بہاء الدین شطاری جنیدی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم وصال | 0921 | ذوالحجہ | 11 |
بہاء الدین شطاری جنیدی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ بہاء الدین شطاری
نام و نسب: اسمِ گرامی: حضرت شیخ بہاء الدین۔ لقب: شطاری،جنیدی۔ سلسلۂِنسب اس طرح ہے: حضرت شیخ بہاء الدین شطاری قادری جنیدی بن شیخ ابراہیم بن شیخ عطاء اللہ انصاری۔آپ کاتعلق قصبہ ’’جنید‘‘ سے تھا۔جو مضافاتِ سرہند میں واقع ہے۔اسی کی نسبت سےآپ ’’جنیدی‘‘ کہلاتے ہیں۔
تاریخِ ولادت: کُتبِ سیّر آپ کی تاریخِ ولادت کےبارے میں خاموش ہیں۔تقریباً آپ کی ولادت باسعادت نویں صدی ہجری کے وسط میں ہوئی ہوگی۔آپ کی جائےولادت قصبہ جنید مضافاتِ سرہند (ہند) ہے۔
تحصیلِ علم: آپ نے اپنے علاقے میں ہی محنت و شوق سےمکمل علوم ِ دینیہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی۔آپ کو علوم ِ عربیہ، فقہ اور اصولِ فقہ میں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔آپ کا علمی مقام بہت بلند تھا۔آپ کی ذات مرجعِ علماءو فقراء تھی۔آپ صاحبِ تصانیف بزرگ تھے۔’’رسالۂِ شطاریہ‘‘ آپ کی مشہور تصنیف ہے۔جس کا ذکر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ’’اخبارالاخیار‘‘ میں فرمایا ہے۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں نبیرۂ غوث الاعظم، حضرت سید شیخ احمد جیلانی کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔آپکے شیخِ طریقت نے خاص حرم شریف میں آپ کو بیعت کیا اور جملہ اورادووظائف کی اجازات دے کر خلافت سے بھی نوازا۔ سلسلہ قادریہ سےجوآپ کونسبت حاصل تھی،آپ اس پر فخر کرتےتھے۔
سیرت و خصائص: قدوۃ السالکین،نور العارفین،منہاج العابدین فی الہند، رہبرِ علوم سنت، مظہرِ مذہبِ اہل سنت،حامی السنۃ والدین حضرت شیخ بہاء الدین ۔آپ صاحبِ کمالات و کرامات تھے۔سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے پچیسویں امام اور شیخِ طریقت ہیں۔اسی طرح آپ ہندوستان میں سلسلۂِ عالیہ قادریہ رضویہ کے پہلے بزرگ ہیں- اسی لیے آپ کو ’’امام سلسلۂِقادریہ فی الہند‘‘کے مبارک خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ سلطان غیاث الدین بن محمد خلجی کےعہد میں بمقام مندو میں تشریف لائے،آپ کی ذات ِ اقدس سے سلسلۂِ عالیہ قادریہ کو ہندوستان میں عروج ملا۔ مخلوقِ خدا جوق درجوق آپ کےحلقۂِدرس میں شامل ہوئی،اور آپ کے فیضِ صحبت سےبےشمار خلق سلسلۂِ ارادت میں شامل برصغیر پاک و ہند کےکونے کونے میں پہنچ گئے۔یہی وجہ ہے کہ آج اس خطے میں سلسلۂِ عالیہ قادریہ سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں۔ہر شہر میں سلسلۂِ قادریہ کی خانقاہیں موجود ہیں۔آپ صاحب ولایت ، جامع شریعت و طریقت تھے۔عبادت و ریاضت میں یگانہ اور راہ سلوک میں مرشد زمانہ تھے، ساتھ ساتھ صاحب تصنیف بھی تھے۔ آپ کی مبارک تصنیف رسالہ فی الاوراد والاشغال المعروف بہ’’ رسالۂِ شطاریہ‘‘ صوفیاء اور ارباب طریقت کے درمیان مشہور و مقبول رہا ہے۔یہ رسالہ آپ نے اپنے مرید خاص اور احب الخلفا ءحضرت سیدشاہ ابراہیم ایرجی کے لیے تحریر فرمایاتھا۔یہ رسالہ علوم و معرفت کاخزینہ ہے۔
تعلیماتِ مبارکہ: حضرت شیخ بہاء الدین اپنے رسالۂ شطاریہ میں تحریر فرماتے ہیں:کہ خدا وند قدوس تک رسائی کے طریقے مخلوق کے انفاس کے برابر ہیں یعنی بہت ہیں۔ ان سارے طریقوں میں تین طریقے زیادہ مشہور و معروف ہیں۔پہلا طریقہ : اخیار کاہے اور وہ نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن مجید، حج اور جہاد ہے۔ اس طریقے پر چلنے والے طویل سفر طے کرنے کے باوجود بہت کم ہی منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں۔دوسرا طریقہ: اس میں اخلاقِ ذمیمہ کی تبدیلی، تزکیۂ نفس، تصفیہ دل اور جلائے روح کے لیے مجاہدات و ریاضت کیے جاتے ہیں۔اس راستے سے منزل مقصود تک پہنچنے والوں کی تعداد پہلے طریقہ کی بنسبت زیادہ ہے۔تیسرا طریقہ: شطاریہ ہے۔ اس طریقہ پر چلنے والے ابتدا ہی میں ان منازل سے آگے نکل جاتے ہیں جن پر دوسرے طریقوں کی بنسبت زیادہ عمدہ اور تقرب الی اللہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے۔طریقۂِ شطاریہ کے دس اصول ہیں: 1توبہ:اللہ کے علاوہ ہر شے سے خروج کا نام توبہ ہے۔2زہد:زہد نام ہے دنیا، اس کی محبت اس کے سامان اور اس کی خواہشات کو ترک کرنے کا۔3 توکل: توکل اسباب ِدنیا سے کنارہ کشی کو کہتے ہیں۔4قناعت: خواہشات ِنفسانیہ کے ترک کو قناعت کہتے ہیں۔5عزلت: خلق سے میل جول کے ترک کو کہتے ہیں۔
