تاج العارفین شیخ ابوالوفا[1] سے بیعت تھے۔ بڑے زاہد و عابد اور صاحبِ کرامت تھے۔ حضرت غوثِ اعظم کی مجلس میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ صاحبِ انیس القادریہ رقم طراز ہیں کہ آپ نے ایک روز فرمایا: میں مجلس حضرت غوث الثقلین میں حاضر تھا اور حضرت منبر کے پہلے پائے پر وعظ فرمارہے تھے کہ دورانِ وعظ میں دفعتًہ خاموش ہوگئے اور منبر سے نیچے اتر کر زمین پر آگئے۔ ساعت بھر خاموش رہے۔ پھر منبر کے پایۂ دوم پر رونق افروز ہوکر وعظ کہنا شروع کیا۔ اس دوران میں نے مشاہدہ کیا کہ منبر حدِ نظر تک کشادہ ہوگیا ہے اور اُس پر سبز رنگ کی مسند بچھائی گئی ہے اور حضرت رسالت مآبﷺ صحابہ کبار کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے ہیں اور حق تعالیٰ نے حضرت غوث اعظم کے دل پر تجلّی فرمائی ہے اور حضرت غوث انوارِ تجلّی کی شدّت سے گراہی چاہتے ہیں کہ حضورِ اقدس انہیں سنبھال لیتے ہیں۔ پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت کا جسم چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وُہ چڑیا کے مانند ہوگیا ہے مگر پھر ساتھ ہی بڑھنا شروع ہوگیا ہے اور اس قدر بڑھ گیا ہے کہ آپ کے چہرۂ مبارک سے خوف آنا شروع ہوگیا ہے۔ یہ سب معاملہ چشم زدن میں میری آنکھوں سے پوشیدہ ہوگیا ہے اور حضرت نے دوبارہ وعظ کہنا شروع کردیا ہے جب اصحابِ مجلس نے یہ واقعہ حضرت بقا کی زبانی سنا تو رویتِ حضور اقدسﷺ کی کیفیت پوچھی۔ آپ نے کہا خداتعالیٰ نے ارواحِ پاک کو صور، و اجساد، اور صفاتِ اعیان، میں متبدل ہونے کی صلاحیت و طاقت عطافرمائی ہے مگر ان کو وہی دیکھ سکتے ہیں جن میں ایسی ہی صلاحیت و قوت ہو۔ حاضرینِ مجلس نے حضرت غوثِ اعظم کے گرنے اور پہلے چھوٹا ہونے اور پھر بڑا ہونے کا سبب دریافت کیا۔ کہا: تجلّیٔ الٰہی ابتداء میں حضرت غوثیہ پر ایسی تھی کہ انسان اس کو برداشت نہیں کرسکتا تھا مگر بتائید جنابِ نبویﷺ اسی لیے حضورﷺ نے انھیں پکڑلیا اور تجلّیٔ ثانی صفتِ جلال میں تھی کہ جسمِ مبارک گداز ہونا شروع ہوگیا اور چڑیا سے بھی چھوٹا نظر آنے لگا اور تجلیٔ ثالث صفتِ جمال میں تھی جس کے ظہور سے پہلے آپ کا جسم بے حدونہایت بڑھا اور پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا۔ شیخ بقا نے ۵۵۳ھ میں وفات پائی۔ مزار بابِ توسل میں ہے جو نہر ملک کے قصبات میں سے ایک قصبہ ہے۔
چوں بقا با صد ہزاراں خرمی! سالِ ترحیلش ز سرور شد رقم
|
|
رفت از دارِ فنا سوئے بقا ‘‘زبدۂ آفاق قطب الحق بقا’’ ۵۵۳ھ
|
[1]۔ اصلی نام کاکیش تھا۔ حضرت شیخ شنبکی کے مرید و خلیفہ تھے۔ اپنے زمانے کے شائخ کبار اور اولیائے کاملین سے تھے۔ فضل و کمال میں آپ کی ذات آیت من آیات اللہ تھی۔ بڑے بڑے صاحبِ کمال آپ کے حلقۂ تربیت سے فیض یاب ہوکر نکلے۔ حضرت غوث اعظم ایامِ جوانی میں آپ کی مجلس میں حاضر ہوکر فیوض و برکات حاصل کرتے تھے۔ آپ نے ان کو اپنی تسبیح، کاسہ اور عصا عطافرمایا تھا۔ حضرت شیخ عمر نبراز فرماتے ہیں: تسبیح کو اگر زمین پر رکھا جاتا تو دانہ دانہ ہوکر بھکر جاتی اور ہردانہ گھومنے لگتا۔ پیالہ کو اگر کوئی ہاتھ لگاتا یا لینا چاہتا تو یہ پیالہ خود بخود اس کے ہاتھ میں آجاتا۔ ۵۳۰ھ میں وفات پائی۔ ‘‘عاشق مہدی’’ آپ کی تاریخِ وفات ہے۔
//php } ?>