سید ابو عبد اللہ نصر
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 0562 | ربيع الآخر | 24 |
یوم وصال | 0632 | رجب المرجب | 27 |
سید ابو عبد اللہ نصر (تذکرہ / سوانح)
حضرت سید ابو عبداللہ نصر
نام و نسب : کنیت: ابو صالح۔ اسم گرامی: عبد اللہ نصر۔لقب: عماد الدین۔ سلسلہ نسب: سید ابوعبد اللہ نصر بن سید عبدالرزاق بن غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی۔آپ کی والدہ ماجدہ کانام ماجدہ تاج النساء ام الکرم بنت فضائل الترکین تھا۔ آپ اعلیٰ درجہ کی خیر وبرکت والی بی بی تھیں علوم حدیث کی عالمہ تھیں۔بغداد شریف میں ہی آ پ کا وصال ہوا اور باب الحرب میں مدفون ہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 24 ربیع الثانی 562ھ، مطابق فروری 1167ء میں بغداد شریف میں ہوئی۔
تحصیل علم: حضرت ابوصالح نصر نے اپنے والد گرامی کی نگرانی میں نشو نما پائی اورانہیں سے تعلیم مکمل فرمائی۔ اپنے والد ماجد کے علاوہ اور بھی بہت سے فضلاء وقت سے علم فقہ وحدیث حاصل فرمایا، آپ نے اپنے عم بزرگوار حضرت شیخ عبدالوہاب سے بھی حدیث سنی اوردرس لیا حدیث شریف بیان کی لکھوائی اس کے علاوہ دیگر علوم کا بھی اکتساب فرمایا۔
سیرت و خصائص: شیخ طریقت، واقف اسرار حقیقت، پر وردۂ صحبت غوثیت حضرت سیّد عبداللہ ابو صالح نصر اللہ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے انیسویں امام اور شیخ طریقت ہیں۔ آپ اعلیٰ درجہ کے محقق، عارف حدیث میں ثقہ نہایت شیریں کلام اور خوش طبع ومتین تھے۔ فروعی مسائل میں بھی آپ کی معلومات وسیع تھیں۔ حافظ ابن رجب حنبلی نے اپنی کتاب طبقات میں بیان کیاہےکہ : آپ قاضی القضاۃ، شیخ الوقت، فقیہ، مناظر، محدث، عابدوزاہد اور بہترین واعظ تھے، اور اپنے جدامجد سیّدناشیخ عبدالقادر جیلانی کے مدرسہ کے متولی تھے۔ آپ انتہائی فصیح وبلیغ گفتگو فرماتے ، آپ کی انشاء پردازی اور فتاویٰ نویسی میں ندرت ہوتی تھی۔ مدینۃ السلام کی تینوں مسجدوں میں آپ کا نام خطبہ میں پڑھا جاتاتھا۔ آپ امر بالمروف اور نہی عن المنکر کے پیکر تھے، آپ ان لوگوں میں سے تھے جو کبھی کسی سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ صادق القول ہونے کے ساتھ امور مملکت میں اصلاح کی کوشش بلیغ فرمائی ،روئی کالباس پہنتے اور مقدموں پر غور وخوض کے بعد فیصلہ دیتے، اسلاف کے نقش قدم پر چلتے اور شدت سے حق پر قائم رہتے ۔