6توجہ الی الحق: یہ ہر اس چیز کے چھوڑنے کا نام ہے جو غیرِ حق کی طرف داعی ہو۔یہ وہ منزل ہے جہاں خداوند قدوس کے علاوہ کوئی مطلوب، محبوب اور مقصود باقی نہیں رہتا۔7صبر: یہ انسان کا مجاہدہ کے ذریعے لذتوں کو چھوڑنا ہے۔8رضا: اللہ کی رضا میں داخل ہو کر نفس کی رضا سے نکلنے کا نام ہے۔ اس طرح کہ احکام ازلیہ کو تسلیم کرے اور خود کو بغیر کسی اعراض کے مصلحت خدا وندی کے حوالے کر دے۔9ذکر : یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ تمام مخلوق کے ذکر کا ترک ہے۔10مراقبہ: یہ اپنے وجود اور قوت سے نکلنے کا نام ہے۔
مراقبہ کے متعلق شیخ فرماتے ہیں: کہ قرآن کریم کی وہ تمام آیات و کلمات جن سے توحید کا مفہوم سمجھا جاتا ہے یہ سب اسمائے مراقبہ ہیں، یعنی جب مراقبہ کرنے کااِرادہ ہوتو ان آیات و کلمات کو پڑھاجائے اور وہ کلمات یہ ہیں۔ وھو معکم اینما کنتم، اینما تولو فثم وجہ اللہ، الم یعلم بان اللہ یری، نحن اقرب الیہ من حبل الورید، ان اللہ بکلّ شی محیط، وفی انفسکم افلا تبصرون، ان معی ربی سیھدین، اسی طرح اللہ حاضری اللہ ناظری اللہ شاھدی اللہ معی اور ذات باری کا مراقبہ یاحیی یاقیوم کا مراقبہ انیس کا مراقبہ، تمام اسمائے حسنیٰ کا مراقبہ، قرآن کریم کی تلاوت کا مراقبہ، اپنے فنا ہوجانے کا مراقبہ، مراقبہ کے یہ چندرموز تحریر کردیے گئے تا کہ ان میں سے کسی کو پسند کرکے مراقبہ شروع کردیں اور فائدہ حاصل کریں۔ اور مراقبہ دراصل نام ہے اپنی ہستی اور تمام کائنات کو مٹادینے اور اللہ کی ذات کو تمام احوال میں ثابت رکھنے کا اور بس، پس ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ جہاں کہیں بھی (بشرطیکہ کوئی شرعی مانع نہ ہو) وہ اللہ کا ذکر کرے اور اس کے ذریعہ اپنے دل کی پاکیزگی حاصل کرے۔
مراقبہ کی وجہ تسمیہ: یہ ہے کہ مراقبہ کا اصل مادہ ہے رقیب، جس کے معنی محافظ اور نگرانی کرنے والے کے ہیں، یعنی جب تک مرید مراقبہ میں مشغول ہے تو وہ خواہشات نفسانیہ، شیطانی وساوس اور جسمانی شواغل خواطر قلبیہ خناسیہ سے محفوظ ہوکر اللہ کی جانب متوجہ ہوتاہے۔ اسی لیے مشہور ہے کہ فکر افضل ہے ذکرسے، اس لیے کہ فکر تو ایک باطنی شغل ہے جس کی کسی کو خبر نہیں، یعنی مراقبہ اس کو کہتے ہیں کہ دل کی نگہبانی کرکے اللہﷻ کی جانب متوجہ کرنا اور جو چیز خدا کے ماسوٰی ہے اس کو دل میں جگہ نہ دینا، سو ایسے آدمی کو صوفیا کی اصطلاح میں اہل دل کہتے ہیں۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ: 282)
تایخِ وصال: آپ کا وصال 11؍ ذوالحج 921ھ، مطابق وسط ماہِ جنوری 1516ءکوہوا۔آپ کامزار پرانور دولت آباد دکن (ہند) میں مرجعِ خلائق ہے۔سببِ وصال: آپ کوعمدہ خوشبو سونگھتے ہی ایسا ذوق و حال طاری ہوتا کہ جاں بلب ہوجاتے تھے، چنانچہ ظاہری سبب آپ کےوصال کا یہی ہوا۔ جس زمانے میں آپ بہت کمزور و ضعیف ہوگئے تھے۔ایک شخص آپ کی خدمت میں نہایت ہی عمدہ اوراعلیٰ قسم کی خوشبولایا،تو اسی خوشبو کےاثر سے آپ کی روح قفس عنصری سےپرواز کرگئی۔
شجرہ شریف میں اس طرح ذکر ہے:
طورِ عرفان و علو و حمد و حُسنٰی و بَہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دے علیؔ موسیٰؔ حسن ؔاحمدؔ بہاؔ کےواسطے
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
منتقیِ جوہر زجیلاں سید احمد الاماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے بہا گوہر بہاء الدین بہا امداد کُن