حضرت شیخ یعقوب صرفی کشمیری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت شیخ یعقوب۔لقب: حضرت ایشاں[1]،جامی ِثانی،صرفی۔خطۂ کشمیر کی نسبت سے’’کشمیری‘‘ کہلاتےہیں۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:حضرت علامہ مولانا شیخ یعقوب صرفی کشمیری بن شیخ حسن گنِائی[2] بن میر علی بن میر بایزیدعلیہم الرحمہ[3]۔آپکاخاندانی تعلق وادیِ کشمیر کےامراء میں سےہے۔اسی طرح آپ خود بھی امرائےسلطنت میں ایک اہم مقام پر فائز تھے[4]۔اسی طرح سلسلہ ٔنسب امیر المؤمنین حضرت سیدنا فاروق اعظمکےفرزندحضرت عاصمکی اولادسےہے۔اسی نسبت سےآپ’’عاصمی‘‘کہلاتےہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 908ھ،مطابق 1502ء کو’’سری نگر‘‘کشمیر میں ہوئی[5]۔’’مقدمہ دیوانِ صرفی‘‘ میں آپ کی تاریخِ ولادت 928ھ/1522ء ہے۔
تحصیلِ علم: بچپن میں ہی ذہانت،تیز فہمی،اور سعادت مندی کےآثار آپ کی پیشانی سے ظاہر تھے۔سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔اس کےبعد علوم نقلیہ وعقلیہ کی تحصیل میں مصروف ہوگئے۔آٹھ سال کی قلیل عمر میں آپ نےفارسی زبان میں اشعار کہنا شروع کیے۔آپ کےوالد گرامی بھی ایک بلند پایہ فاضل تھے۔وہ آپ کےاشعار کی اصلاح کیا کرتےتھے۔چنانچہ آپ خودفرماتےہیں:
؏: چودر سال ہشتم نہادم قدم۔۔۔۔زطبعم رواں گشت شعر عجم۔۔۔۔پدر کردے اصلاح اشعار من۔۔۔۔دراں کار بودے مددگار من۔۔
آپنےبہت سارے اساتذہ جوا س وقت کی فاضل ترین ہستیوں میں شمار ہوتےتھے تحصیلِ علوم کیا۔ان میں مولانا شاہ محمد آنی(جو مولانا عبدالرحمن جامیکے شاگردِ رشید تھے،سیالکوٹ سےکشمیرتشریف لےگئے، اور پھر وہیں مقبرہ شیخ بہاء الدین گنج بخشمیں آرام فرماہیں)اوران کےعلاوہ حضرت اخوندملا بصیر سےبھی علمی استفادہ کیا۔اسی طرح حضرت شیخ المحدثین ابنِ حجر مکیسےسندِ حدیث حاصل کی۔آپ کی ذہانت وفطانت اور علمی صلاحیتوں کی بدولت آپ کےاستاد ملاآنی نے آپ کا اسم گرامی ’’جامیِ ثانی‘‘ رکھا[6]۔
بیعت وخلافت:آپ حضرت خواجہ حسن عاصمیکےخلیفہ تھے۔ آپ سید امیر کبیر ہمدانی کے اویسی تھے۔ آپ حضرت شیخ کمال الدین حسینی خوارزمی کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ہوئے،اور انہیں کے حکم سے سمر قند پہنچے اور حضرت خواجہ حسین خوارزمی کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔
سیرت وخصائص: جامع کمالات ِ صوری ومعنوی،مظہر اسرار ربانی،مفخر اربابِ حقانی،الملقب امام اعظم ثانی،حضرت علامہ مولانا شیخ یعقوب صرفی کشمیری۔بڑے عالم فاضل،فقیہ، محدث جامع علوم ظاہری و باطنی تھے۔خطۂ کشمیر آپ کےانوار وفیوضات سےمنو رہے۔اس خطےمیں آپ نےرسول اللہﷺ کےدین کی بڑی خدمت فرمائی ہے۔لوگوں کودین سے روشناس کرایا۔ایک ایسی درگاہ کی بنیاد رکھی جہاں دور دراز علاقوں سے متلاشیانِ علم آکر علم حاصل کرتےتھے۔آپ کےاستاد محترم ملا آنی نے آپ کےغیر معمولی فہم وادراک، فصاحت وبلاغت، اور سخن گوئی میں مولانا جامی کارتبہ حاصل کرکے’’جامیِ ثانی‘‘کےلقب سےمشہور ہوجائیں گے۔آپ کی یہ پیشین گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔چنانچہ آپ خود فرماتےہیں۔؏: بعد خسرو بود جامی بلبل باغِ سخن۔۔۔۔۔کیست جز صرفی کنوں آں مرغ خوشخواں را عوض۔۔۔
تحصیلِ علم کے بعد ریاضت اور عبادت میں اس طرح مشغول ہوئے کہ اولیاء اللہ میں شمار ہونے لگے۔جب ابتداء ً تصوف کی طرف میلان ہوا توآپ کے والدین اور عزیزوں نے آپ کو ایسے امور سے روکنا چاہا۔ حضرت امیر کبیر ہمدانی نے ان لوگوں کو خواب میں متنبہ کرکے ایسےامور سےروک دیا۔ پھر حضرت یعقوب ہزاروں شوق کے ساتھ کشمیر سے عازمِ سمر قند ہوئے۔شیخ حسین خوارزمی کی خانقاہ کے دروازے کے باہر قیام کیا۔ شیخ حسین باطنی طور پر آپ کی آمد سے مطلع ہوچکے تھے۔ استقبال کے لیے تشریف لائے اور آپ کو ساتھ لے کر اندر آئے۔حضرت یعقوب صوفی نے گذارش کی حضور مجھے خانقاہ کی کسی خدمت پرمامور فرمائیں۔آپ کو مطبخ (باورچی خانہ)کے لیے لکڑیاں لانے اور وضو خانہ کی صفائی کےلیےمقرر کیا گیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں تکمیل و تر تیب سے مراحل سے گزرے۔ خرقہِ خلافت عطا ہوا اور پھر کشمیر کی طرف واپس ہوئے۔آپ کشمیر پہنچے ہی تھے کہ علماء و صلحاء نے آپ کی مجلس کو حاضری سے بھر دیا۔ آپ کا فیض عام ہونے لگا۔ ارشاد و ہدایت کے دروازے کھل گئے۔ سالکین کی جماعتیں اور طالبین کے ہجوم جمع ہونے لگے۔
ایک عرصہ کے بعد آپ کے دل میں اپنے پیر و مرشد کی زیارت کا شوق اٹھا۔ اور آپ پھر سمر قند کو روانہ ہوئے۔وہاں سےرخصت پاکر مشہد، بغداد،ختلان، مکہ معظمہ،اور مدینۃ المنورہ میں کچھ عرصہ قیام رہا۔وہاں حضرت شیخ المحدثین حضرت ابن حجر مکی اور شیخ الاولیاء حضرت شیخ سلیم چشتی فتح پوری ملاقات ہوئی،ان سےسلسلہ عالیہ چشتیہ خرقۂ خلافت حاصل کیا۔اس سفر میں آپاپنے ساتھ بہت سارے تبرکات مختلف مقامات سےلائے،ان میں خصوصا جبہ شریف حضرت امام اعظم،حضرت امام علی رضا کاعصا مبارک، اور حضرت بایزید بسطامی کی کلاہ مبارک۔
ان دنوں ایران میں صفوی خاندان حکمران تھا۔ شیعہ لوگ سنّیوں کو چن چن کر تکلیفیں دیا کرتے تھے۔شاہ طہما سپ صفوی کے حکم سے سنّی علما کو قتل کردیا جاتا تھا۔ شیخ یعقوب نے بادشاہ سے ملاقات کرنا چاہی اور اپنی کرامات اور خوارق کے اظہار سے بادشاہ کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ آپ نے شاہ طہما سپ کو اس بات پہ آمادہ کیا کہ وہ سنّیوں کے بے دریغ قتل سے اپنا ہاتھ روک لے۔ چنانچہ آپ کی نصیحت کا بڑا خوشگوار اثر ہوا۔ دور دراز ممالک کے سفر کے بعد آپ دوبار خطۂ کشمیر میں وارد ہوئے یہ وہ زمانہ تھا کہ وادی کشمیر میں مذہبی اور نظریاتی کش مکش زوروں پر تھی۔ مختلف علاقوں کے حکمران آپس میں جنگ و جدل میں مصروف رہتے تھے۔ مذہبی تعصّب سے ملک کا سکون تباہ ہوچکا تھا۔ آپ نے کوشش کی کہ ان حالات کو بدلا جائے اور حالات کو معمول پر لایا جائے۔ آپ کی کوششوں سے تمام کشمیر پر اکبر بادشاہ کا تسلّط ہوگیا۔ یعقوب خان جو بڑا متعصب رافضی تھا گرفتار ہوگیا۔مغل حکمرانوں کے عمل دخل نے کشمیر میں امن قائم کیا۔ خانہ جنگی ختم ہوگئی اور باہمی اتفاق کی فضاء قائم ہوئی۔ آپ تیسری بار خطۂ کشمیر سے نکلے اور حرمین الشریفین کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ایک سال بعد ایک بہت بڑا کتب خانہ جس میں احادیث اور تفاسیر کا خزینہ تھا اپنے ساتھ لائے خلق خدا کو پھر زیور علم و عرفان سے مالا مال کرنے لگے۔آپ کےکتب خانے میں پینسٹھ ہزار اہم مخطوطات اب بھی موجود ہیں۔آپنےپچیس سال کی عمر میں نکاح کیا،اور آپ کاایک فرزندمحمد یوسف نامی تولد ہوا،جو عہد شباب میں ہی رحلت کرگیا۔
امام ربانی حضرت مجدد الفِ ثانی کی عقیدت: حضرت مجدد الفِ ثانیکو آپ سےبہت عقیدت تھی،اور انہوں نےآپ سےکتبِ حدیث کا درس لیا،سند لی،اور آپ نےسلسلہ کبرویہ میں اجازت عطاء فرمائی[7]۔اسی سےآپ کی عظمت وعلمی مقام کااندازہ کیاجاسکتاہے،کہ حضرت امام ربانی جیسی عظیم شخصیت آپ کےتلامذہ میں سےہیں۔
مولانا عبدالقادر بدایونیاکابر علماء میں سےتھے۔اکبر بادشاہ کےقریب تھے۔’’منتخب التواریخ‘‘ کتاب مشہور ِزمانہ ہے۔مولانا بدایونی آپ کےہم عصر تھے۔وہ فرماتےہیں: حضرت صرفی اپنے وقت کی ممتاز ترین شخصیتوں سےمیں سےایک تھے۔تمام علوم،تفسیر ،حدیث، اور تصوف میں یگانۂ روزگارتھے۔بادشاہ اکبر اور ہمایوں دونوں شیخ صرفیسےپوری عقیدت تھی،اور بہت تعظیم کیاکرتےتھے[8]۔
اسی طرح تمام مؤرخین،اور فضلاء متفق الرائے ہیں کہ حضرت شیخ صرفی کےپایۂ کا دوسرا فاضل، سرزمینِ کشمیر میں پیدانہیں ہوا۔آپ نےتصانیف کی صورت میں ایک اہم ذخیرہ یاد گار چھوڑا ہے۔جن میں سے تفسیر قرآن شریف نا مکمل،شرح صحیح بخاری،مغازی النبیﷺ،حاشیہ توضیح و تلویح،مسلک الاخیار،کتاب مناسکِ حج،روائح،وامق و عذرا، رسالہ اذکار،لیلیٰ مجنوں، مقاماتِ مرشد، جواہرِ خمسہ،شرح رباعیات،پنج گنج،خمسہ نظامی،کنزالجواہر،تفسیرپارۂ تبارک وعم،دیوانِ صرفی وغیرہ مشہور و معروف ہیں[9]۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال بروزجمعرات بعد نماز عشاء،12/ذیقعدہ1003ھ،مطابق 20/جولائی1595ءکوہوا۔آپ کامزار پرانوار محلہ’’ایشاں صاحب،سری نگر،مقبوضہ کشمیر‘‘میں مرجعِ خلائق ہے۔
[1] کشمیرمیں عام لوگ آپ کو’’حضرت ایشاں‘‘ کےنام سےجانتے ہیں۔آپ نے ایک عرصہ ترکستان میں گزارا وہاں یہ لفظ بطورِ تعظیم استعمال ہوتا ہے۔
[2] گنِائی عالم وفاضل شخص کو کہتےہیں۔
[3] مقدمہ دیوانِ صرفی
[4] خزینۃ الاصفیاء:323
[5] خزینۃ الاصفیاء:324/حدائق الحنفیہ:416
[6] خزینۃ الاصفیاء:324
[7] مقدمہ دیوانِ صرفی/سیرت مجدد الفِ ثانی۔از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد
[8] مقدمہ دیوان صرفی۔
[9] حدائق الحنفیہ:415/خزینۃ الاصفیاء:325