بس باد یقین کہ نیست واللہموجود حقیقی سوئے اللہ
ان کے رباعیات میں سے یہ بھی ہیں۔رباعیات۔
اوحد دردل میزنی آخر دل کو عمریست کہ راہ میرونی منزل کو
در دینی دو بے وفا میگروی پنجاہ دو چلہ داشتی حاصل کو
جزنیستی تو نیست ہستی بخدا اے ہوشیاران خوشت مستی بخدا
گرزانکہ بحق پرستی ناگاہ حقا کہ رسی زبت پرستی بخدا
اسرار حقیقت نشود حل بسوال نے نیز بدر باختن حشمت ومال
تاخون نکنی دیدہ دل پنجہ سال ہرگز ندہند راہت ازقال بحال
ذاتم زورائے حرف بیروں زحداست ذرچشمہ لطف آبحیاتم مدداست
علت زاحد باوحد آمد حرفے علت بگذار کانیک اوحد احد است
(نفحاتُ الاُنس)