بد مذہب سے آپ کی بیزاری : آپ شریعت وطریقت پر بڑی مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے اور خلاف ِ شرع جن امور کو دیکھتے اس کو ختم کرنے میں تکلیف شاقہ براداشت کرتے۔ مگرشریعت سے سرمو تجاوز نہ ہونے دیتے۔ چنانچہ اپناایک واقعہ خودہی بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں وزیر عثمی کےمکان پر حکومت کے نظم و نسق کے سلسلے میں کچھ تحریر کررہا تھااور وہاں محمد بن مخب محدث ابن زبیر منصف اورابن مروزی بھی موجود تھے اچانک ایک ذی وقار شخص عمدہ لباس پہنے مکان میں داخل ہوا اور پوری جماعت اس کوسلام کرکے اس کی خدمت میں مصروف ہوگئی۔ میں نے بھی یہ تصور کرکے کہ یہ بہت بڑا فقیہ ہے ان لوگوں کا ابتاع کیالیکن جب میں نے لوگوں سے ان کے متعلق معلوم کیاتوا نہوں نے بتایا کہ یہ توابن کرم یہودی ہے جوٹکسال کاگورنر ہے اور دربار خلافت میں اس کابڑا عمل دخل ہے، جب وہ لوگوں کےپاس سے گزرکرمیرے مقابل چبوترے پر بیٹھ گیاتومیں نے اس سے کہا کہ : اس جگہ سے کھڑے ہوجاؤہلاکت تیرا مقدرہو، توجب داخل ہواتو میں تجھے ایک مسلمان فقیہ سمجھ کر تعظیما کھڑا ہوگیا تھاحالانکہ فقیہ ہونا تودکنار تو مسلمان بھی نہیں ہے۔ یہ جملہ میں نے اس سے کئی مرتبہ کہا جس کو وہ کھڑا ہوکرسنتارہااور کہنے لگا کہ اللہ تیری حفاظت کرے اور تجھے باقی رکھے۔ پھر میں نے اس سے کہاکہ میرے سامنے سے دفع ہوجاؤ یہ سن کر وہ خاموشی سے چلاگیا ۔ میرا کچھ وظیفہ دربار خلافت سے مقررتھا جس کو مقام بدریہ جاکر وصول کرتاتھا مگرمیں اس مقررہ دن کو امام احمد بن حنبل کے مزار شریف پر فاتحہ پڑھنے چلاگیا تھا، واپسی پر دیکھا کہ ہر شخص اپنا وظیفہ وصول کررہا ہے۔ اور جب میں نے وظیفہ وصول کرنا چاہا تومجھ سےکہاگیا کہ : آپ کاوظیفہ توابن کرم یہودی کے پاس ہے وہاں جاکر وصول کرلیں۔لیکن میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ایک کافر سے اپنا وظیفہ وصول کرنے ہر گز نہیں جاؤں گا اور اس پر آپ مضبوطی کے ساتھ قائم رہےکہ نہ تو آپ اس یہودی کے پاس جاتے اورنہ وہ آپ کے پاس رقم بھیجتا حتٰی کہ وہ ملعون ختم کردیاگیا۔ اس وقت آپ نے خزانہ سے جاکر رقم وصول کی۔
عہدۂ قاضی ُ القضاۃ: بتاریخ 622ھ کو الظاہر بامراللہ کی طرف سے آپ قاضی القضاۃ مقرر ہوئے، اور خلیفہ مذکورہ کے انتقال تک آپ منصب قضاپر فائز رہے، اس عظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود آپ کے اخلاق وعادات اور آپ کی تواضع وانکساری میں مطلقاً کچھ بھی فرق نہیں آیا بلکہ سابقہ دستور کے مطابق آپ ویسے ہی خلیق، تواضع پسند اور کریم النفس رہے۔ آپ کے اجلاس میں شہادتیں قلم بند کرلی جایاکرتی تھیں۔خلیفہ نے آپ کے پاس دس ہزار دینار صرف اس غرض سے روانہ کیےتھےکہ اس روپیہ سے جتنے بھی مفلس، قرض دار، محبوس ہیں ان کاقرض اداکرکے انہیں رہا کردیاجائے اور خلیفہ موصوف نے آپ ہی کواوقاف عامہ مثلاً مدارس حنفیہ، شافعیہ، جامع السلطان اور جامع ابن المطلب وغیرہ کاناظرونگراں مقررفرمایا، آپ کوان اوقاف میں ہر طرح کی ترمیم وتنسیخ اور ہرطرح کی بحالی وبرطرفی کاپورا پورا اختیار دےدیاتھا اور مدارسہ نظامیہ میں بحالی وبرطرفی بھی آپ ہی کے ذمے ہوگئی تھی۔ آپ آثار سلف صالحین کے قدم بقدم چلتے اور نہایت سرگرمی واہتمام سےا پنے منصب ِ قضا کو انجام دیتے رہے۔
