حضرت شیخ یعقوب صوفی کشمیری
حضرت شیخ یعقوب صوفی کشمیری علیہ الرحمۃ
آپ خواجہ حسن عاصمی کے خلیفہ تھے۔ امرائے سلطنت کشمیر میں ایک اہم مقام پر فائز تھے ۹۰۸ھ میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ مولانا محمد (جو مولانا عبدالرحمان جامی کے شاگرد رشید تھے۔) سے ظاہر علوم پڑھے۔ استاد نے ازرۂ قابلیت آپ کا اسم گرامی جامی ثانی رکھا۔ تحصیل علم کے بعد ریاضت اور عبادت میں اس طرح مشغول ہوئے کہ اولیاء اللہ میں شمار ہونے لگے۔ آپ سید امیر کبیر ہمدانی کے اویسی تھے آپ حضرت شیخ کمال الدین حسینی خوارزمی کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ہوئے۔ انہیں کے حکم سے سمر قند پہنچے اور حضرت حسین خوارزمی کی صحبت سے فیضیاب ہوئے۔ آپ کے والدین اور عزیزوں نے آپ کو ایسے امور سے روکنا چاہا۔ حضرت امیر کبیر ہمدانی نے ان لوگوں کو خواب میں متنبہ کرکے روک دیا۔ حضرت یعقوب ہزروں شوق کے ساتھ کشمیر سے عازم سمر قند ہوئے۔ خانقاہ کے دروازے کے باہر قیام کیا۔ شیخ حسین باطنی طور پر آپ کی آمد سے مطلع ہوچکے تھے استقبال کے لیے تشریف لائے اور آپ کو ساتھ لے کر اندر آئے۔ حضرت یعقوب صوفی نے گذارش کی حضور مجھے خانقاہ کی کسی خدمت میں مامور فرمائیں آپ کو مطبخ کے لیے لکڑیاں لانے کے لیے مقرر کیا گیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں تکمیل و تر تیب سے مراحل سے گزرے۔ خرقہِ خلافت عطا ہوا اور پھر کشمیر کو واپس ہوئے آپ کشمیر پہنچے ہی تھے تو علماء و صلحا نے آپ کی مجلس کو حاضری سے بھر دیا۔ آپ کا فیض عام ہونے لگا۔ ارشاد و ہدایت کے دروازے کھل گئے۔ سالکین کی جماعتیں اور طابین کے ہجوم جمع ہونے لگے۔ ایک عرصہ کے بعد آپ کے دل میں اپنے پیر و مرشد کی زیارت کا شوق اٹھا۔ اور آپ پھر سمر قند کو روانہ ہوئے۔ حضرت مرشد گرامی نے آپ کو حرمین الشریفین کی زیارت کا حکم دیا۔ وہاں سے مشہد مقدس کو روانہ ہوئے۔
ان دنوں ایران میں صفوی خاندان حکمران تھا۔ شیعہ لوگ سنّیوں کو چن چن کر تکلیفیں دیا کرتے تھے شاہ طہما سپ صفوی کے حکم سے سنّی علما کو قتل کردیا جاتا تھا۔ شیخ یعقوب نے بادشاہ سے ملاقات کرنا چاہی اور اپنی کرامات اور خوارق کے اظہار سے بادشاہ کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ آپ نے شاہ طہما سپ کو آمادہ کیا وہ سنّیوں کے قتل بے درغ سے ہاتھ روک لے۔ چنانچہ آپ کی نصحیت کا بڑا خوشگوار اثر ہوا۔ وہاں سے آپ بغداد تشریف لے گئے۔
بغداد میں پہنچ کر آپ نے شیخ المحدثین علامہ ابن حجر مکی قدس سرہ سے ایک جبہ مبارک حاصل کیا جو امام الایٔمہ امام اعظم ابو حنیفہ کا تبرّک تھا۔ وہاں سے شیخ سلیم چشتی فتح پوری سے ملاقات ہوئی۔ اور سلسلہ عالیہ چشتیہ میں خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ دور دراز ممالک کے سفر کے بعد آپ دوبار خطہ کشمیر میں وار ہوئے یہ وہ زمانہ تھا۔ کہ وادی کشمیر میں مذہبی اور نظریاتی کش مکش زوروں پر تھی۔ مختلف علاقوں کے حکمران آپس میں جنگ و جدل میں مصروف رہتے تھے۔ مذہبی تعصّب سے ملک کا سکون تباہ ہوچکا تھا۔ آپ نے کوشش کی کہ ان حالات کو بدلا جائے اور حالات کو معمول پر لایا جائے۔ آپ کی کوششوں سے تمام کشمیر پر اکبر بادشاہ کا تسلّط ہوگیا۔ یعقوب خان جو بڑا متعصب رافضی تھا۔ گرفتار ہوگیا۔ مغل حکمرانوں کے عمل دخل نے کشمیر میں امن قائم کیا۔ خانہ جنگی ختم ہوگئی۔ اور باہمی اتفاق کی فضا قائم ہوئی۔ آپ تیسری بار خطۂ کشمیر سے نکلے اور حرمین الشریفین کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ایک سال بعد سوئے۔ اور ایک بہت بڑا کتب خانہ جس میں احادیث اور تفاسیر کا خزینہ تھا۔ اپنے ساتھ لائے خلق خدا کو پھر زیور علم و عرفان سے مالا مال کرنے لگے۔
آپ کی وفات بروز جمعرات بعد از نماز عشاء ۱۲؍ ماہ ذیقعدہ ۱۰۰۳ھ کو ہوئی۔ مادہ تایخ وفات شیخ امم (۱۰۰۳ھ) شیخ اہل مجد (۱۰۰۳ھ) شیخ اوحد دین (۱۰۰۳ھ)شیخ الباطن (۱۰۰۳ھ) شیخ باکمال (۱۰۰۳ھ) سے تواریخ وفات تواریخ اعظمی میں درج ہیں۔ آپ نے بڑی تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں جن میں تفاسیر۔ سِلک الاخبار۔ وامق و عذرا۔ لیلی مجنوں۔ مغازی النبوت۔ مقامات مرشد۔ پنچ گنج خمسہ نظامی پر ایک جواب۔ مناسک حج۔ شرح صحیح بخاری۔ حاشیہ توضیح و تلویح۔ تفسیر پارۂ تبارک و عم روائح شرح۔ رباعیات۔ رسالۂ اذکار۔ دیوان اشعار آپ کی یاد گار ہیں۔
چو شد یعقوب زیں دہر پر آفت |
|
بسال وصل آن شیخ زمانی |
(خزینۃ الاصفیاء)