حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی مقبول علیہ الرحمۃ
ان کا نام یحٰی بن حبش ہے۔مشائیوں اور اشراقیوں کی حکمت میں بڑے متبحر تھے"اور دونوں میں لائق تصنیفات اور عمدہ تالیفات رکھتے ہیں۔بعضوں نے ان کو سیمیا کی طرف منسوب کیا ہے۔کہتے ہیں کہ ایک دن ایک جماعت کے ساتھ دمشق سے باہر نکلے اور بکریوں کے گلہ مین پہنچے۔اس جماعت نے کہا"ہم کو ایک بکری چاہئے۔ایک بکری کو پکڑلیا"اور دس درم ترکمان کو دئے"جو بکریوں کا مالک تھا۔وہ اس میں عذرکرتا تھا"اور کہتا تھا کہ اس سے چھوٹی بکری لے لو۔شیخ نے ساتھیوں سے کہا کہ تم چلے جاؤ"اور بکری لے جاؤ کہ میں اس کو خوش کردوں گا۔وہ چل دئے۔آپ اس سے باتیں کرتے رہے"اور اس کے دل کو خوش کرتے تھے۔یہاں تک کہ وہ لوگ دور نکل گئے۔پھر آپ ان کے پیچھے جاتے تھے۔ترکمان بھی ان کے پیچھے جاتا تھا اور چلاتا تھا۔جب وہاں تک پہنچ گیا"تو اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کر کھینچا کہ کہاں جاتا ہے؟اس کا ہاتھ شانہ سے جدا ہوگیا اور ترکمان کے ہاتھ میںرہا۔خون بہنے لگا"ترکمان ڈرا۔اس کو پھینک کر خود بھاگ گیا۔اس کو لے کر یاروں تک پہنچا۔اس کے ہاتھ میں فقط رومال تھا۔امام یافعی کہتے ہیں"برے کام ہیں۔جو ان کے ہیں"اور وہ برے لوگ ہیں"جویہ کام کرتے ہیں۔وہ برے کام ہیں کہ جن کا یہ انجام ہو اور ان کے یہ اشعار ہیں۔
حرام علی الجساد المظلمۃ ان یلحق فی ملکوت السموت
وحداللہ سبحانہ وانت بتعظیما ملان واذکرہ وانت من ملا بل لاکوان وریان
اللہ سبحانہ کی توحید بیان کر ،اس حالت میں کہ تو اس کی تعظیم سے لبریز ہے ۔اس کو یاد کر ،اس حالت میں کہ موجودات کے لباس سے برہنہ ہےاور ان کے اشعار میں سے یہ شعر ہیں۔
خلعت ھیا کلھا بجرعاء الحمی وصیت لمعناھا القدیم تشوقا
وتلفتت انحو الدیار فشاقھا ربع عفت اطلالہ فتمزقا
وقفت مشائلہ فردجوا بھا رجع الصدی ان لا سبیل الی اللقا
وکانھا برق تانق بالحمی ثم انطوری وکانہ ما ابرقا
یعنی باہر نکل آیا۔نفس طبیعت اور شکل کی احکام سے ایسی منزل ہیں کہ ربیع کی نہایت منزل ہے اور شوق سے اپنی منزل قدیم کا میلان کیا کہ مجردوں کا مقام ہے،اور دیکھا ان منزلوں کو جن کو قطع کیا تھا۔پھر آرزومند ہوا،ان منزلوں کا کہ جس کے آثار پرانے ہو چکے تھے۔ٹھہرا اس مقام میں اور منزل کے حال سے سوال کیا ،مگر جواب میں صرف سوال کی آواز کو سنا۔جو اس کے سوال کے جواب ہوئی۔جس سے معلوم ہوا کہ اس منزل کی ملاقات کا کوئی طریق نہیں ہے۔گویا کہ وہ بجلی چمکنے والی تھی ۔چراگاہ میں پھر لپٹی جاتی تھی۔گویا کہ چمکنی ہی نہ تھی۔امام یافعی کی تاریخ میں مذکور ہے کہ ان کو اعتقاد کے بگاڑاور حکما متقدمین کے طریق کے اعتقاد سے متہم کیا گیا تھا۔جب وہ حلب میں گئے،تو وہاں کے علماءنے ان کے قتل کا فتوی دیا۔بعض کہتے ہیں کہ ان کو قید کردیا گیااور گلا گھونٹ کر مار دیا گیا۔بعض کہتے ہیں کہ قتل اور سولی دیا گیا۔بعض کہتے ہیں کہ ان کو قتل کے اقسام میں اختیار دیا گیا۔چونکہ وہ نفس کی ریاضت کےعادی تھے۔یہ اختیار کیا کہ ان کو بھو ک سے مارڈالیں۔چنانچہ ان کا کھانا بند کردیا۔یہاں تک کہ فوت ہوئے۔ان کی عمر ۳۶سال کی تھے یا ۳۸سال کی،اور یہ واقعہ ۵۸۷ھ میں ہوا۔حلب کے لوگ ان کے بارہ میں مختلف تھے۔بعض تو ان کو زندیق کہتے تھے،اور بعض ان کو ولی صاحب کرامات جانتے تھے،اور کہتے تھے قتل کے بعد ان کی بہت سی کراماتظاہر ہوئیں اور یہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔باوجود یہ کہ شیخ شمس الدین تبریزی علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہےکہ شہر دمشق میں شیخ شہاب الدین کو علانیہ کافر کہا کرتے تھے۔میں کہتا ہوں کہ پناہ بخدا اگر وہ کافر ہوں۔کیونکہ جب وہ شیخ شمس کی خدمت میں پورے صدق سے آئے،تو بدر کامل بن گئے۔میں نیاز مند ان صادق کا بہت ہی نیازمند ہوں،لیکن اس کے منکروں سے بہت ہی متکبر ہوں۔شیخ شہاب الدین کا علم وقل پر غالب تھا۔عقل کو چاہیے کہ علم پر غالب ہو۔حاکم دماغ کا محل عقل ہے،ضعیف ہوگیا تھا۔علم ارواح میں ایک گروہ ذوق حاصل کرکےنیچے اترے ہیں،اور مقیم ہوتے ہیں۔عالم ربانی سے باتیں کرتے ہیں،لیکن وہی عالم ارواح ہے کہ ربانی پہچانتے ہیں،مگر خدا کا فضل ہویا کوئی جذبہ ہویا کوئی مرد ہوکہ اس کو بغل میں لے اور عالم ارواح سے عالم ربانی تک لےجائے۔
(نفحاتُ الاُنس)
//php } ?>