شان ِ قضاء : آپ کے عہد ولایت کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ کے اجلاس ہی میں اذان دی جاتی تھی اور آپ سب کوشریک نماز کرکے جماعت سے نماز پڑھا کرتے تھے، جمعہ کی نماز کے لئے جامع مسجد میں پیادہ پاتشریف لے جایاکرتے تھے۔ یہاں تک کہ خلیفہ کے انتقال کے بعد اس کابیٹا المستنصر باللہ نے اپنے ابتدائی عہد ِ خلافت سے چارماہ بعد 623ھ میں آپ کو منصب ِ قضاسے معزول کردیا۔اس معزولی کی خوشی پر آپ نےایک قصیدہ تحریرفرمایا۔ جس کا ایک شعر یہ ہے :
حمدت اللہ عزوجل لما۔۔۔۔ قضیٰ لی بالخلاص من القضاء
ترجمہ: میں خدائےعزوجل کا شکر ادا کرتا ہوں ، جس نے مجھے قضاکے عہدے سےرہائی عطاء کردی۔
درس وتدریس: معزولی کے بعد آپ نے اپنے مدرسہ میں درس وافتاء کاسلسلہ شروع کیا اور بڑی بڑی مجلسیں آپ کے یہاں ہونے لگیں۔ بےشمار لوگوں نے آپ سے علم فقہ وحدیث سیکھا اور فیض حاصل کیا۔ آپ کے تفقہ کااعتراف کرتے ہوئےصرصریؔ شاعر نے آپ کی مدح میں قصیدۂ لامیہ لکھا ۔ پھر دوبارہ مستنصر باللہ نے آپ کوکلیسائے روم کا (جس کو اس نے خانقاہ میں تبدیل کرکے حکومتی تحویل میں لےلیا تھا) صدر بنادیا۔ وہاں آپ کو بے حد تکریم وتعظیم حاصل ہوئی، عوام الناس بہت بڑی بڑی رقمیں آپ کی خدمت میں اس اختیار کے ساتھ روانہ کرتے کہ آپ جہاں چاہیں اس رقم کو خرچ کرسکتے ہیں۔
تصانیف: افسوس کہ آپ کے علمی، فقہی وتحقیقی خدمات کی کوئی تفصیل مورخین نے نہیں لکھی میں صرف ایک کتاب کا پتہ لگ سکا ہے جو ’’ارشاد المبتدئین ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اور علم فقہ میں اپنی نظیر آپ ہے۔
خلفاء: آپ کے خلفاء کرام کی نیز اولاد امجاد کی کوئی بھی تفصیل کتب تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے صرف حضرت محی الدین ابو نصر محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتذکرہ اکثر مورخین نے تحریر فرمایا ہے۔ اور انہیں کو آپ نے اپنی خلافت ونیابت سے نوازا ہے۔
وصال: آپ مطابق شجرۃ قادریہ رضویہ 27رجب المرجب 632ھ کو محبوب حقیقی سے جاملے۔ ’’اِنَّا لِلہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘ مگر بعض لوگوں نے 6 شوال،13/شوال، 16شوّال 633ھ لکھا ہے۔ آپ نے ستر سال کی عمر میں صبح صادق کے وقت وصال فرمایا۔
مزار مبارک: آپ کا مزار مقدس بغداد شریف میں روضۂ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مرجع خلائق ہے۔
ماخوذ از: تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ
شجرہ شریف میں اس طرح ذکر ہے:
نصر ابی صالح کا صدقہ صالح و منصور رکھ۔۔۔۔۔ دے حیات دیں محی جاں فزا کے واسطے