حضرت سید عبدالقادر پیر حاجی شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ
ف ۱۳۶۳ھ
آپ کا شجرہ اس طرح ہے: سید عبدالقادر جیلانی المعروف پیر حاجی شاہ جیلانی بن حضرت سید سخی بچل شاہ(ثانی) جیلانی بن سید شجاع محمد جیلانی بن سید بچل شاہ (اول) جیلانی بن سید علی اکبر شاہ جیلانی بن حضرت سید فتح محمد شاہ جیلانی بن سید نور محمد جیلانی بن سید اسماعیل جیلانی بن سید ابو الوفا قادری شیخ جیلانی بن سید شیخ شہاب الدین جیلانی بن سید شیخ بدر الدین جیلانی بن سید شاہ علاؤ الدین جیلانی بن سید چراغ الدین بن سید ثمین الدین بن حضرت سید قاضی القضاۃ عماد الدین بن سید شیخ ابو بکر تاج الدین بن حضرت شیخ الشیوخ سیدنا عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ورضو عنہ، حضرت عبدالقادر شاہ جیلانی المعروف پیر حاجی شاہ رحمہ اللہ ایک عارف ، کامل اور بے مثال زاہد و عابد تھے۔ فصاحت و بلاغت حاضر جوابی اور قوت گویائی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا آپ کے ہمعصر حضرت پیر آغا مولانا محمد حسن جان سرہندی مجددی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اس دور میں تین اشخاص اپنے اوصاف میں عدیم النظیر ہیں عباس علی شاہ گالیوں میں محمد اشرف تھیبور پا شریف والے سخا میں اور حضرت پیر حاجی شاہ گفتگو اور قادر الکلامی میں ثانی نہیں رکھتے۔ جو بھی ایک مرتبہ آپ کی محفل میں شریک ہوتا تو آپ کا گرویدہ ہوجاتا۔ درمیانہ قد، گول نورانی چہرہ، گھنی ڈاڑھی آنکھوں سے نور برستا تھا سر پر عمامہ شریف باندھتے تھے۔ آپ نے کئی حج کیے اور دو مرتبہ بغداد شاہ نجف اشرف اور کربلائے معلی گئے۔ حضرت سید احمد اشرف الدین جیلانی قادری سجادہ نشین دوبارہ حضورغوث اعظم بغداد (جن کے پوتے سید یوسف الگیلانی اس وقت صاحب سجادہ ہیں) کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے ۔ حضرت مولانا محمد بخش جیلانی فرمایا کرتے تھے کہ والد ماجد حضرت حاجی شاہ بڑے عبادت گذار اور رات کے وقت مسجد کی چھت پر چھپ کر تہجد کی نماز پڑھتے اور ریاضت و عبادت کیا کرتے تھے۔ بزرگان دین کے مزار پر اکثر جایا کرتے تھے۔ آپ ہی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حاجی شاہ علیہ الرحمۃ کے ایک مرید خاص حضرت حاجی پیر شاہ لکیاری محراب پور تحصیل سکرنڈ ضلع نواب شاہ والے۔ حضرت دادا جان حاجی شاہ کے بنگلے کی تعمیر کے لیے دو کشتیاں سامان کی لاد کر نورائی شریف لائے حضرت قبلہ موصوف کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ نے برہمی کا اظہار فرمایا اور ناراض ہو کر پیر شاہ سے فرمانے لگے کہ میرے والد محترم سخی بچل شاہ لکڑی کے بنے ہوئے مکان میں رہتے تھے لیکن میں نے یہ جرات کی کہ کچا مکان بنوا ڈالا ہے او اب آپ مجھ کو پکا بنوا کے دے رہے ہیں ۔ اس بات سے میں سخت نفرت کرتا ہوں مجھے ہر گز یہ مکان نہیں چاہیے۔ لہٰذا اپنا سامان واپس لے جاؤ اور اگر زیادہ اصرار کیا تو مریدی سے خارج کردوں گا۔ پیر شاہ نے عرض کیا کہ حضور سامان اگر واپس لےگیا تو دنیا ہنسی اڑائے گی تو آپ نے فرمایا کہ اگر دنیا کی ہنسی کا خیال ہے تو اسی سامان سے حضرت ددیا کے پیر کی مزارپر چوکنڈی (روضہ) اور نورائی شریف کی کچی مسجد ہے اس کو پکا بنوا دو۔ چناں چہ اسی سامان سے درگاہ شریف کی چوکنڈی (روضہ) اور مسجد جیلانی تعمیر کروا دی جو آج تک موجود ہے۔ حضرت مولانا محمد بخش شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ سے روایت ہے کہ حضرت دادا جان عبدالقادر شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ کو حاجی شاہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی ولادت ۹ ذی الحجہ کو ہوئی تھی۔ آپ نے اپنی وفات والے دن نماز عصر کے بعد تمام حاضرین دربار مریدین اور بستی کے مکینوں کو بلایا اور ان سے رخصت لی، نماز مغرب کے بعد رشتے داروں کو بلایا ان سے بھی رخصت لی۔ نماز عشاء کے بعد اپنے گھر والوں بیٹوں اور بیٹیوں کو جمع فرمایا اور ان سے اپنی زندگی کی آخری محفل سجائی اور مولانا محمد بخش شاہ چوں کہ آپ کے فرزند اکبر تھے ان کو وصیت و نصیحت فرمائی اور فرمایا بیٹے میں اب آپ سے رخصت ہوا چاہتا ہوں اور آج میری یہ آخری محفل ہے اور میرے جانے کا وقت پورا رات کا ایک بجے ہے۔ مولانا صاحب نے فرمایا کہ میں نے حضرت کی نبض (پلس) دیکھی تو اپنے معمول پر تھی ہلکی سی بدن پر حرارت تھی ہمیں بالکل یقین نہیں آرہا تھا کہ آیا ہم سے ابھی ہمارا سایہ اٹھ جائے گا۔ آپ بات چیت بھی بالکل صحیح فرما رہے تھےحتیٰ کہ رات کے ایک بجنے میں صرف ۵ منٹ تھے تو مجھے سورۂ یاسین شریف پڑھنے کا حکم فرمایا او ر اپنے تمام اعضاء خود درست کیے اور باآواز بلند میں فرمایا کہ تم لوگ گواہ ہونا کہ پیر حاجی شاہ دنیا سے باایمان گیا بس آپ نے اونچی آواز سے کلمہ طیبہ پڑھا اور واصل بحق ہوگئے۔ ۶۳ سال کی عمر پائی ۱۹/ شوال المکرم/۱۳۶۳ھ بروز پیر آپ کی تاریخ وفات ہے۔ آپ کا مزار آپ کے والدماجد حضرت سید بچل شاہ جیلانی کے پائنتی نورائی شریف میں واقع اور ماویٰء مخلوق ہے۔
(یہ معلومات میری ذاتی ہیں۔ ۱۲)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )